افغانستان کو ابھی مزید جلنا ہے

عاطف توقیر

ستر کی دہائی کے آخر سے افغانستان ایک مسلسل انتشار کا شکار ہے۔ سماجی ڈھانچا مکمل طور پر زمین بوس ہے، صحت اور تعلیم کا نظام تباہی کا منظر پیش کرتا ہے، سماجی بہبود کا شعبہ زبوں حالی کا دکھ بیان کرتا ہے اور لاکھوں افغان اس مسلسل تباہی اور بربادی میں اپنی تیسری نسل پروان چڑھا رہے ہیں۔ غربت اور افلاس کی وجہ سے قریب ہر افغان گھرانا پریشان حال ہے اور ریاست حتیٰ کہ سماج مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا منظر پیش کر رہا ہے۔

سوویت مداخلت سے قبل تاہم افغانستان ایسا نہیں تھا۔ افغانستان میں کمیونسٹ دور حکومت میں چیزیں آج کے مقابلے میں کہیں مختلف تھیں۔ وہاں نظام تعلیم بھی موجود تھا، ریاستی رٹ بھی موجود تھی، صحت اور بہبود کا بنیادی ڈھانچا بھی کھڑا تھا اور لوگوں کی آج جیسی حالت بھی نہیں تھی۔

سوال یہ ہے کہ تب اور اب میں فرق کیوں ہے؟ وسائل کہاں ہیں؟ حالیہ کچھ برسوں مین بیرون ملک سے آنے والے اربوں ڈالر کیوں دکھائی نہیں دیتے؟ تمام تر بین الاقوامی مدد کے باوجود سماجی ڈھانچا کیوں پیروں پر کھڑا نہیں ہو پا رہا؟

اس کا جواب ایک تو یہ ہے کہ کوئی بھی سماج اس وقت تک جڑ نہیں پکڑ سکتا، جب تک وہ بیرونی سہارے کی بجائے خود اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہو اور دوسری بات جب تک کوئی معاشرہ داخلی تقسیم کا شکار ہو، اسے کوئی طاقت سہارا نہیں دے سکتی۔

پچھلے قریب چالیس برس کی افغان تاریخ یہی بتاتی ہے کہ یہ ملک بیرونی مداخلت اور مفادات کی بھینٹ چڑھ گیا۔ یہاں پاکستان، بھارت اور ایران نے بھی اپنا اپنا پراکسی کھیل کھیلا اور عالمی طاقتیں بھی اس کھیل سے دور نہیں رہیں۔ ان تمام ممالک اور طاقتوں کو یہ کھیل کھیلنے کا موقع اس لیے ملا کیوں کہ سماج میں تقسیم کی وجہ سے ایک بڑا خلا موجود تھا اور جہاں بھی خلا ہو گا، اسے کوئی نہ کوئی ضرور بھرے گا۔

یہ قصہ ہم سب جانتے ہیں کہ اسی کی دہائی میں امریکا اور مغربی طاقتوں نے ڈالروں اور ہتھیاروں کے ذریعے اور سعودی عرب جیسے ممالک نے اپنے مخصوص نظریاتی فائدے کے لیے سرمایہ کے ذریعے  پاکستان کو استعمال کر کے سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ جیتنے کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کی۔ اور پھر سوویت یونین کی شکست کے بعد اس پورے خطے کو لاوارث چھوڑ دیا گیا۔

تاہم نو گیارہ کے واقعے کے بعد ایک بار پھر امریکا کو یہ خطہ یاد آ گیا اور طالبان اور القاعدہ یعنی شدت پسندوں اور دہشت گردوں میں کوئی فرق کیے بغیر آسمانوں سے بم برسنا شروع ہو گئے۔

یہ ایک سادہ سا کلیہ ہے کہ شدت پسند کو سیاسی اور علمی انداز سے شکست دی جا سکتی ہے اور دہشت گرد کے لیے طاقت کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ طالبان ایک شدت پسند نظریے کا حامل گروہ تھا، جس کو افغانستان میں سول سوسائٹی کی مدد کر کے، سخت گیر نظریات کو مکالمت کے ذریعے رفتہ رفتہ کم زور کر کے اور افغانستان میں عام افراد کو زیادہ بااختیار اور باشعور بنا کے طالبان کو شکست دی جا سکتی تھی جب کہ اس وقت القاعدہ سے وابستہ دہشت گردوں کی تعداد شاید انگلیوں پر گننے لائق تھی۔

