ایک دفعہ سے دوسری دفعہ تک کا سفر

 

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک سکندر مرزا تھا۔ بے شمار محلاتی سازشوں سے وہ اقتدار میں آیا۔ شاندار کیریئر، خوبصورت اور رکھ رکھاؤ والی شخصیت۔ پہلا آئین پاکستان دینے کا اعزاز بھی حاصل۔ دنیا بھر کے رہنماؤں سے ذاتی تعلقات۔ سب کچھ اچھا ہی اچھا۔
دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ سکندر مرزا اپنی بیگم کے ہمراہ بیرون ملک جلاوطنی اور تنگدستی کی حالت میں دھکے کھاتے دیکھے گئے اور اسی عالم میں گمنامی میں مر گئے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جنرل ایوب خان کے نام کا “بادشاہ” ہوتا تھا۔ پاکستان کے سیاہ و سپید کا مالک۔ اپنے ہی ملک کو فتح کرنے کی بدولت اپنے آپ کو فیلڈ مارشل کہلوانے والا۔ 10 سال بادشاہت کی، بیٹوں نے مال پانی کمایا اور فیکٹریاں لگائیں
دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ اس بادشاہ کے اپنے بسائے ہوئے شہر میں “ایوب کتا ہائے ہائے” کے نعرے لگتے سنے گئے اور انہی نعروں کی گونج میں ایوان صدر سے رخصتی ہوئی۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جنرل یحیٰی خان ہوتا تھا۔ سازشی ایسا کہ ایوب جیسا طاقتور حکمران اٹھا کر باہر پھینکا اور شرابی ایسا کہ غیر ملکی دوروں میں سرکاری جہاز فضا میں لینڈنگ اس لیے ملتوی کر دیتے کہ صدر پاکستان ہوش میں آسکیں۔ رنگیلا ایسا کہ صدارتی گھر کو چکلا بنا دیا اور نالائق ایسا کے ملک دو ٹکڑے کروا دیا۔

دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ اس بندے کا ذکر بھی کسی ذکر میں نہیں۔ وہ کہاں جیا، کہاں مرا، کس نے جنازے کو کندھا دیا، کدھر دفنایا گیا؟ تاریخ کے کوڑے دان میں کہیں غرق پڑا ہے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک ضیاء الحق تھا۔ مرد مومن مرد حق، ضیاء الحق ضیاء الحق۔ امیر المومنین بنا، طالبان بنائے، امریکہ سے فنڈز کھائے، پاکستانی فوج کو اجرتی قاتلوں کی طرح امریکہ کے استعمال میں دیا، ہیروئین چرس اور کلاشنکوف پاکستان میں متعارف کروائے، خواتین نیوز کاسٹرز کو دوپٹے پہنائے اور وی سی آر کو اسلامی کرنے کے لیے فیس کا نفاذ کیا۔ جہاد کے فنڈز سے کروڑ کمانڈرز بنائے اور پھر اوجڑی کیمپ کا سانحہ رچا کر ثبوت بھی مٹائے۔ امیر المومنین انتہائی رعونت سے فرمایا کرتے تھے کہ آئین چار صفحات کا چیتھڑا ہے جسے میں جب چاہوں پھاڑ کر پھینک سکتا ہوں۔

دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جہاز ہوا میں ایسے ہی پھٹا جیسے امیر المومنین آئین کو پھاڑنے کا دعویٰ کیا کرتے تھے۔ اور امیر المومنین کے چیتھڑے فضا میں ویسے ہی بکھرے جیسے وہ آئین کا ذکر کیا کرتے تھے۔ فرق یہ ہے کہ آئین کے “چیتھڑے” اڑنے کے بعد کسی جانور نے نہیں چبائے تھے۔ امیر المومنین کی چند ہڈیاں اکٹھی کر کے دفنائی گئیں اور ان کا دور ایسے تمام ہوا جیسے وہ کبھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بہادر کمانڈو ہوتا تھا جو ڈرتا ورتا کسی سے نہیں تھا۔ جنرل مشرف نامی یہ بہادر کمانڈو اپنی کارگل کی شکست اور امریکہ کی ایک فون کال پر ڈھیر ہونے کی بنیاد پر جانا پہچانا جاتا ہے۔ موصوف فرماتے تھے کہ وردی میری کھال ہے (وہ الگ بات ہے کہ جنرل کیانی نے وہ کھال کیسے کھینچ کر اتاری)۔ پاکستان کے خودساختہ اتاترک نے ڈالر کے عوض سب کچھ بیچا۔ پاکستانی مرد و عورت، پاکستانی سرزمین، پاکستانی فوجی و فضائی اڈے اور پاکستانی قومی حمیت و غیرت۔ 8-9 سال دھوم دھڑکے سے دنیا کی آنکھوں کا تارہ بن کر جیے۔

دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ صاحب کو دھرنوں کے ڈرامے رچا کر، ایمبولینس میں ڈال کر، جعلی میڈیکل رپورٹس بنوا کر ملک سے فرار کروانا پڑا اور آج وہ طاقتور ترین کمانڈو اپنے ملک واپس آنے کے لیے لوگوں اور اداروں کی “مہربانی” کا محتاج ہے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جسٹس افتخار چودھری ہوتا تھا۔ آمر کے سامنے “ڈٹ” جانے والا چیف جسٹس۔ ادھر وطن عزیز کے دیسی “دانشوڑ” اسے “قدرت کا انتظام” کہتے تھے۔ عدالتی مسند پر شیر کی طرح گرجنے والا۔ سووموٹو کی مشین گن کی فائرنگ سے اس نے پیپلز پارٹی چھلنی کر دی۔ خود کو سپر ہیومن سمجھنے والا، خود کو انصاف کا مرکز تصور کرنے والا، خود کو آئین و قانون سے بالاتر سمجھنے والے اس چیف جسٹس کی مقبولیت ایسی تھی کہ پاکستانیوں کی غالب ترین اکثریت اسے مسیحا کی طرح پوجتی تھی۔ دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ کیا دوسری دفعہ اس بندے کا ذکر کسی نے سنا؟ ٹی وی ٹاک شوز میں اپنی یک ممبر سیاسی پارٹی کی پروموشن کے لیے چھوٹے چھوٹے اینکر بچوں کی ترلے منتیں کرنے والا یہ “خدائی اوتار” عبرت کا ایک ایسا نشان بن چکا ہے جس سے سبق نا سیکھ پانے والا یا تو ذہنی مجہول ہوسکتا ہے یا پھر مردہ۔

اور اب۔۔۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ

ایک بابا رحمتا پیدا ہوا ہے۔ بابے کے کارناموں میں کسی آمر کے سامنے کلمہ حق گوئی تو نہیں مگر ایک منتخب وزیراعظم کی علانیہ تضحیک شامل ہے۔ افتخار چودھری کی بدروح اس میں گھس تو گئی ہے مگر دنیا جانتی ہے کہ جو عروج افتخار چودھری نے دیکھا تھا، بابا رحمتا اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ سووموٹو کل پیلپز پارٹی کے خلاف تھے آج ن لیگ کے خلاف ہیں۔ کل بھی سرکاری افسران عدالتوں میں تذلیل کا نشانہ بنتے تھے آج بھی تذلیل کا نشانہ بنتے ہیں۔ کل بھی کسی کے دماغ میں یہ خلل تھا کہ بس وہ فرشتہ ہے اور آج یہ خلل کسی اور کے دماغ میں ہے کہ اس کے علاوہ سب شیطان ہیں۔ کل بھی عدالتوں میں بلاتفریق معصوم و مجرم سرعام پگڑیاں اچھالی جاتی تھیں اور آج بھی وہی کام ہے۔ افتخار چودھری تو اپنی ذاتی تشہیر کے مقصد پر گامزن تھا جبکہ بابے رحمتے کو تو گناہ بے لذت کی ماند کسی دوسرے کی اسائنمنٹ ملی ہوئی ہے۔

دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ

دوسری دفعہ کا ذکر ابھی آنا ہے۔ کچھ مہینے، کچھ دن کچھ ساعتیں ہی رہ گئی ہیں ناں؟ تاریخ کے کوڑے دان کا منہ ہر اس کچرے کے لیے کھلا ہے جو اپنے آپ کو زمین پر خدا سمجھ بیٹھتا ہے۔ جب فیلڈ مارشل، امیر المومنین اور بہادر کمانڈو قدرت کے انتظام کی لاٹھی سے نا بچ پائے تو تم کون ہو اور کیا بیچتے ہو؟ چھوڑو اس جمہوریت و آمریت کی جنگ کی یہ ازلی بک بک کو۔ چھوڑو یہ خدمت خلق اور درمندی وطن کے ڈرامے۔ صرف ایک بات پر نظر رکھو “تم کیا لے کر آئے تھے اور تم کیا لے کر جاؤ گے”. عزت اور شہرت میں سے کسی ایک کا انتخاب ہے۔ عزت کے لیے پورا سچ سچنا پڑے گا، سچ بولنا پڑے گا اور سچ لکھنا پڑے گا۔ جبکہ شہرت۔۔۔
شہرت تو کوٹھے پر بیٹھی طوائف کو بھی مل جاتی ہے۔