اگلے کچھ عرصے میں کون کون مارا جائےگا؟

عاطف توقیر

ڈونڈ ٹرمپ نے پاکستان کے لیے تمام تر امداد بند کر دی۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اربوں ڈالر کی امداد دی گئی اور وہ امریکا سے جھوٹ بولتا رہا اور دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کی بجائے انہیں پناہ دیتا رہا۔ کسی بھی امریکی صدر کا پاکستان کی بابت یہ انتہائی سخت بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ خوف ناک حد تک سخت بیان ہے اور اس کے اثرات اگلے کچھ عرصے میں نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ اس معاملے کو ذرا تفصیل سے دیکھتے ہیں۔

میں نے ابھی چند روز قبل اپنے بلاگ میں تفصیل سے لکھا تھا کہ پاکستان سن 2018ء میں ایک انتہائی بڑے خطرے سے دوچار ہے اور وہ ہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پاکستان کے تیئں اتنہائی سخت بیانیہ۔
اس حوالے سے کچھ تلخ باتیں ہمیں خود سے کرنے کی ضرورت ہے اور اگر ہم نے اس وقت آنکھ بند رکھی اور حقائق سے چشم پوشی اختیار کی، تو آنے والا وقت انتہائی سنگین نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔
ابھی چند روز قبل فوجی ترجمان میجرجنرل آصف غفور نے بھی اس حوالے سے کچھ بات کی تھی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ امریکا کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہش مند ہیں، تاہم پاکستانی فوج اپنی عزت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔
مگر عزت پر سمجھوتہ کرنے سے مراد کیا ہے؟ اور یہ بات کتنی سنجیدہ ہے، اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں ایک عجیب منطق رائج ہے کہ کوئی تنقید نہ کرے، کیوں کہ اس سے ملک کی بقا خطرے میں پڑ رہی ہے۔ یعنی بھیانک پالیسیوں پر عمل، نہایت بری حکمتِ عملی اور نادرست جہت کا انتخاب اس ملک کی بقا کے لیے خطرہ نہیں ہے مگر ہر وہ شخص جو ان پالیسیوں پر آواز اٹھائے یا تو وہ غدار ہے اور یا پھر غیرملکی ایجنٹ۔
ملک میں پچھلے کچھ عرصے میں ہر اس شخص کے خلاف ریاستی طاقت کا استعمال ہوا ہے، جو کسی بھی طرح کسی بھی بنیادی حق کے لیے آواز اٹھانے کے جرم کا مرتکب ہوا۔ یعنی کوئی شخص اظہار رائے کی آزادی کا حق مانگے، اسے اٹھا لیا جائے، پسے ہوئے طبقے یا قوم کے حقوق کی بات کرے، اٹھا لیا جائے، جو ملک میں مذہبی شدت پسندوں کو آشیرباد کی مخالفت کرے، اٹھا لیا جائے، جو مزدوروں اور کسانوں کے حقوق پر بات کرے، اسے بھی غائب کر دیا جائے۔ اور دوسری جانب شدت پسند عناصر کو مکمل چھوٹ دی جائے کہ وہ ہماری گلیوں اور شہروں میں پوری آزادی کے ساتھ دندناتے پھریں۔
دنیا کو ہم نے پچھلے کچھ برسوں میں فقط ایک پیغام دیا ہے کہ ریاست خود ان عناصر کی پشت پناہی کر رہی ہے اور جمہوریت، حقوق یا قانون کی بالادستی کے حق میں آواز اٹھانے والوں کو غدار یا ایجنٹ کہا جاتا رہا۔
دیس کے لیے نہایت ضروری ہے کہ ہم ایک مہذب قوم کی طرح فقط ایک بیانیے سے چلنے اور اسی کو درست ماننے کی بجائے، مختلف بیانیوں کے لیے معاشرے میں جگہ بنائیں، ایک دوسرے کی بات سنیں، اختلاف کے باوجود ایک دوسرے سے مکالمت کریں اور خیالیوں کو دلیل سے رد کرنے کی روایت ڈالیں۔
اختلاف پر ففتھ جنریشن وار اور تنقید پر مورال گرانے کے الزامات لگانے والوں کو یہ بات معلوم ہونا چاہیے کہ سرحد پر کھڑا ایک سپاہی اس وقت خود کو زیادہ طاقت ور سمجھتا ہے، جب اسے یہ معلوم ہو کہ اس کے پیچھے ایک قوم موجود ہے۔ اس کی پیٹھ پر ایک ایسا معاشرہ موجود ہے، جہاں علمی گفت گو ہوتی ہے، جہاں اداروں کی پالیسیوں پر بات ہوتی ہے، جہاں کسی بھی معاملے پر کھل کر مکالمت ہو سکتی ہے، جہاں لوگ اپنے اداروں کی تکریم کے لیے دستور کی بالادستی پر یقین کرتے ہیں۔
مگر بدقسمتی سے، یہ علمی جہت چننے کی بجائے راستہ پھر وہی چنا جا رہا ہے۔

