الیکشن 2018 کے چند اہم نکات

آصف خان بنگش

تمام حلقوں کے نتائج تفصیل سے دیکھنے کے بعد جو کچھ اہم باتیں سمجھ آئیں وہ شریک کر رہا ہوں۔

سب سے پہلی بات تو یہ کہ جو تاثر لیا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ جیپ، پاک سرزمین، تحریک لبیک، اللہ اکبر اور اس قسم کی دوسری جماعتوں کو اسمبلی میں لا کر تحریک انصاف کے ساتھ مل کر ایک مخلوط حکومت بنائے گی لیکن یہ کمال سٹریٹجک ڈائورژن تھی۔ تحریک لبیک کے زریعے ن کے ووٹ تقسیم کر کے، پاک سرزمین کو متحدہ کے ووٹ تقسیم کرنے کیلئے میدان میں لایا گیا اور اس تقسیم کے زریعے تحریک انصاف کو برتری ملی۔ ان نئی لانچ شدہ جماعتوں نے 10 ہزار سے 40 ہزار تک ووٹ لئے اور ایک اہم کردار ادا کیا۔ سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹی۔ اس الزام سے بری از زمہ ہو گئے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ ہوتی تو پھر ڈولفن، جیپ اور کرین جیت جاتی۔ مقصود کچھ اور تھا۔

دوسری اہم بات یہ کہ نتائج دیکھتے وقت ایک غیر معمولی بات منسوخ شدہ ووٹوں کی تھی۔ تقریبا 35 سے 40 حلقوں میں ان ووٹوں کی تعداد پہلی اور دوسری پوزیشن پر آنے والوں امیدواروں کے ووٹوں کی تعداد میں فرق سے کہیں زیادہ تھا۔ کہیں تو ان ووٹوں کی تعداد 10 ہزار سے بھی زیادہ ہے۔ اگر تو کہیں منسوخ ووٹ اس تعداد میں ہیں وہاں الیکشن کے انعقاد پر سوالیہ نشان ہے۔ ان میں سے تقریبا 35 حلقے پنجاب سے ہیں۔ ان حلقوں میں اس معاملہ کی چھان بین ضروری ہے ورنہ الیکشن کی شفافیت پر سوالیہ نشان رہے گا۔

بلوچستان کے کچھ حلقوں میں ٹرن آوٹ 2 فیصد سے بھی کم رہا۔ ایسے میں الیکشن کا نتیجہ بے معنی تصور ہوگا۔ کس وجہ سے لوگ ووٹ نہیں ڈال سکے اس کی تحقیق ہونی چاہئے اور دوبارہ انتخاب ہونا چاہئے۔ بلوچستان میں ہی پشتون خواہ میپ نے کہا ہے کہ وہ 10 حلقے نہیں 10 پولنگ سٹیشن ثبوت کے طور پر دیتے ہیں ان کی فنگرپرنٹ ویریفیکیشن کی جائے اور اگر اس میں فرق نہ ہوا تو وہ نتائج تسلیم کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اس باب میں ان کی شکایات کا ازالہ بھی ضروری ہے۔

آخری بات یہ کہ نتائج کے بعد جتنے بھی حلقوں میں دوبارہ گنتی ہوئی ان کے نتائج تبدیل ہوئے ہیں اور اس ٹرینڈ کے بعد کچھ اور حلقوں پر بھی دوبارہ گنتی کی درخواستیں موصول ہونا شروع ہو چکی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی کوتاہی سے الیکشن کا مزہ کرکرا ہو چکا ہے۔ ریزلٹ ٹرانمشن سسٹم کے متعلق متضاد رائے نے بھی الیکشن کمیشن کے کردار کو مشکوک بنایا ہے۔ ان تمام نکات کا سدباب کرنا الیکشن کمیشن کیلئے بہت ضروری ہے تا کہ تمام جماعتوں کے شبہات دور ہوں اور جہموری عمل کو آگے بڑھایا جائے۔