اگر بھینس واقعی درخت چڑھ گئی؟
وقاص احمد
سوشل میڈیا کے کچرے خانے میں کاغذ چننے والے محنت کشوں کی طرح پھرنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ روز ایک سے ایک فلسفہ اس کوڑے کے ڈھیر پر پڑا ملتا ہے۔ خیر ان الفاظ سے دل گرفتہ ہونے کی ضرورت نہیں کہ اکثر ہیرے خاک چھان کر ہی ملتے ہیں سو یہاں بھی ہیرے ہیں۔ آذاد میڈیا ہی ابھی ہماری جان کو آیا ہوا تھا کہ اوپر سے مادر پدر آزاد سوشل میڈیا آگیا۔
آغاز میں تو اس میڈیا سے میرے عزیز ویلے ہم وطنوں کی دلچسپی صرف انٹرنیٹ پر دوستیاں لگانے کی حد تک تھی مگر آہستہ آہستہ اس میں سیاست سرایت کر گئی۔ آج بمشکل ہی آپ کو کسی پیج پر کوئی لطیف، شگفتہ، فلمی اور رومانوی قسم کی گفتگو ملے گی۔ ہر کوئی گوڈے گوڈے سیاست میں ڈوبا ہوا ہے۔
شیر اک واری فیر سے ایک زرداری سب پر بھاری اور صاف چلی شفاف چلی سے لیکر طرح طرح کے سیاسی سلوگن یہیں سے جنم لیتے ہیں اور مسلسل جنم لیتے رہتے ہیں۔ ان نعروں اور سلوگنز میں اپنی اپنی پارٹی کی محبت اور اپنے اپنے لیڈر سے محبت جھلکتی ہے اور جھلکنی بھی چاہیے کہ یہی تو زندہ سیاست کی گہما گہمی کو چار چاند لگاتے ہیں مگر بصا اوقات ان سیاسی نعروں کے درمیان کچھ لایعنی، بے معنی، مجہول قسم کے سلوگن ایسے سامنے آتے ہیں جیسے مذیدار دال چاول کھاتے اچانک منہ میں کنکر اجائے۔ اور سچ بتاؤں کہ کھانے کے دوران منہ میں کنکر آنے سے میں اتنا بدمزہ ہوتا ہوں کھانے کے آخر تک میرا موڈ خراب رہتا ہے۔
اسی طرح کنکر نما ایک سلوگن دو چار دن پہلے اچانک تحریک انصاف کے پیجز پر نمودار ہوا اور قریباً ہر ذی شعور بندے کی طبیعت کو مکدر کر گیا۔ نعرہ کے درست الفاظ تو یاد نہیں مگر کچھ یوں تھا کہ “اکیلا خان ہے تو ووٹ حاضر ہے، خان کے پیچھے وردی ہے تو جان بھی حاضر ہے”۔
مجھے یقین ہے کہ یونیورسٹی سے تازہ تازہ گریجویشن کرکے نکلے نوجوان جو ان سوشل میڈیا سیلز میں کام کرتے ہیں، شاید ان کو یہ بھی پتہ نہیں ہوگا کہ یہ نعرہ باعث فخر نہیں باعث شرم ہے، مگر تھوڑا تجزیہ کریں تو اس نعرے کے پیچھے تھوڑی سی خلش، تھوڑی سے شرمندگی تھوڑی سی ڈھٹائی واضع نظر آتی ہے۔ جب آپ 4-5 سال اپنے آپ اور اپنے آس پاس والوں کو یہ تسلی دیتے رہتے ہیں کہ ہمارے کپتان نے جب ایمپائر کی انگلی کی بات کی تھی تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف اشارہ تھا۔ لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایمپائر کا چھپا چہرہ جیسے جیسے دنیا پر آشکار ہوتا گیا تو بات چھپانا مشکل نا رہی۔ اب ہم یہ کیسے مان لیں کہ جو انکشافات دنیا بھر کے بڑے بڑے جرائد کی زینت بن گئے، تحریک انصاف کے وابستگان اس سے نا آشنا رہتے۔ جو ان میں سمجھ بوجھ والے تھے انہوں نے اس قابل نفرین عمل سے اپنے آپ کو الگ کرنا شروع کر دیا، کچھ صرف ہکا بکا کھڑے دیکھ رہے ہیں لیکن غالب ترین اکثریت ان حضرات کی ہے جو اس چور دروازے کو استعمال کرنا مناسب، جائز، حلال اور ضروری سمجھتے ہیں۔
