افغان سہ فریقی مذاکرات، کس کی جیت کس کی ہار؟

 عابدحسین

دوحہ قطر میں افغان سہ فریقی مذاکرات جاری ہیں۔ جس میں افغان امن عمل، امریکی اور اتحادی افواج کا انخلاء اور طالبان کو اقتدار میں حصہ دینے سمیت افغان عوام کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔ کانفرنس کے دوسرے روز ہی امریکہ اور منتخب افغان حکومت کی جانب سے طالبان کو جنگ بندی کے لیئے راضی کرنے پر زور دیا گیا، جس میں تاحال کامیابی نہیں ہوئی۔ اس دفعہ افغان حکومت اور امریکہ طالبان سے براہ راست اور بلاواسطہ مذاکرات کررہے ہیں۔ جیسے ہی قطر میں افغان سہ فریقی مذاکرات کا دور شروع ہوا اس کے ساتھ ہی افغان فورسز پر حملوں میں شدت دیکھی گئی اور ساتھ ہی ساتھ عوامی مقامات پر بم دھماکوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔ مذاکرات شروع ہونے سے ایک یا دو روز پہلے ہی افغان حکومت نے چار اہم طالبان کمانڈرز کو رہا کیا۔ چند مہینے پہلے بھی کئی سو طالبان قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا لیکن رمضان کے مہینے کے علاوہ جس عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا، اس کے برخلاف پہلے بھی اور اب دوبارہ سے مذاکرات کے ساتھ ساتھ طالبان نے کاروائیاں اور بھی تیز کردی ہیں۔ جبکہ تحریک طالبان پاکستان نے ان شرائط کو مسترد کیا ہے کہ القاعدہ، داعش یا دوسرے گروپی کی حمایت یا افغان فورسز پر حملے نہ کیئے جائیں۔

یہاں پر  امریکہ کے علاقائی اتحادی کے ان ڈیپتھ سکیورٹی نیرٹیو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پہلے مذاکرات کا دور بھی طالبان کی اسی ھٹ دھرمی کی وجہ سے ملتوی ہوا تھا۔ جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات ملتوی کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اسی سال رمضان اور عید پر عارضی جنگ بندی کی گئی تھی۔ افغان حکومت نے سیکنڑوں طالبان قیدی بھی رہا کیئے تھے لیکن پھر بھی طالبان حملوں میں  شدت دیکھی گئی۔ جس کی وجہ سے افغان حکومت نے جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کیا کیونکہ طالبان معاہدے کی خلاف ورزی کررہے تھے۔

اس حوالے سے کامریڈ مظہر آزاد کا تجزیہ بلکل درست ہے کہ جب 11/9 کے بعد امریکہ نے طالبان حکومت کو دہشت گردوں کی حمایت نہ کرنے اور القاعدہ سربراہ کو امریکہ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تو افغان طالبان حکومت نے انکار کردیا اور پھر جو افغانستان کی آج تک حالت زار ہے کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اب سیانے جذبات کی روں میں بہہ کر اس کو اسلام اور طالبان کی فتح قرار دے رہے ہیں کہ امریکہ اور اتحادی افواج امن چاہتے ہیں، مذاکرات اور امن معاہدہ کرنا چارہے ہیں، افغانستان سے اپنے افواج نکالنا چاہتے ہیں، امریکہ نے اپنی شکست تسلیم کرلی، امریکہ ڈر گیا وغیرہ وغیرہ۔ ان کی اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ امریکہ نے جو کرنا تھا اور جو لوٹنا تھا وہ لے اڑا، بے شک جنگ پر خرچہ بھی آتا ہے، افواج بھی مرتی ہیں لیکن امریکہ اور اتحادیوں نے اپنے مقاصد بھی پورے کیئے ہوں گے اس لیئے انخلاء چاہتے ہیں۔ ایک اور بات یہ ہے کہ امریکہ کو اپنے علاقائی اتحادیوں پر بھی بھروسہ نہیں ہے کیونکہ امریکہ جانتا ہے کہ ہمارے علاقائی اتحادی ہمیں یہاں سے نکالنے کے بجائے پھنسانے کے خواہاں ہیں۔ دوسری طرف امریکہ میں صدارتی انتخابات ہورہے ہیں اور صدر ٹرمپ افغانستان سے فوجی انخلاء کو بھی اپنے الیکشن کمپین میں ضرور استعمال کریں گے۔

تو بھائی! اب جبکہ افغان طالبان القاعدہ سے قطع تعلق کرنے پر آمادہ ہورہے ہیں۔اگر پہلے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرتے اور جو شرائط آج مان رہے ہیں پہلے مانتے تو حکومت بھی رہتی، جنگ کی تباہ کاریوں سے بھی بچتے اور افغان عوام کا قتل عام بھی نہ ہوتا۔ امریکہ نے جو کرنا تھا کرلیا۔ اب اگر امریکی شرائط، جن میں ٹی ٹی پی، القاعدہ اور داعش سے قطع تعلقی، افغان فورسز اور اتحادی فورسز پر حملے نہ کرنے کے شرائط مان کر سیاسی عمل میں شامل ہونے اور حکومت میں حصہ ملتا ہے تو یہ میرے خیال میں امریکہ اور اتحادیوں کی فتح ہے نہ کہ طالبان کی۔

