اپنے قبیلے کی پاسبان، ایک نوجوان لڑکی
شعیب کیانی، اسلام آباد
جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ ایک قابل وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سماجی کارکن کے طور پر اپنی پہچان رکھتی ہے۔ اس نے اپنی آنکھ بلوچستان کی شیعہ ہزارہ گھرانے میں کھولی۔ پاکستان میں شیعہ ہزارہ وہ قوم ہے جسے ہر سال اپنے مقتولین کے ہزاروں جنازے دفنانے پڑتے ہیں۔ ان لوگوں کو انتہا پسند مذہبی تنظیموں کے لوگ آئے روز قتل کرتے ہیں اور سرِ عام شہر کے چوک میں “کافر، کافر، شیعہ کافر” کے نعرے لگاتے ہیں۔ ہزارہ وہ لوگ ہیں جنہیں بسوں میں اسے اتار کر شناختی کارڈ چیک کر کے قتل کر دیا جاتا ہے۔ شناختی کارڈ کے علاوہ بھی ان کی شکلیں مقامی لوگوں سے مختلف ہوتی ہیں اور انہیں دور سے دیکھتے ہی گولی مار دی جاتی ہے۔
یہ کبھی بندوق نہیں اٹھاتے بلکہ چپ چاپ سو سو جنازے قطار میں رکھ کر شدید سردی میں احتجاج کرتے ہیں۔ حکومت اور فوج کی جانب سے بار بار یقین دہانیاں کروائی گئیں لیکن کالعدم تنظیموں کا خاتمہ ممکن نہ ہو سکا۔ الٹا ان کے ظلم اور بربریت میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ کوئٹہ سیف سٹی پراجیکٹ، نیشنل ایکشن پلان، آپریشن ردّ الفساد اور ضربِ عضب کے باوجود ان تنظیموں کی کھلے عام کاروائیاں افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار اور کارکردگی پر عوام کی تشویش دن بدن بڑھ رہی ہے۔
شہری چاہے یہودی ہو، عیسائی ہو، ہندو ہو، ملحد ہو، سنی ہو، شیعہ ہو یا قادیانی ہو بطور انسان اس کے جان مال اور عزت کی حفاظت تمام مذاہب، بین الاقوامی قوانین اور آئینِ پاکستان کے مطابق ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اگر کسی بڑے سے بڑے مجرم کو بھی ماورائے عدالت قتل کیا جاتا ہے تو یہ غیر قانونی اور غیرانسانی فعل ہے اور یہ ریاست کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ کسی ادارے کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی ملزم کو ماورائے عدالت کرے یا اپنی تحویل میں رکھے تو پھر کالعدم تنظیموں کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ نہتے لوگوں کو سینکڑوں کے حساب سے قطار میں کھڑا کر کے گولیاں ماریں۔
جلیلہ حیدر نے اپنے قبیلے کا دکھ محسوس کیا اور بار بار ان کے قتل کے خلاف آواز اٹھائی لیکن کسی ادارے نے اس طرف کان نہ دھرے۔ بالآخر28 اپریل 2018 کو جلیلہ حیدر اپنے قبیلے کی بیواؤں اور بچوں کو لے کر کوئٹہ پریس کلب کے سامنے پہنچی اور تا دمِ مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ جلیلہ نے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ تین ہزار بیوائیں انصاف کی متقاضی ہیں۔ جلیلہ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے جب اس نے کہا “کوئٹہ میں اتنے دنبے ذبح نہیں کیے گئے جتنے ہزارے قتل ہوئے ہیں”
جلیلہ نے مطالبہ کیا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ فی الفور کوئٹہ آئیں اور بیواؤں کی بات سنیں اور انہیں بتائیں کہ کوئٹہ سیف سٹی پراجیکٹ، نیشنل ایکشن پلان، آپریشن ردّ الفساد اور ضربِ عضب کے باوجود وہ کیوں بیوہ ہوئیں اور مزید ہو رہی ہیں، ورنہ وہ اور اس کے ساتھی مرتے دم تک بھوک ہڑتال جاری رکھیں گے۔ یہ بھوک ہڑتال چار روز تک جاری رہی اور یکم مئی 2018 کی شام کو تب ختم ہوئی جب وزیرِ داخلہ احسن اقبال اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل باجوہ کوئٹہ پہنچے اور ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں سے ملاقات کر کے ان کی بات سنی۔
جلیلہ حیدر بھوک ہڑتال کے دوران بیمار پڑگئی تھی اور چلنے سے بھی قاصر نظر آ رہی تھی لیکن اس کا جذبہ اسے زندہ اور توانا رکھے ہوئے تھا۔ جلیلہ نے اپنی قوم کے مسائل کو نہ صرف قومی بلکہ بین القوامی سطح پر اٹھایا ہے اور اپنے پاسبانوں کو بات سننے پر مجبور کیا پے۔ یہ اس کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ جلیلہ نے ثابت کیا کہ جو کام لاکھوں مرد نہیں کر سکتے وہ ایک عورت کر سکتی ہے۔ جلیلہ نے ثابت کیا کہ قوم کی پاسبانی اور اس کے حقوق کی ترجمانی کرنے کے لیے دل میں احساس اور دماغ میں مذہب سے بالاتر خالص انسانی سوچ کی ضرورت ہوتی ہے۔