انقلابِ اکتوبر، قیادت اور عہد کی اخلاقیات
ارشد سلہری
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ، ایک تحریک ہے۔ تحریک کا نام کس نے تجویز کیا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ مگر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کو جِلا میاں نوازشریف نے بخشی اور گرج چمک والے خطاب نے جمہوریت پسندوں میں تحریک پیدا کردی اور مخالفین ہل کر رہ گئےہیں۔ یار لوگوں نے نوازشریف کو عوامی ہیرو، انقلابی رہنما اور پاکستان کا واحد لیڈر قراردینا شروع کردیا اور سوشل میڈیا پر ایک بار پھر ووٹ کو عزت دو کے نعرے لکھے دیکھے جارہے ہیں۔ شادیانے کچھ یوں بھی ہیں کہ پنجاب بول اٹھا ہے، پنجاب جاگ اٹھا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار جمہوریت اور مزاحمت کی تحریک پنجاب سے ابھر رہی ہے۔ بائیں بازو کے نرم دل حلقے یہ کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ ہمیں نوازشریف کو سپورٹ کرنا چاہیے۔ نوازشریف اب پہلے والا نواز شریف نہیں ہے۔ اے پی سی سے خطاب نوازشریف کو مزاحمت کار اور انقلابی ظاہر کررہا ہے۔ کامریڈ نوازشریف اب ہمارا ہے۔ ماضی کو بھول جائیں، ماضی پلٹ کر نہیں آتا ہے۔ نوازشریف زخم خوردہ ہے۔ اب نوازشریف انقلاب کی بنیاد بنے گا۔
سچ ہے کہ نوازشریف کے جارحانہ خطاب سے پنجاب میں تھرتھلی تو مچی ہے۔ لیگی رہنماؤں کےخلاف غداری کے مقدمات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ میاں صاحب کے نوجوان فالورز مریم نواز کی قیادت میں شعلہ جاوید بنے ہوئے ہیں۔ ویش زلمیان بھی اپنے کام میں جت گئی ہے۔ اخبارات میں کالم ، مضامین ، اداریے، انقلابی شاعری عروج پر ہے۔ ثبوت کے طور پر سوشل میڈیا پر نمونے ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ بورژوازی پیچ وتاب کھاتے ہوئے نواز شریف پر تنقید کررہے ہیں۔ مگر طلوع ہوتے سویرے کو اب کوئی نہیں روک سکتا۔ روک سکو تو روک لو! پرولتاریہ، نوجوان، طالب علم اور دیگر ورکنگ فورسز سمیت انقلاب پسندوں کے اسٹڈی سرکل اور برانچز صبح وشام اور رات دن جاری ہیں۔ کیڈربلڈنگ کے مناظر والے ویڈیوز،ٹوئیٹ اور فیس بک پرپوسٹوں سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انقلاب تیزی سے ابھر رہا ہے۔ردِ انقلابی منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ خاص کر تبدیلی کے ہرکارے تو دم دبائے کہیں غائب ہیں۔ جو کبھی خود بھی آج سے بڑھ کر انقلابی ہوا کرتے تھے۔
عہد کے انقلابی رہنما کے سگے بھائی اور دست راست جوشیلے انقلابی جنہیں ردِ انقلابی فورسز نے فوری گرفتار کرلیا ہے۔ موصوف جیل میں مذاکرات کی میز سجائے بیٹھے ہیں اور چومکھی کھیل رہے ہیں۔ نظریاتی اختلافات کی خبریں بھی گرم ہیں۔ ادھار کھائے بورژوا کالم نویس اور خبرنگاروں کا کہنا ہے کہ ش کے نام سے الگ دھڑے پر مشاورت میں تیزی ہے۔ ان کے منہ میں خاک ان کے خواب ادھورے رہیں گے۔ انقلابی متحد ہیں۔ یہ وفا کے پتلے ہیں، غداری کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ بڑے بھائی پر جان چھڑکتے ہیں۔ میدان عمل میں انقلاب اکتوبر کے قائدین نے پی ڈی ایم کے منعقدہ اجلاس میں انقلابی فیصلے کرتے ہوئے وسیع تر انقلابی مفاد میں قائد انقلاب نے تحریک کی قیادت پاکستان کے ایسے صوبے کے حوالے کردی ہے کہ جس میں انقلاب کی زیادہ ضرورت ہےاور انقلابی لہر پیدا کی جائے اور انقلاب کو منظم کیا جائے۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ پنجاب چونکہ انقلاب کا گڑھ بن چکا ہے لہذا تحریک کا آغاز ثور اور خمینی انقلاب کی ہمسائیگی سے کیا جائے تو زیادہ اچھے نیائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ تحریک کی شروعات بوجہ 18 اکتوبر تک مؤخر ہیں۔
بورژوا طبقات بوکھلاہٹ میں گھٹیا الزامات پر اتر آئے ہیں کہ انقلابیوں نے جان بوجھ کر تحریک کی قیادت چھوڑی ہے اور جیل جانے کو بھی پلان بی قرار دے رہے ہیں۔ پنجاب کے دل لاہور کو انقلابی تحریک کا مرکز بنانے کی بجائے کوئٹہ جانا بھی سازش کا حصہ کہا جارہا ہے۔ دل جلے کہہ رہے ہیں کہ انقلاب کا نعرہ لگانے والوں نے راہ فرار اختیار کرلی ہے اورخود پیچھے چھپ گئے ہیں۔ ہمیں بورژوا قید سے گھبرانا نہیں۔ گلے پھٹ جائیں پروا نہیں، گلے کو تیل لگا لیں اور پھر میدان میں اتریں۔ ۔نئے نئے انقلابی نعروں کی اختراع کریں۔ کہتے ہیں کہ انقلابات عہد کے ہوتے ہیں۔ حقیقت ہے کہ اکتوبر 2020 کے انقلاب کا بھی اپنا عہد ہے۔ عہد کی قیادت ہے، عہد کی اخلاقیات ہیں۔