امیتابھ پنک

شیزا نذیر

میری کزن کی فیس بک وال پر چند ماہ پہلے ایک بہت ہی اہم موضوع زیر بحث رہا۔ موضوع یہ تھا کہ “ﻣﺎﻧﺎ ﮐﮧ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻟﯿﭗ ٹاپ، ﮐﺎﺭ، ﻣﻮﺑﺎﺋﻞﮐﮯ ماڈلز، ﮐﻤﭙﯿﻮﭨﺮ ﮐﯽ ﮨﺎﺭﮈ ﮈﺳﮏ، ﺭﯾﻢ ﮐﺎ ﮐﭽﮫ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ …ﻣﮕﺮ !!! ﻟﮍﮐﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺑﮯ ﺑﯽ ﭘﻨﮏ، ﻻﺋﭧ ﭘﻨﮏ، ﻟﻮﺷﻦ ﭘﻨﮏ، ﺭﻭﺯ ﭘﻨﮏ، ﺑﻠﺶ ﭘﻨﮏ، ﺳﭩﺮﺍﺑﯿﺮﯼ ﭘﻨﮏ، ﺭﺍﺋﻞ ﭘﻨﮏ، ﭼﯿﺮﯼ ﭘﻨﮏ، ﺳﻮﯾﭧ ﭘﻨﮏ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﮐﺎ ﻓﺮﻕ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ۔ کوئی پنک رہ گیا ہو تو منشن کر دیں پلیز‘‘ (کزن کے لئے ایسے موضوع بہت اہم ہوتے ہیں)۔

جو پنک رہے گئے تھے دوستوں نے وہ بتائے۔ میں نے بھی کچھ مزید پنک بتائے اور ایک بہت ہی خاص پنک بھی بتایا ’’امیتابھ پنک‘‘ یعنی کہ بالی فلم پنک Pink بھی بتائی۔

میں دو دفعہ یہ فلم دیکھ چکی ہوں اور اگر تیسری بار بھی موقع ملا تو ضروری دیکھوں گی کیونکہ بالی وڈ فلموں کی کہانی اور سکرپٹ شاذ ہی اچھے ہوتے ہے، بمع دَورے حاضر کے مسائل اور ان کا حل۔ اس فلم میں امیتابھ بچن کی اداکاری حسبِ معمول بہترین ہے لیکن تینوں لڑکیوں کی پروفارمنس بھی کمال ہے بلکہ یوں کہیئے کہ ایک سین کرنے والے نے بھی فلم کے ساتھ خوب انصاف کیا ہے۔

اس فلم کے ڈائریکٹر انیرودھا رائے ہیں، شوجیت، انیرودھا اور ریتیش نے اس کی کہانی لکھی جبکہ ریتیش نے مکالمے اور سکرین پلے بھی لکھا۔ اس فلم میں بہت ہی اہم ایشو اٹھایا گیا ہے اور وہ ہے sexual assault۔ تین ورکنگ ویمنز مینل اروڑا، فلک علی اور اینڈریا اپنے مرد دوستوں کے ساتھ ڈنر پر جاتی ہیں اور ایک دوست بنام راج ویر سنگھ مینل سے جنسی زبردستی کرنا چاہتا ہے۔ مینل اس کے سر پر شراب کی بوتل مارتی ہے جس سے راج ویر کی آنکھ بمشکل بچتی ہے۔ راج ویر کا تعلق سماجی اثر و رسوخ رکھنے والی فیملی سے ہے تو وہ مینل کے خلاف ارادہ قتل کا الزام لگاتا ہے اور مقدمہ شروع ہوتا ہے۔ اس فلم میں جو سب سے زیادہ سبق آموز بات ہے وہ ہے دیپک سہگل یعنی کہ امتابھ بچن کا مقدمے کی سماعت کے وقت Girls safety manual کے رولز بتانا, جو ہر لڑکی کو پتا ہونے چاہئے بھلے اسے پنک کلر کے ایک بھی شیڈ کا پتا ہو یا نہ ہو۔ وہ رولز یہ ہیں:

رول نمبر 1: کسی بھی لڑکی کو کسی بھی لڑکے کے ساتھ کہیں بھی اکیلے نہیں جانا چاہئے۔ کسی resort یا ٹائیلٹ استعمال کرنے کے لئے تو بالکل نہیں کیونکہ ایسا کرنے سے آس پاس والے لوگ یہ سمجھ لیں گے کہ لڑکی اپنی مرضی سے وہاں پر آئی ہے اور لڑکوں کو اُنہیں چھونے کا لائسنس دے دیا گیا ہے۔

رول نمبر2: کسی بھی لڑکی کو کسی بھی لڑکے کے ساتھ ہنس ہنس کر بات نہیں کرنی چاہئے کیونکہ لڑکا اِسے اشارہ سمجھ لے گا۔ وہ ہنسی کو ہاں سمجھے گا اور لڑکے کا نیچرل ہیومن رویہ اُسے غیر اخلاقی جنسی تعلقات کے لئے تیار ہونے کا ثبوت بن سکتا ہے۔

یہ فلم دیکھ کر ایک اور بات بھی ذہن میں آئی وہ یہ کہ اگر ایسی فلم پاکستان میں بنتی تو اس کا آخری سین یا اخلاقی سبق کیا ہوتا۔ میرے خیال سے وکیل کا نام دیپک سہگل کی بجائے فاروق بٹ ہوتا اور مینل اور اینڈریا اپنی دوست فلک علی اور وکیل فاروق بٹ کے حسن و اخلاق سے اس قدر متاثر ہوتیں کہ اپنے آبائی مذہب کو بائے بائے کہہ دیتیں۔ ایک اَور بات وہ یہ کہ اینڈریا کے بولنے کا انداز کاٹھے انگریز ٹائپ کا ہوتا اور اسے بات بات پر صلیب کا نشان بناتے ہوئے دیکھایا جاتا۔ لیکن انڈین پنک میں ایسا کچھ نہیں دیکھایا گیا۔ تینوں لڑکیوں کی بہنوں جیسی دوستی ہے جو آخر تک بغیر کسی مذہبی مداخلت کے جاری رہتی ہے۔ کیونکہ عام زندگی میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