ہمارے ہاں ایک عام بیانیہ یہ ہے کہ آنے دو امریکا کو ہم دیکھ لیں گے۔ اس بیانیے میں اصل میں ہم یہ کہہ رہے کہ امریکا پاکستان میں عسکری مداخلت کرے اور اس کے خلاف افغانستان کی طرز کی مزاحمت کی جائے گی۔ ایسے افراد کو کچھ وقت کے لیے افغانستان بھیجا جانے چاہیے تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ وہ پاکستان کو کیا بنانا چاہ رہے ہیں۔
ایک اور بیانیہ یہ ہے کہ امریکی صدر فقط دعویٰ کر رہے ہیں اور ان کی دھمکیوں کو سنجیدہ نہ لیا جائے۔ ایسے افراد سے صدر ٹرمپ کے گزشتہ ایک برس کے اقدامات، جو خوف ناک اور تباہ کن اثرات کے حامل ہیں، دکھائے جا سکتے ہیں۔ پیرس معاہدے سے نکلنے سے لے کر یورپ کے ساتھ کشیدگی تک اور متعدد دیگر، اس سے اندازہ یہ ہوتا ہے کہ ٹرمپ اپنے بتائے ہوئے راستے پر چل رہے ہیں، یعنی پہلے پاکستان کی تمام تر امداد بند کی جائے گی اور اس کے بعد ممکنہ طور پر ڈرون حملوں کا دائرہ ملک بھر تک وسیع کیا جائے گا اور اگر اس سے بھی بات نہ بنے تو معاملہ اس سے بھی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔
یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ ہمارے قبائلی علاقوں میں سینکڑوں ڈرون حملے ہوئے اور ہو رہے ہیں، جن کو ہم روک نہیں سکے۔ بلکہ کچھ واقعات میں تک خود امریکی فوجی پاکستانی سرزمین پر اتر کر بھی آپریشن کرنے میں پیش پیش رہے، جن میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت جیسی کارروائی شامل ہے۔

پاکستان میں حافظ سعید اور ان کی تنظمیوں کے خلاف گزشتہ کئی برس سے امریکا اور عالمی برادری پاکستان پر زور دیتی رہی، مگر اس سلسلے میں کوئی اقدام نہیں کیا گیا، مگر اب اچانک جماعت دعوہ وغیرہ پر روک ٹوک کے جلد بازی پر مبنی اقدامات یہ بتاتے ہیں کہ اس معاملے میں صورت حال کس حد تک سنگین اور سنجیدہ ہے۔
اب ہونا یہ چاہیے کہ تمام سیاسی اور عسکری قیادت بیٹھ کر یہ طے کرے کہ کس طرح اس ملک کو کسی نئی تباہی سے بچایا جائے۔ کس طرح اس جنگ سے جان چھڑائی جائے۔ کس طرح داخلی تقسیم پر قابو پایا جائے اور کس طرح ملک کے تمام شہریوں کو قوم کی شکل میں ایک پرچم اور ایک نام کے تحت جمع کیا جائے۔ ظاہر ہے یہ فقط اس وقت ممکن ہے، جب ریاست پوری توانائی کے ساتھ اپنے شہریوں میں بغیر کسی رنگ، نسل، عقیدے، ذات، برادری، قومیت اور زبان کے مساوی برتاؤ کا اظہار کرے اور لوگوں کے دلوں میں اپنی ریاست اور وفاق کے لیے محبت اور یگانگت کے جذبات ہوں۔
مگر ہو گا وہ جو ہوتا آیا ہے، پھر سیاسی، عسکری اور مذہبی اشرافیہ آپس میں ڈیل کرے گی، پھر اس بدحالی کو قوم کے سر پر تھونپے گی، پھر سستے اور گھٹیا نعرے فروخت کیے جائیں گے، پھر سے بتایا جائے گا کہ ہم بے حد طاقت ور ہیں اور ہم اپنی سرزمین کو امریکا کا قبرستان بنا دیں گے۔ ملاؤں کو پس پردہ شاباشی دی جائے گی کہ وہ باہر نکلیں اور جلسے کر کے یہ بتانے کی کوشش کریں کہ ہم میزائلوں کا انتظار کر رہے ہیں اور مرنے کے لیے تیار ہیں۔ اندر ہی اندر واشنگٹن کے سامنے ہاتھ جوڑے جائیں گے، اپنے ملک کی سلامتی مزید گروی رکھی جائے گی، اپنے مزید کچھ لوگ ماورائے آئین اور قانون مارے جائیں گے اور امریکا کو یہ بتایا جائے گا کہ ہم اس کے کاز میں بے حد مخص ہیں۔ یعنی ابھی اگلے چند روز میں آپ دیکھنے والے ہیں کہ عسکری آپریشن کے نام پر مزید ماورائے آئین اور قانون اقدامات کئے جائیں گے اور امریکا کو مطلوب کچھ افراد کو ہلاک کر دیا جائے گا یا وہ ہلاک ہو جائیں گے۔
ہم پچھلے ستر برس سے خود سرطان پیدا کر کے اور فقط پین کلر کھا کھا کر اپنے آپ کو تسلی دے رہے ہیں کہ مرض ختم ہو جائے اور وہ مرض مزید بڑھتا جا رہا ہے۔
ہمیں بے حد ضرورت ہے کہ اپنی جہت بدلیں اور پوری توانائی صرف کر کے اپنے روٹھے لوگوں کو حقوق دے کر منائیں۔ نچلی سطح سے انتظام پاکستانی قوم کے سپرد کیا جائے اور چند احباب اس قوم اور ملک کی قسمت کے فیصلے کرنے کی بجائے اس ملک کی پارلیمان کی مضبوطی کے لیے آواز اٹھائیں۔