اپنی فلاسفی پر دنیا ہکی بھکی ہے کیونکہ۔۔۔

شیزا نذیر

دو سال پہلے کی بات ہے کہ میں آفس کے ایک پروجیکٹ کے سلسلے میں مری میں تھی۔ وہاں دیگر اداروں کے لوگ بھی تھے۔ پروجیکٹ کے آخری دنوں میں بون فائیر ہوا تو سنگیت کی محفل بھی سج گئی۔ جب میری باری آئی تو میں تھوڑی ہچکچا رہی تھی کیونکہ محفل میں کم و بیش تمام لوگ اچھا گانے والے تھے۔ خیر مجھے کچھ گنگنانا ہی پڑا کیونکہ محفل کا تقاضہ یہی تھا۔ سب نے کہا کہ میں بلا وجہ گانے سے ہچکچا رہی تھی۔ پانچ چھے ماہ ریاض کروں تو یویو ہنی سنگھ اور نیہا ککڑ جیسا تو گا ہی سکتی ہوں۔ شاید وہ ٹھیک کہہ رہے تھے لیکن نیہا جیسا سپارک لانے میں مجھے کئی سال لگ جائیں۔

کیا لڑکی ہے! ابھی تو خیر اُس نے اپنی گائیکی بھی بہت بہتر کر لی ہے۔ نیہا کا یہ گانا یوں تو بس ٹھیک ہی ہے لیکن مجھے پسند ہے کہ ’’اپنی فلاسفی پر دنیا ہکی بھکی ہے۔۔۔‘‘ ویسے میوزک کی دنیا میں نہیا کی فلاسفی یعنی کہ سٹائل سے دنیا واقعی ہکی بھکی رہ گئی۔

یہ گانا سننے کے بعد میں سوچنے لگی کہ دنیا نہ سہی اگر میری دادی حیات ہوتی تو وہ بھی میری فلاسفی (مذہبی نظریات) پر ضرور ہکی بھکی رہ جاتیں۔ میری دادی بہت مذہبی خاتون تھیں۔ اُنہوں نے مذہبی احکامات کی تشریح اپنے نظریات اور سمجھ کے مطابق کر رکھی تھی۔ جیسے کہ مذہب میں جھوٹ بولنا منع کیا گیا ہے تو اُن کے خیال میں ناول، افسانے اور کہانیاں وغیرہ پڑھنا جھوٹ یعنی کہ گناہ کے زمرے میں آتا تھا۔ اِس کے بارے میں اُن کا خیال تھا کہ چونکہ لکھاری نے اپنے پاس سے بات بنائی ہے تو یہ جھوٹ ہے اِس لئے صرف مذہبی کتب ہی پڑھنی چاہیں۔ وہ تو طبیعت میں تھوڑا باغی پن بچپن میں ہی تھا تو کورس کی کتاب میں ٹارزن کے رسالے رکھ پر پڑھا کرتے تھے۔ میری دادی کی اَور بھی بہت سی مذہبی فلاسفی تھی۔ میں مذہبی معاملات میں کم ہی پڑتی ہوں لیکن جو لکھتی ہوں آج اگر وہ دادی جان کو پتا چل جائے تو وہ اُسی وقت دو زانوں ہو جائیں گی اور میری نجات کے لئے دعا شروع کر دیں گی کہ لڑکی جھوٹی کہانیاں وہ بھی منٹو کو پڑھتی ہے اور کہتی ہے کہ یہ پڑھنا گناہ نہیں۔

مذہبی لوگ ہر دَور میں ایک جیسے ہی ہوتے ہیں کہ مذہبی احکام کی اپنی سی تشریح و تفسیر کر کے اپنی ہی فلاسفی بیان کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ دھونس سے اپنی فلاسفی کا اطلاق بھی چاہتے ہیں۔

چند ماہ پہلے اِسی طرح بلاول بھٹو زرداری نے اقلیتیوں کے بارے میں اپنے نظریات بیان کئے کہ وہ پاکستان کا وزیر اعظم کسی اقلیت سے تعلق رکھنے والے کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بیان کا آنا تھا کہ دنیا ہکی بھکی رہ گئی کہ لو بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ جناح کے دَور میں کلیدی عہدے اقلیتیوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بھی ملے تھے لیکن یہ تو کہانی سی معلوم ہوتی ہے۔۔۔

چند دنوں سے ایک اَور آواز (فلاسفی) سنائی دی جس پر بھی دنیا ہکی بھکی رہ گئی۔ مخترم جبران ناصر۔۔۔ جبران ناصر مذہب کو نجی معاملہ کہتے ہیں اور وہ کہہ چکے ہیں کہ اُن کو مذہب کی بنیاد پر ووٹ نہ دیا جائے۔ جبران صاحب کی اِس فلاسفی پر تو یقین کریں ایک بار میں بھی ہکی بھکی رہ گئی تھی (مثبت معنوں میں)۔ یعنی کہ ایک ایسا ملک جہاں پر لبرل بھی آخر کار مذہبی کارڈ کھیل کر ہی کامیاب ہوتا ہے وہاں یہ کہہ دینا کہ مجھے مذہب کی بنیاد پر ووٹ نہیں چاہیئے، واقعی ایسی فلاسفی ہے کہ جس پر ہکا بھکا ہوا جائے۔

جہاں اِس بیان پر مثبت حیرانی ہو رہی ہے تو وہاں منفی طور پر بھی لوگ ہکے بھکے بلکہ بوکھلا گئے ہیں۔ میں تب سے یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہوئے جا رہی ہوں کہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی ایک اقلیت کو گالی دو تو ہم مانے گئے کہ تم اکثریت سے تعلق رکھتے ہو اور تب ہی ووٹ دیں گے۔ یہی نہیں بلکہ کسی کو گالی دہنے کو عین مذہبی فریضہ کہتے ہیں۔ جہاں تک میں سمجھتی ہوں اسلامی تعلیمات میں کسی کو بھی گالی دینا مذہبی حکم ہرگز نہیں ہے۔ اور ایک بات یہ بھی کہ ستر سال بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ہمیں نہ تو تعلیم چاہیے نہ صحت، روزگار نہ کاروبار، بلکہ ہمیں دوسرے عقیدے سے تعلق رکھنے والوں پر لعنت بھیجنے والا چاہیے.

بلاول بھٹو زرداری اور جبران ناصر جیسی فلاسفی اگر پروان چڑھتی ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان ترقی کی جانب ایک قدم آگے بڑھے گا۔ اگر گھر کا نظام بہتری سے چلانے کے لئے میاں بیوی کو مل کر کام کرنا ہوتا ہے تو ایک ملک کا نظام بہتر چلانے کے لئے بھی اقلیتیوں کو اکثیرت کے ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا اور یہ اُس وقت ہی ہو گا جب موقع دیا جائے گا۔ یہ فلاسفی ناگوار ضرور گزرے گی لیکن ملک کی فلاں و بہبود اِسی میں ہے کہ اقلیتیوں کی صلاحیتیں بھی ملک کی ترقی کے لئے استعمال ہوں۔ میرا رب ایسی سوچ، فلاسفی کو ہر قسم کے شر سے محفوظ رکھے!