ایکسٹینشن، کیا پاکستان ایک گھر کی طرح ہے؟
عاطف توقیر
ہمارے ہاں عموماﹰ اپنی ہی قوم پر بندوق اور باردو کا استعمال تو ہوا ہی ہے، مگر جو ہتھیار ہمارے خلاف سب سے زیادہ استعمال ہوا ہے وہ ہے خوف۔ دشمن کا خوف، خدا کا خوف، دائرہ اسلام سے نکل جانے کا خوف، حلقہ حب الوطنی کھو دینے کا خوف، کفر کر دینے کا خوف، بھارت کا خوف، غیرملکی ایجنسیوں کا خوف، عالمی طاقتوں کی سازش کا خوف اور ہر لمحہ کچھ ہو جانے کا خوف۔
آپ نے کچھ مخصوص جملے شاید کثرت سے سنے ہوں۔ ملک حالت جنگ میں ہے۔ ہم نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ یہ عالمی سازش کا حصہ ہے۔ ملک کا امیج خراب کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، یہ غیرملکی ایجنٹ ہیں، یہ ملک توڑنا چاہتے ہیں، پاکستان ایک گھر کی طرح ہے، گھر کی بات گھر پر ہوتی ہے، سب کے سامنے نہیں۔
ان تمام جملوں سے پہلے یا بعد میں آپ نے کبھی کوئی وجہ، کوئی ثبوت، کوئی دستاویز، کوئی شواہد نہ کبھی مانگے ہوں گے نہ کبھی کسی نے دیے ہوں گے۔
اگر پاکستان ایک گھر کی طرح ہے، تو آئیے اس گھر کے اندر ذرا جھانک کر دیکھتے ہیں کہ کیا کچھ ہو رہا ہے اور دیگر ممالک بھی اگر گھروں جیسے ہیں، تو وہاں کیا کچھ مختلف ہے۔
عموماﹰ گھر میں والدین سربراہ کی طرح ہوتے ہیں، گھر کے مختلف کمرے ہوتے ہیں، بچوں کو معلوم ہوتا ہے کہ گھر کا سربراہ کون ہے، باپ سے کس لہجے میں بات کرنا ہے، ماں سے کوئی ضد کیسے منوانا ہے، گھر کی اقدار کیا ہیں، گھر کا دستور کیا ہے، ماں باپ کی حالت کیا ہے اور اسی طرح والدین کو معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کی بہترین تربیت کیسے کی جانا ہے، انہیں بہترین تعلیم اور مستقبل کیسے دینا ہے، ان کے لیے مناسب لباس اور خوراک کا انتظام کیسے ہونا ہے۔ ان کی صحت اور بہبود کس طرح انجام پانا ہے اور اس کے لیے کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کا تاہم نظام بالکل مختلف ہے۔ یہاں گھر کا کوئی فرد گھر کے کسی دستور کسی قدر کو ماننے کو تیار نہیں۔ گھر میں بچے باپ سے جوتے پالش کروا رہے ہیں، ماں بچوں کی گالیاں کھا رہی ہے اور ہر دس منٹ بعد اسے قسم اٹھا کر یقین دلانا پڑ رہا ہے کہ وہ گھر کے ساتھ مخلص ہے اور وہ پڑوس والے گھر کی ایجنٹ نہیں ہے، ایک بھائی چھوٹے بھائیوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے، گھر کے وسائل لوٹ رہا ہے، دوسرے بھائی کو قتل کر رہا ہے اور والدین وہاں کھڑے ہو کر یہ تماشہ دیکھ رہے ہیں، ایسے میں کوئی خوف سے کسی کونے میں دبکا بیٹھا اچانک ڈر کر چیختا ہے کہ بھائی کو قتل نہ کیا جائے، تو ماں باپ یا گھر کا کوئی دوسرا فرد سے کہتا ہے کہ تمہاری آواز پڑوس میں جا سکتی ہے اور اس سے گھر کی بدنامی ہو جائے گی، بھائی کو تسلی سے قتل کرنے دو۔
اگر باورچی خانے میں ایک ساتھ چار بندے داخل ہو جائیں اور سبھی کا دعویٰ ہو کہ کھانا پکانے کا حق اسے حاصل ہے، تو کھانا تو خیر کیا خاک بنے گا، باورچی خانے کا حل بگڑ جائے گا۔ اسی لیے گھر میں مختلف افراد کو مختلف کام سونپے جاتے ہیں۔ اگر ہر کوئی دوسرے کے کام میں مداخلت شروع کر دے، تو اس گھر کا کوئی کام اپنے انجام کو نہیں پہنچ سکتا اور ہانڈی یقیناﹰ تباہ ہو جاتی ہے۔
گھر کے اندر گھر بن جائیں، تو خاندان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ اس لیے مضبوط گھرانا صرف وہ ہوتا ہےجہاں یہ طے ہو کہ گھر کا سربراہ کون اور کس کی بات حرف آخر مانی جائے گی تاہم گھر کے تمام افراد کو مکمل اختیار بھی دیا جاتا ہے کہ وہ گھر کے مختلف امور پر اپنی رائے دیں۔
