انقلاب نہیں عذاب
علی جنجوعہ
گیارہ سال ہونے کو ہیں رزق کی تلاش میں اپنا گھر چھوڑ کر بیرون ملک آئے ہوئے۔ جب پہلی بار ایئرپورٹ سے باہر آیا تو دو دوست لینے آئے ہوئے تھے۔ ملنے کے بعد ان کی رہائش پہ پہنچے تھوڑی گپ شپ کے بعد کافی تھکا ہوا تھا تو انہوں نے کہا تھوڑا آرام کر لو شام کو پھر باہر نکلتے ہیں۔
خیر سو کے اٹھا تو وہ میرے انتظار میں بیٹھے تھے کہ کھانے کے لئے جانا تھا۔ میں نے جلدی جلدی غسل کیا اور ان کے ساتھ بلڈنگ سے نیچے اترا۔ اس وقت باہر اندھیرا چھا چکا تھااور لائٹس جل رہیں تھیں۔ جونہی نظر پڑی تو سامنے کچھ لڑکیاں کھڑی تھیں آدھے لباس کے ساتھ اور وہ ہر آنے جانے والے کو اشارے کر رہی تھیں۔
میں نے اپنے دوست کی طرف دیکھا، تو اس نے ہنس کر کہا کہ یہاں بس ایسے ہی ہے۔ اس کے بعد ہم اپنی باتوں میں ریسٹورنٹ پہنچ گئے جو گھر کے قریب ہی تھا۔ کھانے کے دوران وہ گاؤں کی باتیں پوچھتے رہے اور بس ہنسی مذاق چلتا رہا وہاں سے اٹھ کر قریب ہی ایک پارک میں تھوڑی واک کی۔ پارک کے اندر ہی ایک کیفے ٹیریا سے چائے لی اور پیتے پیتے رہائش کی طرف چل پڑھے واپسی پہ بھی وہی کچھ تھا۔
خیر روم میں پہنچ کر میں نے کہا کہ شکل سے تو یہ کافی “صحیح” لگ رہیں تھیں،یہ شادی کریں یا کوئی جاب کر لیں یہ کیوں ان گندے کاموں میں لگی ہیں اور تم لوگ رہائش کہیں اور کیوں نہیں لے لیتے۔
دوست نے کہا کہ ایک تو بلڈنگ کے پیچھے والے روڈ پہ مارکیٹ ہے جہاں سے ہم کو اپنی فیلڈ کا سامان بھی ملتا ہے اور کام بھی یہاں سے ہی ملتا ہے ( وہ انٹیرئیر کا کام کرتے تھے ) کہی دور رہتے تو آنے جانے پہ کافی ٹائم لگتا اور دوسری جگہ چلے بھی گئے تو وہاں بھی ایسا کچھ ہی ملنا تھا۔ “باقی ہم اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اس لئے ہم کو اس “سے کچھ غرض نہیں۔
دوسری بات سویت یونین سے جو ریاستیں علیحدہ ہوئیں تھیں وہاں جنگ کی وجہ سے بہت نقصان ہوا تھا، ایک تو بہت سے مرد لقمہ اجل بن گئے اور اوپر سے کاروبار بھی تباہ ہو گئے تھے، اس لئے وہاں کی عورتیں جو بیوہ یا زیادہ غریب تھیں وہ دوسرے ملکوں میں روزگار کے لئے آگئیں کچھ کو تو نوکریاں مل گئی مگر باقی عورتیں جسم فروشی کے کام میں لگ گئیں۔ دوسرا دوست بولا کہ اللہ کا شکر ہے ہماری عورتیں گھر میں سکون سے ہیں اور اللہ کرے کہ ان کے بھی حالات اچھے ہوں اور یہ بھی اپنے گھروں کو جائیں۔ اس بحث کے بعد پھر ہم آپس میں دوسری باتوں میں لگ گئے۔
خیر کچھ ہی دنوں میں میری جاب لگ گئی اور میں دوسری جگہ شفٹ ہوگیا وہاں زیادہ فیملیز رہتی تھیں اور پھر اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔کبھی کبھی ان دوستوں سے ملنے جاتا ہوں وہ اب بھی وہاں ہی ہوتے ہیں اس ایریا میں وہ لڑکیاں کم ہوتے ہوتے اب تقریباً نہ ہونے کے برابر تھیں۔ اس عرصے میں آج تک میں نے کوئی پاکستانی عورت نہیں دیکھی تھی کہیں یوں کسی بلڈنگ کے سامنے۔ کہیں اندر ہوں تو اس کا مجھے علم نہیں۔
خیر آج چار بجے کے قریب سائیڈ سے واپس آ رہا تھا تو گھر کے قریب سپرمارکیٹ کے سامنے گاڑی پارک کی، سوچا کچھ گھر کے لئے سامان لے لوں۔
جیسے ہی مارکیٹ میں داخل ہونے لگا پیچھے سے کسی نے آواز دی۔بات سنیں، میں نے مڑ کر دیکھا تو پاکستانی لباس میں ایک عورت تھی، وہ اس دوران میرے قریب آگئی۔ میں نے کہا آپ نے مجھے آواز دی۔
جی ہاں
جی حکم
آپ پاکستانی ہیں؟
جی پاکستانی ہوں۔
کیا کام کرتے ہیں؟
جی حکم کریں آپ کو کیا کام ہے؟
چھوٹی سی پرچی اس نے میرے ہاتھ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ میرا نمبر ہے کوئی کام ہوا تو بتا دیجیے گا۔میں نے کہا آپ کی تعلیم کتنی ہے اور پہلے کہی جاب کی؟
اگر میری نظر میں کوئی جاب ہوئی تو ضرور بتاؤ گا۔
نہیں نہیں آپ سمجھے نہیں وہ کام نہیں دوسرے کام کی بات کر رہی ہوں جگہ بھی ہے اور ساتھ بھی جا سکتی ہوں۔
مجھے ایسے لگا جیسے نیچے سے زمین پھٹنے لگی ہے۔ میں اس کو گھورتا ہوا واپس گاڑی میں بیٹھا اور سیدھا گھر آگیا۔تھوڑی دیر بیٹھ کر سوچتا رہا کہ ہم اتنے گر گئے ہیں اور مجھے وہ سوویت ریاستوں کی عورتیں یاد آ گئیں کہ ہماری حالت کیا ان سے بھی بری ہوگئی ہے۔(یہاں میں ان ملکوں کی اور اپنے ملک کی بدحالی پہ بات کر رہا ہوں نہ کہ عورتوں کی)۔
پھر میں نے فیس بک کھولی تو سامنے پوسٹیں دیکھنے کو ملیں۔
مسلمانوں میں واحد ایٹمی ملک، دنیا کی سات بہترین افواج میں شامل، دنیا کی نمبر 1 ایجنسی، کشمیر کو آزاد کرائیں گے، فلسطین کو آزاد کرائیں گے، پوری دنیا پہ حکومت کریں گے، انقلاب لائیں گے۔ ڈرتے ڈرتے بس اپنی اشرافیہ اور علما سے اتنی عرض ہے۔”جس قوم کی عورتیں اپنا جسم بیچنے پہ مجبور کر دی جائیں اور دوسرے ملکوں میں سڑکوں پر اپنا نمبر دینے لگ جائیں تاکہ اپنے گھر کے اخراجات پورے کر سکیں،
وہاں انقلاب نہیں اللہ کا عذاب آتا ہے۔”