امریکا یا کوئی بھی ملک کسی بھی خطے میں دلچسپی صرف اور صرف اس وقت تک رکھتا ہے، جب تک اس کے مفادات اس علاقے سے وابستہ ہوں۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکا نے طالبان کی اس دور کی حکومت سے کہا تھا کہ اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کر دیا جائے۔ طالبان نے نہیں کیا، تو امریکا نے خود عسکری مداخلت کر کے بن لادن کو ہلاک کر دیا۔ یعنی بنیادی طور پر امریکا جس مقصد کے لیے افغانستان آیا تھا وہ پورا ہو چکا اور اسے اس کے علاوہ کسی چیز میں کوئی دلچسپی بھی نہیں۔

امریکا میں جب جب بھی میری کسی اہم شخص سے گفت گو ہوئی۔ اس کا یہی کہنا تھا کہ ہم افغانستان میں اپنے فوجی کیوں رکھیں اور اپنا پیسہ کیوں ضائع کریں۔ جب کہا کہ دوسری صورت میں تو طالبان پھر وہاں اپنی طرز کی شرح والا اسلام نافذ کر کے عام افراد کی زندگیاں اجیرن بنا دیں گے، تو اس پر ان کا یہی کہنا رہا کہ اس سے ہمیں کیا فرق پڑتا ہے؟

یعنی اگر طالبان افغانستان میں اسکول تباہ کرتے ہیں، خواتین کے گھروں سے باہر نکلنے پر پابندی عائد کر دیتے ہیں، لوگوں کو سرعام سنگسار کرنے اور گولیاں مار کر ہلاک کرنے کے واقعات ہوتے ہیں، تو امریکا کو اس سے کیا غرض ہے۔ افغان جانیں طالبان جانیں۔ اسامہ بن لادن نے حملہ کیا تھا، ہم نے اسے جا کر ہلاک کر دیا اور القاعدہ کو ہم نے اتنا کم زور کر دیا کہ اب وہ امریکا پر حملے کی صلاحیت جوگی رہی نہیں۔

اسی خود غرضی کا نتیجہ دیکھیے کہ امریکا اٹھارہ برس تک افغانستان میں رہنے کے بعد وہاں سے نکل رہا ہے، تو افغانستان پھر سے ایک آگ اور خون کے بازار میں تبدیل ہو رہا ہے۔ چند روز قبل وہاں ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا گیا اور درجنوں افراد لقمہ اجل بن گئے، اس سے قبل کابل میں کئی مرتبہ اسکول تباہ کیے گئے، بچے قتل ہوئے، زخمی ہوئے، مگر اس سے عالمی برداری کو فرق کیا پڑتا ہے؟

اب طالبان اور امریکا کے درمیان بات چیت میں بھی مدعا افغان عوام نہیں امریکی مفادات ہیں۔ اور مفادات یہ ہیں کہ ایک تو طالبان یہ ضمانت دے رہے ہیں کہ وہ امریکا یا امریکا کے کسی اتحادی ملک کے خلاف کوئی حملہ نہیں کریں گے نہ ہی افغانستان کی سرزمین استعمال ہونے دیں گے۔ ساتھ ہی ایک مخصوص تعداد میں امریکی فوج وہاں موجود رہے گی، جو کسی مخصوص صورت میں امریکی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنائے گی اور باقی طالبان جانیں اور کابل حکومت جانے۔

یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اس وقت کابل حکومت کی افغانستان کے زیادہ تر حصے پر کوئی عمل داری نہیں ہے۔ اس سے بھی بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ ایک مرتبہ پھر افغانستان کی قسمت کے فیصلے افغانستان سے باہر ہو رہے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان اور افغان قوم کو ابھی ایک طویل عرصے آگ اور خون کا یہ کھیل دیکھنا ہو گا۔ امریکا کے جانے کے بعد طالبان، کابل حکومت اور اسلامک اسٹیٹ کی شکل میں ایک نئی داخلی تباہی افغانستان کی منتظر ہے اور ایسے میں بیرونی عناصر بھی اپنے اپنے مفادات کے تحت افغانوں کے گھر تباہ کرتے رہیں گے۔