اگر پاکستان ایک گھر ہے، تو یقین کیجیے اس گھر کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ ریاست کے مختلف حصوں کو جوڑ کر رکھنے کی واحد اور بنیادی طاقت اس ریاست کا آئین ہوتا ہے اور اگر وہ آئین باقی نہ رہے، تو ریاست کی بقا کو سنگین خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ اگر گھر کے افراد اپنے ہی گھر کی اقدار کی عزت نہ کریں، آپس ہی میں نفرت اور زہر موجود ہو، تو پھر دشمن کا اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوئی اقدام نہ تو کوئی غیرعمومی شے ہے اور نہ ہی اسے صورت حال کی خرابی کا اصل دوش دیا جا سکتا ہے۔
حال ہی میں جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے تین برس کی توسیع دینے کا اعلان کیا گیا۔ تاہم یہ بات ہم سب پر ہی واضح ہے کہ اصل میں یہ توسیع عمران خان نے خود اپنی حکومت کو دی ہے۔ کیوں کہ موجودہ حکومت کی بقا اس وقت صرف اور صرف فوجی پشت پناہی سے منسلک ہے۔ موجودہ حکومت کو قائم کرنے کے لیے عسکری قیادت نے گزشتہ تین برس محنت کی اور میڈیا، صحافیوں، عدلیہ اور الیکشن کمیشن سمیت ملک کے تمام بنیادی اداروں کا استعمال کر کے پروپیگنڈا کے ذریعے رائے عامہ عمران خان کی تبدیلی کے لیے ہم وار کرنے سے لے کر عدالتی فیصلوں تک اور پھر مشکوک انتخابات کے ذریعے عمران خان کو اقتدار دے کر تمام اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
سینیٹ کے چیئرمین نے حالیہ انتخاب کا معاملہ ہو یا اپوزیشن جماعتوں کے خلاف مقدمات، فوجی اشرافیہ مکمل طور پر عمران خان حکومت کی پشت پناہی کر رہی ہے، تاہم ایسا نہیں کہ یہ پشت پناہی حکومت کی ہو رہی ہے، بلکہ اس لیے ہو رہی ہے کہ چہرہ عمران خان اور پی ٹی آئی کا سامنے رہے، مگر ملک کی حاکمیت اعلیٰ اپنے قبضے میں رہے۔
اس کی واضح مثال یہ ہے کہ ملک میں جب جب بھی اختیارات مکمل طور پر عسکری اشرافیہ کے ہاتھ میں رہا ہے، ملک بھر میں صحافت، انصاف اور قانون سازی سمیت تمام بنیادی ادارے نہایت دباؤ کا شکار رہے ہیں۔ دوسری طرف ایسے حالات میں ہمیشہ سے عام افراد کو پروپیگنڈا مہم کے ذریعے ایک خوف کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
ملک نازک دور سے گزر رہا ہے، ملک حالت جنگ میں ہے، غیرملکی سازش ہو رہی ہے، سلامتی خطرے میں ہے، دشمن ملک توڑنا چاہتا ہے وغیرہ جیسے نعرے عموماﹰ اسی وقت سنائی دیتے ہیں، جب اقتدار پر فوج قابض ہو۔
ملک مضبوط اداروں سے مضبوط ہوتے ہیں اور ادارے دستور پر مضبوطی سے عمل درآمد سے۔ اداروں کو مفادات کے لیے استعمال کیا جانے لگے، تو اس کا نقصان ملک اور قوم کو ہوتا ہے اور جنرل باجوہ کو دی جانے والی ایکسٹیشن اصل میں ایک مفاداتی ٹولے کی اپنے وقتی فائدے کے لیے فوج کے ادارے اور ملک کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔
ادارے افراد سے نہیں نظام سے چلتے ہیں۔ ایک نظام جو شفافیت کے ساتھ اسے ادارے کے امور اور افعال کی دیکھ بھال کرتا ہے اور اس طرح وہ ادارہ نہ صرف خود اپنے پیروں پر کھڑا رہتا ہے بلکہ اس کی صلاحیتوں اور اہلیتوں سے قوم کا فائدہ بھی ہوتا ہے۔ تاہم ہمارے ہاں یہ تصور سرے سے موجود ہیں نہیں۔ ہمارے ہاں ایک نجات دہندہ کا خیالیہ پایا جاتا ہے، جس میں کسی ایک فرد کو ہر نظام اور اجتماعی شعور ہی سے افضل سمجھا جانے لگتا ہے اور نتیجہ وہی نکلتا ہے، جو اس وقت پاکستان کا بہ حیثیت ریاست دیکھا جا سکتا ہے۔
موجودہ حکومت ملکی اداروں کو کم زور کر کے پیدا کی گئی اور برسراقتدار آنے کے بعد سے اب تک اس حکومت کی وجہ سے ملکی ادارے مسلسل کم زور ہوتے جا رہے ہیں اور اداروں کو اپنے مفادات کے لیے کم زور کرنے کے لیے اداروں ہی کا استعمال ہو رہا ہے، تاہم یہ معاملہ یہاں تک رکے گا نہیں، اس تسلسل میں فوج کا ادارہ بھی متاثر اور کم زور ہو گا۔ تاہم ایک اس تمام مشق کا نقصان پاکستانی قوم ہی کو اٹھانا پڑے گا۔ اور اگر تباہ ہوتے اداروں اور چند افراد کے اقتدار اور مفادات کے اس چکر میں ملک کو پہنچنے والے نقصان پر چیخے گا، تو کہا جائے گا، ’آپ ملک کا امیج‘ خراب کر رہے ہیں۔ خاموش ہو جائیں، ملک نازک دور سے گزر رہا ہے، کچھ مت بولیے ہم حالت جنگ میں ہیں۔