اسٹیفن ہاکنگ اور ہماری اوقات

مہناز اختر

آج معروف برطانوی سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ 76 برس کی عمر میں انتقال کرگئے ہیں۔ ہاکنگ نظریاتی طبیعات کے شعبہ میں ماہر سائنس دان مانے جاتے تھے۔ اسٹیفن ہاکنگ کو بین الاقوامی شہرت 1988ء میں منظرِ عام پر آنے والی ان کی کتاب ‘اے بریف ہسٹری آف ٹائم’ (وقت کی مختصر تاریخ) سے ملی جو دنیا میں مقبول ترین کتاب سمجھی جاتی ہے۔ آج دنیا بھر میں سائنس سے محبت کرنے والے ان کی موت پر صدمے کی کیفیت میں ہیں اور پاکستانی بھی اس طرح غم زدہ ہیں، جیسے دنیا کے باقی لوگ مگر علمی دنیا کے اتنے بڑے نقصان پر بھی ہمارے کچھ حضرات اپنی اوقات دکھانے سے بعض نہیں آئے اور ایک منظم طریقے سے ایک مخصوص بیانیہ کا اظہار کاپی پیسٹ کے ذریعے کرتے نظر آرہے ہیں, وہ بیانیہ یہ ہے۔ ’’دنیا میں الحاد اور دہریت کا پرچار کرنے والا سٹیفن ہاکنگ بالآخر دنیا کے تمام ملحدین کو سیلیبریٹ کرنے کا موقع فراہم کرتے ہوئے واصل سائنس ہو گیا۔

موصوف کا ماننا تھا کہ خدا کا کوئی وجود نہیں اور دنیا سائنسی قوانین کے تحت خودبخود چل رہی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں یہ بھی یقین تھا کہ آخر سائنس ہی جیتے گی کیونکہ یہ کام کرتی ہے۔‘‘ بحوالہ : وکی پیڈیا “سٹیفن ہاکنگ ریلیجن اینڈ پولیٹیکل ویوز”۔

افسوس اس بات کا ہے کہ خدا کو جھٹلا کر جس سائنس پر وہ اندھا دھند یقین رکھتے تھے، وہ سائنس بھی انہیں “موت” سے نہ بچا سکی اور سائنس کی جیت کا دعویٰ کرتے کرتے وہ یہی حسرت دل میں لیے دنیا سے چلے گئے کہ شاید سائنس انہیں ہمیشہ زندہ رہنے کا کوئی فارمولا دے کر موت سے بچا لے۔
مگر افسوس۔ اسی لیے قرآن نے بار بار انسان کو تنبیہہ کی کہ وہی اللہ ہی ہے جس نے زندگی اور موت کو پیدا کیا اور بے شک تمہیں اسی (اللہ) کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

(صد افسوس ان جیسے لوگوں کے رویّوں پر) جن لوگوں نے اسٹیفن ہاکنگ، کارل سیگن اور کیرن آرم اسٹرونگ کو ایک تسلسل میں پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ سارے لوگ ایک مخصوص اور لازوال کائناتی قوت کے قائل ہیں مگر آج کے کند ذہنوں کے مخصوص “تصور خدا” سے خائف نظر آتے ہیں۔ یہ سارے لوگ حق کے متلاشی اور حقیقت کی راہ کے مسافر ہیں لیکن علم کی قدر وہی کرتے ہیں جنہیں یہ نعمت نصیب ہوتی ہے۔

ہاکنگ جیسے انسان نے دنیا کو اس بات کا سبق دے دیا ہے کہ ایک لاچار وجود کے اندر حیرت انگیز دماغ اور ذہانت کے ساتھ جینا سب سے بہادری کا کام ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ 21 سال کی عمر میں ایک انتہائی مہلک بیماری ‘موٹر نیورون’ کا شکار ہونے کے بعد عمر بھر کے لیے معذور ی کا شکار ہو گئے تھے مگر ان کی زندگی دنیا میں بسنے والے کروڑوں افراد سے بہتر تھی۔ انہوں نے اپنی ذہانت سے دنیا تک وہ علم پہنچایا جو انہیں عطا ہوا تھا. اور بقول اسٹیفن ہاکنگ، ’’میں موت سے خوفزدہ نہیں ہوں لیکن مجھے مرنے کی جلدی نہیں کیونکہ میں بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

مگر یہ باتیں وہ لوگ کبھی نہیں سمجھ سکتے جو جہاد کرنے کے لیے بھی دوسروں کے ہتھیار اور ٹیکنالوجی کے محتاج ہیں اور اگر بیمار یا زخمی ہوجائیں تو علاج کے لیے بھی انہیں “کافروں اور ملحدوں” کے در کی خاک چاٹتے ہیں۔ آج جب دنیا مریخ پر زندگی کے آثار ڈھونڈنے میں مصروف ہے تاکہ مستقبل میں مریخ پر انسانی بستیاں بسائی جاسکے وہاں یہ بیمار ذہنیت والے لوگ اس بات میں اپنی توانائیاں خرچ کررہے ہیں کہ دنیا کو “جہنم” کیسے بنایا جائے کیونکہ یہی ان کی اوقات ہے۔