اکیسویں صدی کے خیالی اعلانات

ولید بابر ایڈووکیٹ

اکیسویں صدی کا آغاز حکمرانوں کی طرف سے بلند وبانگ دعواں اور خیالی اعلانات سے ہوا تھا۔ مثلاً نئی صدی انسانی آزادی کی صدی ہو گئی، تعلیم کا یکساں حصول ممکن ہو گا، بیروزگاری کا خاتمہ ہو گا، صحت کی سہولیات دستیاب ہوں گی، بچوں اور خواتین کو حقوق مہیا کیے جائیں گئے،دنیا سے غلامی کا خاتمہ ہو گا،انسانی مسائل کے حل کے بعد جنگلی حیات کے تحفظ اور ماحولیاتی آلودگی سے پاک معاشرے کی فراہمی یقینی بنائی جائے گئی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس صدی کے سب سے اہم سوال کے’’کیا طبقات اور نجی ملکیت کی موجودگی میں خوشحال سماج کا قیام ممکن ہے؟‘‘ پر نہ تو کوئی ماہرانہ تبصرہ فرمایا گیا اور نہ ہی مستقبل کے حوالے سے کوئی ٹھوس حکمت عملی وضع کی گئی۔اس کی بنیادی وجہ اس ’’خیالی مثالی سماج‘‘ کا خواب دیکھنے والے بذات خود ایک مخصوص ’’سرمایہ دار طبقے‘‘ سے تعلق رکھتے تھے وہ نجی ملکیت اور دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کے خلاف نہ تھے۔

اکیسویں صدی کے ’’خیالی مثالی خوشحال’’ دنیا کے فرضی خواب کے پیچھے کچھ ٹھوس مادی،سیاسی ،معاشی ،معروضی محرکات کارفرما تھے۔مثلاً اکیسویں صدی تک دنیا بھر کی دولت سمٹ کر چند ہاتھوں میں جمع ہو چکی تھی ۔امیر اور غریب کی تفریق حد سے بڑھ چکی تھی اور  دنیا بھر کے غریب عوام کی “امیر طبقات “کے خلاف نفرت عروج پر پہنچ چکی تھی۔ عوام غربت، جہالت، پسماندگی ،بیماری ،بے روزگاری اور بے بسی وغیرہ کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیے ہوئے تھے۔ امیر طبقات کو اپنے خلاف بڑھنے والی نفرت اور اس نفرت سے ’’عوامی انقلابات‘‘ کے پنپنے کا خوف تھا جس بدولت امیر طبقات نے اکیسویں صدی کے آغاز پر غریب طبقات کو آس و امید کا سیراب دکھا کر اپنی عیاشی کو دوام بخشا اور نہایت فریب و مکاری سے غریب عوام کو دھوکہ دیا۔جس کا ثابت اکیسویں صدی کے تقریباً دو عشرے گزرنے کے باوجود غربت، جہالت، بے روزگاری و پسماندگی میں ذرہ بھر کمی نہیں آئی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ مسائل مزید بڑھتے گئے۔

گزشتہ صدی کے اعدادوشمار کا موجودہ صدی کے  اعدادوشمار سے تقابلی جائزہ لیا جائے تو بڑی آسانی سے امیر طبقات کے جھوٹے دعواں کو بے نقاب کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً 1820 میں امیر اورغریب ممالک کے درمیان 3:1 کی نسبت تھی جو 1950 میں بڑھ کر 35:1 ہو گئی اور اس وقت 75:1 ہے یعنی ایک امیر ملک کے مقابلے میں غریب ترین ملکوں کی تعداد 75 تک پہنچ گئی ہے۔اکیسویں صدی کی اس چمکتی دمکتی معیشت میں بعض ملکوں کا یہ حال ہے کہ ہر تیسرا بچہ غذا کی کمی کا شکار ہے۔ تیسری دنیا کے 250 ملین بچے 14 سال کی عمر کو پہنچنے سے بیش تر ہی کھیتوں اور کارخانوں میں مشقت (چائلڈلیبر)کرنے پر مجبور ہیں۔کروڑہا بچوں کو لونڈی اور غلام بنا کر بیچ بنا دیا جاتا ہے،بچیاں قحبہ گری کو ذریعہ معاش بنانے پر مجبور ہیں، بہتوں کو گلیوں میں بھیگ منگوانے کے لیے ایک آدھ عضو کاٹ کر اپاہج بنا دیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی ہمدریاں حاصل کر کے وافر مقدار میں بھیک اکھٹی ہو سکے، بڑی تعداد  فاقہ کشی سے مجبور ہو کر اپنے گردے بیج دیتی ہے جنہیں اہل ثروت معمولی قیمت پر خرید کر اپنے کمزور اور لاغر جسم میں پیوسط کروا کر تندرست و توانا زندگی بسر کرتے ہیں۔

