انسانی حقوق کا عالمی دن اور جموں و کشمیر

 محمدارشدچوہان

دس دسمبر کو عالمی انسانی حقوق کی بہترویں سالگرہ منائی گئی۔ دس دسمبر 1948 یعنی ٹھیک بہتر برس پہلے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس کو منظوری دی تھی۔ اسی لیئے ہر سال یہ دن عالمی انسانی حقوق کے نام سے منایا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کا عالمی منشور یعنی یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس ایک پری ایمبل (دیباچہ) اور 30 آرٹیکلز پر مشتمل ہے۔ ان تیس آرٹیکلز کے اندر جو حقوق آتے ہیں انہیں چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اول سول اور سیاسی حقوق، دوئم معاشی و سماجی حقوق، سوئم اقلیتوں و گروہوں کے متعلق حقوق و ترقی اور ماحولیاتی حقوق۔ عالمی انسانی حقوق کا اصل مقصد دنیا بھر میں انسانوں کے بنیادی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنانا ہے۔ جیسا کہ یونیورسل ڈیکلریشن کا پہلا آرٹیکل کہتا ہے کہ تمام انسان آزاد  اور برابر پیدا ہوتے ہیں اور انہیں پوری زندگی آزاد اور برابر رہنے چاہیے۔ آرٹیکل 3 زندہ رہنے کے حق کی بات کرتا ہے۔ اسی طرح تمام آرٹیکلز پڑھنے کے بعد لگتا ہے کہ یہ بہت بڑا کمال ہے کہ اس میں انسانوں کو استحصال، نا انصافی، عدم مساوات اور غلامی سے بچانے جیسی باتیں بھی درج ہیں۔ انسانی حقوق کی ڈیکلیریشن کو تو 72 سال ہو گئے لیکن ان کا اطلاق جموں و کشمیر میں آج بھی نہ ہو سکا۔ نہ جانے یہ حقوق جموں و کشمیر میں دستک دینے سے کیوں گریزاں ہیں؟

    14 جون 2018 کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کاؤنسل نے اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ جاری کی۔ یہ رپورٹ 49 صفحات پر مشتمل ہے، جس میں ہندوستان اور پاکستان دونوں کو جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ ہر پڑھے لکھے ذی شعور کو یہ رپورٹ ضرور پڑھنی چاہیے۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق کی کوئی بھی رپورٹ اٹھا کے پڑھ لی جائے تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ جموں و کشمیر کے بنیادی حقوق کی پاسداری کے لیئے نہ بھارت سنجیدہ ہے نہ ہی پاکستان کو کوئی دلچسپی ہے۔ عالمی دنیا بھی اس ایشو پر خاموش تماشائی ہے۔ یہاں جو بھی شہری بھارت یا پاکستان کے بیانیوں سے ہٹ کر اپنی رائے دینے کی کوشش کرتا ہے، عتاب کا نشانہ بن جاتا ہے۔ بھارتی جموں و کشمیر ہو یا پاکستانی زیر انتظام جموں و کشمیر دونوں خطوں میں ہائبرڈ نظام چلایا جاتا ہے۔ پورا نظام کنٹرولڈ ہوتا ہے تا کہ اس خطے کے لوگ آزاد نہ سوچ سکیں۔ جبری گمشدگیاں، عورتوں کے ساتھ ریپ اور جنسی استحصال یہاں ایک معمول کی بات ہے۔ کب کسی کی زندگی ٹھپ ہو جائے کوئی گارنٹی نہیں۔

یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ جموں و کشمیر میں ہر طبقہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہے۔ جموں کشمیر کی  عام عوام ہوں یا کشمیری پنڈت، عورتیں ہوں یا بچے یا خانہ بدوش کوئی بھی محفوظ نہیں۔ سب ایک صف میں کھڑے ہیں۔ سب کو بکریوں کے ریوڑ کی طرح ہانکا جاتا ہے۔  یہاں یہ بات صاف ہے کہ ان سب کے حقوق ضبط کرنے والا کردار ایک ہی ہے۔ ہاں لیکن   جموں و کشمیر کی عوام بڑی معصوم ہے، خیر ان بچاروں کا قصور بھی کیا، انہیں تو رکھا ہی ایسے گیا ہے تاکہ یہ اپنے حقوق کے متعلق آشنا نہ ہو سکیں۔ آج کل ڈی ڈی سی انتخابات کے لیئے جے جے کار کر رہے ہیں، ایسے لڑ رہے ہیں جیسے ان کا  ضلعی پنچایتی نمائندہ(ڈسٹرکٹ ڈیولپمنٹ کاؤنسلر) جیت کر اب  اگلا پچھلا سب حساب کتاب چکتا کر دے گا۔ جو ستر سالوں سے ایم ایل اے وزیر و مشیر رہ کر نہیں کر سکا۔

آخر میں ان دانشوروں کو یہ یاد دہانی کرانا ضروری ہے جو کہتے تھے کہ جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن ختم کرنے کے بعد یہاں حالات سدھر جائیں گے۔ آرٹیکل 370   کو ہٹائے دیڑھ سال ہو چکا ہے لیکن یہ گتھی سلجھنے کے بجائے الجھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ بے روزگاری ڈبل ڈیجٹ میں ہے، نظام زندگی تتر بتر ہے، سرکاری نوکریاں نظر آ رہی ہیں نہ پرائیویٹ انسوسٹمنٹس، فور جی انٹرنیٹ مسلسل کوڑے دان میں ہے۔ سانس لینے کا بنیادی سے بنیادی انسانی حق بھی ہچکیاں لے رہا ہے اور امید کی جگہ یاس ہی یاس ہے۔