یہ درست ہے کہ طالبان ایک مسلمہ طاقت ہے، انہوں نے امریکی، اتحادی اور افغان افواج کو بہت نقصان بھی پہنچایا ہے لیکن ہمیں ماضی میں جانا ہوگا کہ کیا طالبان نے سیاسی عمل کے ذریعے سے اسلامی امارت قائم کی تھی یا زبردستی، مار دھاڑ کرکے حکومت قائم کی تھی،  یا کوئی انتخاب یا ریفرنڈم کرایا تھا، یا بندوق کی زور پر حکومت پر قبضہ کیا تھا۔ اگر یہ تاویل دی جائے کہ خانہ جنگی اور سیاسی افراتفری تھی اس لیئے طالبان یا ملاعمر نے حکومت لی تھی تو کیا طالبان حکومت ایک عوامی خواہش کا اظہار تھا یا طاقت کا اظہار؟

کیونکہ اسلام تو جمہوری مذہب ہے۔ اسلام ہی ہمیں درست جمہوریت کا راستہ دکھاتا ہے، عوامی رائے کے احترام اور آزادی اظہار رائے کا درس دیتا ہے، تو کیا جب طالبان نے حکومت پر قبضہ کرکے امارت قائم کی تب انہوں نے کسی قسم کے انتخابات کروائے، کسی ریفرنڈم کا انعقاد کرایا عوامی رائے جاننے کی کوشش کی یا لاکھوں کے مقابلے میں ہزاروں کی خواہش کو مقدم رکھا؟

میرے خیال میں تو طالبان صرف اپنی ہٹ دھرمی پر قائم تھے۔ اگر عالمی دہشت گرد کو امریکہ کے حوالے کرتے تو افغان سرزمین جنگ کی تباہ کاریاں نہ دیکھتی اور نہ ہی لاکھوں افغان جنگ میں لقمہ اجل بنتے۔ اب جبکہ سہ فریقی امن مذاکرات جاری ہیں امریکہ تو اپنی شرائط منوا کر چلا جائے گا۔ ہاں! طالبان کی یہ ہٹ دھرمی مان کر کہ حکومت میں حصہ یا کچھ علاقوں تک ان کا حق تسلیم کرنا لیکن اس کا امریکہ پر تو کچھ اثر نہیں ہوگا۔ اگر امریکہ کا انخلاء ہوجاتا ہے، اور اگر اقتدار کی جنگ ہوئی،  تو خون بہے گا۔ اگر افراتفری اور خانہ جنگی ہوئی، اگر غربت اور ابتر معاشی حالات سے گزرنا پڑا، اگر بعد میں بھی منتخب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جنگ جاری رہی تو اس کا خمیازہ افغان عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا۔

اگر آج بھی عوامی رائے معلوم کی جائے اور ریفرنڈم کرایا جائے تو یقین جانیے اسّی فیصد افغان عوام طالبان کے حق میں نہیں ہیں، کا نتیجہ برآمد ہوگ۔ تو جناب عالی! سہ فریقی مذاکرات امن معاہدے میں بے شک ظاہری طور پر تو طالبان کی ھٹ دھرمی کی جیت نظر آرہی ہے، سیاسی حکومت کی شکست اور امریکی اور اتحادی طاقتوں کی تھکن عیاں ہوتی ہے لیکن اصل میں افغان سرزمین اور عوام کی شکست ہے، سیاسی نظام کی شکست ہے، طالبان ھٹ دھرمی کی وجہ سے مسلط جنگ میں مارے جانے والوں کی شکست ہے۔ عوامی خواہشات کی شکست ہے۔ مذاکرات میں افغان اور اتحادیوں کی طرف سے یہ شق بھی ہونی چاہیے کہ عوامی رائے کا احترام کرنا لازمی ہوگا۔ مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد رائے شماری یا انتخابات کے ذریعے فیصلہ کرنے کا حق افغان عوام کو ہوگا کہ آیا وہ طالبان کو اور ان کے نظام کو چاہتے ہیں یا سیاسی نظام کا حصہ بن کر اپنے فیصلے خود کرنا چاہتے ہیں۔

براہ راست حکومت میں حصہ دینا یا علاقوں پر حق تسلیم کرنا کسی طور پر بھی جمہوری طریقہ نہیں ہے۔ یقین جانیے افغان عوام کی اکثریت سیاسی اور جمہوری نظام کے خواہاں ہیں، طالبان یا ان کی حکومت کے نہیں۔ دعا ہے کہ یہ مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہو، طالبان سیاسی عمل کا حصہ بن کر سیاسی جمہوری اور انتخابی عمل کے ذریعے اگر عوام کی حمایت حاصل کرتی ہے تو اقتدار میں حصہ دار بنے۔ خدا کرے کہ تمام فیصلے افغان عوام کی خواہشات کے مطابق اور افغان سرزمین کی بقاء کے ضامن ہوں۔ تاکہ جنگ سے متاثرہ افغانوں کو سکون کا سانس لینا نصیب ہو۔