ان میں سے کچھ اس کا جواز بھٹو اور نواز کے عشروں پرانے ماضی میں ڈھونڈتے ہیں۔ کچھ کی نفرت اور تعصب اپنے سیاسی دشمنان سے اتنا زیادہ ہے کہ ان کی نظر میں انکے سیاسی مخالفین واجب القتل ہیں اور کچھ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ اگر حرام گوشت کو حلال طریقے سے پکایا جائے تو وہ جائز اور حلال ہو جاتا ہے۔
کچھ ایسے”سیانے معصوم” جن کا خلوص نیت سے خیال ہے کہ خاں صاحب نے ایک بہت “گہری سیاسی چال” چل کر تمام کرپٹ الیکٹیبلز الیکشن جیتنے کے لیے بھرتی کر لیے ہیں لیکن جیسے ہی خاں صاحب وزیراعظم بنے، ان کرپٹ لوگوں کو نتھ ڈال کر رکھ دیں گے۔ اب اس سادگی پر کوئی مر کیوں نا جائے اے خدا۔ مطلب سادگی کا یہ عالم کہ جس مانگے کی بیساکھیوں پر خاں صاحب وزیراعظم بنیں گے، اس کے بعد وہ ان بیساکھیوں کے محتاج نہیں رہیں گے۔ سرکار، وہ الیکٹیبلز اگر جیتنے کے لیے ن لیگ اور پیپلز پارٹی جیسے بڑی پارٹیوں کے محتاج نہیں تو آپ کس کھیت کی مولی ہیں؟
خیر بوجوہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف کے غبارے میں بھری جانے والی اس فوجی ہوا کا مقصد خاں صاحب کو کوئی انقلابی وزیراعظم بنانا نہیں بلکہ نواز شریف کے ساتھ حساب چکتا کرنا ہے اور زبان خلق کو کون روکے جو یہ کہتے ہیں کہ وزارت عظمی کی انجینئرنگ میں خاں صاحب کا نمبر شاہ محمود، اسد عمر، چوہدری نثار کے بعد آتا ہے، پھر بھی اگر کسی حادثے کے نتیجے میں بھینس درخت کے اوپر پہنچ ہی جاتی ہے تو حالات کتنے مزے دار ہوں گے۔ اپنی متلون مزاجی کی وجہ سے مشہور ہمارے کپتان، علی امین گنڈا پور کے لائے ہوئے شہد کے نشے میں اگر بااختیار وزیراعظم بننے کی کوئی بڑھک مار بیٹھے تو کیا ہوگا۔ یہ سوچ کر بھی ہنسی نکل جاتی ہے۔ سیاست کے پی ایچ ڈی آصف زرداری اور اس پی ایچ ڈی کو بھی بیچ کر کھا جانے والے ڈان نواز شریف جن خلائی مخلوقوں سے نپٹتے نپٹتے ہف جاتے ہیں وہ خلائی مخلوق خاں صاحب کو تو ایک نوالے میں نگل جائے گی اور باہر صرف چچوڑی ہوئی ہڈیاں ہی آئیں گی۔
اس سے بھی زیادہ مذیدار صورتحال 15 منٹ کے نوٹس پر اباوٹ ٹرن لینے والا خاں صاحب کی سوشل میڈیا آرمی کی ہوگی۔ پچھلے دو سال سے “اداروں کی عزت” کے رکھوالے یہ غیرت مند بھائی جب خود کسی ادارے کے ہتھے چڑھیں گے تو کیا کمال کی معرکہ آرائی ہوگی۔ خلائی مخلوق کا سوشل میڈیا برگیڈ بھی بہت معرکتہ آرا قسم کی چیز ہے۔ محلے کی دو “پھپھے کٹنیوں” میں لڑائی ہو تو ان کی ذو معنی جگتوں اور ننگی گالیوں کا مزا پورا محلہ لیتا ہے۔
حرف آخر۔ میرے پیارے کپتان اور ان کے دیوانے کھلاڑیو، پاکستان کی سیاست میں فوج نے جتنے پیار و محبت سے نواز شریف کو پال پوس کر متعارف کروایا تھا اور جتنا لاڈ پیار نواز شریف کے ساتھ روا رکھا گیا اس کا مقابلہ خاں صاحب اور بھٹو مل کر بھی نہیں کر سکتے. اور اسی محبتوں کے پالے دھیمے مزاج کے شریف سے لاڈلے کا پہلا دور حکومت صرف اور صرف دو سال پانچ مہینے کا تھا۔ پھر کیا خیال ہے؟ اپنے خاں صاحب کتنی دیر چلیں گے؟