ایک عام بیانیہ
زوہیب احمد پیرزادہ
2011 میں، میں گورنمنٹ کالج میں پڑھا کرتا تھا. ہم تکریباﹰ40 سے 50 تک طلبہ ساتھ ساتھ تھے۔ ہمارے بہت سے اساتذہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اپنے کام سے مخلص تھے۔ وہاں پر ایک لڑکا پڑھنے کے آیا کرتا تھا، جو تعلیم اور علم حاصل کرنے کے لیے پرجوش تھا۔ سوال کرتا، اپنا کام کرتا اور دل جمعی پڑھتا نظر آتا۔ پھر یوں ہوا کہ کچھ مہینے بعد وہ ہمیں نظر نہیں آیا۔ ایک مہینہ گزر گیا، مگر وہ نہیں آیا۔ اساتذہ پوچھتے رہتے کہ وہ لڑکا کیوں نہیں آتا مگر کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا؟
چوں کے وہ میرے ہی گاؤں سے تھا، تو ایک دن مجھے بازار میں مل گیا۔ میں نے دیکھتے ہی پوچھا، ’’کدھر غائب ہو، کالج کیوں نہیں آتے، کورس بہت آگے نکل گیا ہے۔‘‘
تو ہسنتے ہوئے کہنے لگا، ’’چھوڑو اس بات کو، تم اپنا بتاؤ، تمہاری پڑھائی کیسے جا رہی ہے۔‘‘
میں نے جواب دیا، ’’بہت اچھی‘‘ اور پھر سے اپنے سوال کی طرف آگیا، ’’بتاؤ بھی، کیوں نہیں آتے؟‘‘
بس پھر اس کی ہنسی رفتہ رفتہ چہرے سے اڑنے لگی اور اچانک ہی اس کا چہرہ مایوسی اور مجبوری کی کہانی میں بدل گیا۔ کہنے لگا، ’’یار تمہیں تو معلوم ہے کے مجھے پڑھنے کا بہت شوق ہے، مگر ہمارا پیر جو یہاں کا وڈیرہ ہے، مجھے پڑھنے کی اجازت نہیں دیتا، مجھے اس کے ڈیرے پر کام کرنا ہوتا ہے۔‘‘
میں خاموش ہوگیا، اس موضوع پر فقط خاموشی پڑی رہنے دی۔ پھر میں نے بالآخر کہا، ’’آؤ آدم جی کی چائے پیتے ہیں۔‘‘
کچھ سال بعد میں ماسٹرس کے لیے اسلام آباد چلا گیا اور وہ لڑکا وہیں کام کرتا رہا اور شاید آج بھی وہیں کام کرتا ہو۔
میں جب اسلام آباد میں جب آیا اور یونیورسٹی میں ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے، تو یہاں ایک بیانیہ سننے کو ملا، وہ یہ تھا کہ لوگ اس وجہ سے نہیں پڑھتے، کیوں کے وہ خود پڑھنا نہیں چاہتے، وہ خود سست اور ناکارہ ہیں۔ سب انہی کی غلطی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس بیانیے اور وڈیروں اور سیاستدانوں کے بیانیے میں کوئی فرق نظر نہیں ہے۔
بار بار بحث کے دوران، مرے منہ پر بل گیٹس کا ایک حوالہ مار دیا جاتا رہا کہ اگر آپ غریب پیدا ہوتے ہیں، تو یہ آپ کی غلطی نہیں، لیکن اگر آپ غریب مر جاتے ہیں، تو یہ آپ کی غلطی ہے۔‘‘
اور یہ بیانیہ مجھے کسی نہ کسی صورت اب بھی سننے کو ملتا رہتا ہے۔ حیرت اس بات پر نہیں ہوتی کہ یہ بات کوئی غیرتعلیم یافتہ یا ناخواندہ آدمی کر رہا ہوں، حیرت اصل میں اس پر ہوتی ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد بھی یہ بیانیہ دوہراتے نظر آتے ہیں۔ انہیں یہ کون سمجھائے کہ دنیا بھر میں ہر روز ہزاروں بچے غیر محفوظ پانی سے مر جاتے ہیں، وہ غریب پیدا ہوتے ہیں اورغریب مر جاتے ہیں، اور اس طرح غریب مر جانے میں ان کی کوئی غلطی نہیں۔ انہیں یہ کون سمجھائے کہ دنیا میں آٹھ امیر ترین افراد کے پاس اتنا سرمایہ ہے، جتنا دنیا کی پچاس فیصد آبادی کے پاس مجموعی طور پر ہے۔ انہیں یہ کون سمجھائے کہ پاکستان میں 24 ملین بچے تعلیم سے محروم ہیں۔
یہ وہی بیانیہ ہے، جس سے وڈیرے، جاگیردار اور سیاسی اشرافیہ اور بھی زیادہ مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔ اس بیانیے سے اصل میں اسی اشرافیہ کو فائدہ ہے۔ بل گیٹس اور مالی طور پر دیگر کامیاب افراد کو مثالوں کے طور پر پیش کر کے پیش کیا جاتا ہے اور ہم سے کہا جاتا ہے، ’’بھائی، آپ کیوں محنت نہیں کرتے اور بل گیٹس نہیں بن جاتے‘‘۔
حقیقت مگر یہ ہے کہ اکثریتی آبادی بنیادی ضروریات تک سے محروم ہے۔ کارل مارکس نے کہا تھا کہ ہر دور میں، غالب خیالات حکمرانوں ہی کے ہوتے ہیں، جن کے قبضے میں مادی پیداوار کے ذرائع ہوتے ہیں، وہ ہی ذہنی پیداوار کو کنٹرول کرتے ہیں۔
ایسے بیانات میڈیا، تعلیم اور دیگر ذرائع سے پھیلائے جاتے ہیں اور پھر لوگ بھی یہی زبان بولنے لگتے ہیں اور مظلوم کو گناہ گار بنا کے پیش کیا جاتا ہے اور جو مجرم اور ظالم ہیں ان پر نہ کوئی حرف آتا ہے نہ الزام۔
ایک جاگیردار، جس کے پاس 7 ہزار ایکڑ زمین ہے، سینکڑوں خاندان چلاتا ہے۔ اپنا ظلم اور استحصال جاری رکھنے کے لیے سیاست میں شامل ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ مل جاتا ہے، جو اس سے بھی زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ لوگوں کا جاپل رکھا جاتا ہے، ان سے زبردستی ووٹ لیا جاتا ہے اور یوں ظلم قائم رہتا ہے۔ اس کے بعد ان لوگوں کو سننے کو فقط یہی ملتا ہے کہ وہ اصل میں خود ناکارہ، سست، جاہل ہیں اور خود محنت نہیں کرتے۔
کچھ کہو تو کہتے ہیں، ’’بھائی، یہی تو مصیبت ہے، اپ لوگ اپنی غلطی نہیں مانتے۔‘‘
سست، ناکارہ اور جاہل ہونا، بیماری نہیں ہیں، یہ بیماری کے نتائج ہیں اصل بیماری جاگیرداری اور سرمایہ دارانہ نظام ہے۔