آج ناقص غذا کے سبب اوسط انسانی عمر کم سے کم تر ہو رہی ہے اور  بعض افریقی ممالک میں یہ شرح خوفناک حد تک کم (45سال)ہو چکی ہے۔ آج دنیا کی ایک تہائی آبادی ایک ڈالر یومیہ سے کم پر گزر بسر کرنے پر مجبور ہے۔دنیا کے 60 فیصد بچوں کو سکول(دو کروڑ بچے پاکستان میں تعلیم سے محروم ہیں) ،70 فیصد کو صحت،75 فیصد افراد کو صاف پانی،70 فیصد غریبوں کو ایک وقت کی روٹی،60 فیصد کو روزگار،40 فیصد خاندانوں کو کرایے کے ایک کمرے کا گھر، 40 فیصد کو بجلی اور 60 فیصد رعایا کو نام نہاد حق رائے دہی جیسے بنیادی حقوق تک میسر نہیں ہیں۔جبکہ دوسری طرف دولت سمٹ کر چند ہاتھوں میں مرکوز ہو گئی ہے۔2006 میں امیر ترین افراد کی تعداد 128 تھی جو سکڑ کر 2012 میں 28 رہ گئی اور اب یہ عالم ہے کے دنیاکی 75 فیصد دولت کے مالک محض 8افراد ہیں جن میں سے 6 کا تعلق امریکہ سے ہے۔

درجہ بالا اعدادوشمار کی روشنی میں دنیا کے امیر طبقات کا اکیسویں صدی کے “خوشحال سماج “کا تجزیہ کیا جائے تو مضحکہ خیز نتائج برآمد ہونے کے ساتھ یہ حقیقت واضع ہوتی ہے کے دنیا بھر کے امیر طبقات محض “خیالی اعلانات “کے زریعے حقوق و آسائش دینے کا ڈرامہ رچاتے ہیں تاکہ عوام اپنے حقیقی مسائل کے حل کے لیے کسی منظم جدوجہد کے لیے کوئی عملی اقدام نہ اٹھائیں اور صرف “تصوراتی خیالی سماج”کے لیے کسی “پر اسرار نجات دہندہ” کے انتظار میں بیٹھے رہیں اور امیر طبقات اپنی امارت میں بغیر کسی روک ٹوک کےاضافہ کرتے ہوئے محض اعلانات اور طفل تسلیوں سے غریب عوام کو بیوقوف بناتے رہیں۔عوام اگر اپنے مسائل کا حقیقی حل چاہتے ہیں تو انھیں امیر طبقات کے اعلانات کے بجائے خود اپنی قیادت میں منظم ہو کر “قومی و طبقاتی لڑائی “لڑتے ہوئے منصفانہ سماج کی بنیاد رکھنا ہو گئی۔عوام کے پاس طبقاتی لڑائی کے سوا کوئی راستہ نہیں۔جلد یا بدیر انہیں یہ فیصلہ کن لڑائی لڑنا ہی ہو گئی کیونکہ عوام کےپاس غربت،جہالت،بیروزگاری ،بیماری،لاقانونیت اورطبقاتی تفریق کی زنجیروں کے سوا کچھ نہیں جبکہ پانے کے لیے مثالی ،منصفانہ،اشتراکی اور مسائل سے پاک غیر طبقاتی سماج پڑا ہے۔