ایک معاشرہ جہاں کوئی زینب محفوظ نہیں

عاطف توقیر، بون

قصور میں سات سالہ زینب چھ روز قبل اغوا کی گئی اور پھر اس کی نعش کچرے کے ڈھیر پر پری ملی۔ اس بچی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا اور پھر لاش کوڑے دان کے سپرد کر دی گئی۔

اس چھوٹی سی گڑیا کو جب اس کے ماں باپ سے دور کیا جا رہا ہو گا، جب اسے اس اذیت اور درندگی کا نشانہ بنا جا رہا ہو گا اور جب اسے ہلاک کیا جا رہا ہو گا، تو اس وقت یقیناﹰ ایک خیال اس بچی کے دماغ میں ضرور ہو گا کہ میرا قصور کیا ہے؟ زندگی جو مجھے خدا نے عطا کی تھی وہ مجھ سے کس جرم کے تحت چھینی گئی۔ وجود جسے میرے ماں باپ نے پھولوں والے لباس سے سینچا تھا اس پر خون کے دھبے اور درد کے چھینٹے کیسے پھینک دیے گئے۔

کل میرے گھر کچھ مہمان آئے اور وہ میرے آٹھ ماں کے بیٹے سے کھیلنے لگے۔ مگر اس لمحے میرے بیٹے کی تمام تر نگاہ مجھ پر تھی۔ اس کی آنکھوں میں خوف تھا اور وہ میری جانب بغیر کچھ بولے کہہ رہا تھا کہ پاپا کیا میں محفوظ ہوں۔ ظاہر ہے گھر میں آنے والی فیملی میرے قریبی احباب کی تھی اور میرا بیٹا ان کے ہاتھوں میں محفوظ تھا مگر اس آٹھ ماہ کے بچے کے چہرے پر سکون فقط اس وقت پیدا ہوتا، یا اس کے پریشانی فقط اس وقت اس کا چہرہ چھوڑتی، جب وہ میرے چہرے پر سکون اور مسکراہٹ دیکھتا۔ جوں ہی وہ میرے بازوؤں میں پہنچا، وہ ہر پریشانی سے دور تھا اور اسے مکمل طور پر تحفظ کا احساس تھا۔ مگر زینب کو وجود جب نوچا جا رہا تھا، تو وہاں نہ اس کی ماں تھی اور نہ باپ۔ اس نے تحفظ کے احساس کے لیے کس کس جانب دیکھا ہو گا؟ اس لمحے اس نے اپنی آنکھوں سے کتنی بار خدا کو پکارا ہو گا؟ اس نے کتنی دفعہ چیخ چیخ کر کہا ہو گا کہ مجھے میرے بابا کے پاس جانے دو، مجھے میری امی کے پاس جانے دو۔ مگر درندوں اور ہوس زادے کے کانوں میں یہ ننھی صدائیں کب پہنچتی ہیں۔

اس درد، اس دکھ اس غم، اس صدمے کی شکار یہ ننھی سی پری کس اذیت سے گزری ہو گی، جب اس نے دیکھا ہو گا کہ وہ ایسے لوگوں میں پھنسی ہوئی ہے، جن پر اس کی دہائیاں بھی اثر نہیں کرتیں۔ اس نے اپنے ماں باپ کو کتنی بار یاد کیا ہو گا جو اس کی فقط ایک آواز پراسے بانہوں میں بھر لیتے ہیں۔

زینب ہمارے معاشرے کی ہوس کا شکار ہونے والی پہلی بچی نہیں اور نہ ہی آخری بچی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ہمارے بچوں کے لیے کون سی جگہ محفوظ ہے؟

ہمارے ہاں ایسا کون سا فرد ہے، جسے بچپن میں کسی نہ کسی حد یا سطح تک کے جنسی حملے کا نشانہ نہیں بنایا گیا؟ ہمارے ہاں بچوں کے ساتھ ایسے ناروا سلوک میں زیادہ تر تو خود بچے کے قریبی رشتہ دار تک شامل ہوتے ہیں۔ اس ہوس زدہ معاشرے کی ٹھیک اس لمحے کتنی ساری ننھی  پریاں ٹھیک ایسے ہی ظلم سے گزر رہی ہوں گی؟

سوشل میڈیا پر اس بچی کی تصاویر اور لاش اور ماں باپ کی کہانی کچھ روز کے لیے ہمارے ٹوٹے پھوٹے جملوں کی کہانی بنے گی، مگر معاشرے میں موجود اس بھیانک اور سفاک صورت حال کی تبدیلی کے لیے ہو گا کیا؟

اس سے قبل بھی قصور ہی کے علاقے میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ویڈیوز تک بنائی جاتی رہیں، مگر نتیجہ کیا نکلے؟ کتنے مجرم پکڑے گئے؟ کتنوں کو سزا ہوئی؟

پاکستان میں اس وقت حالت یہ ہے کہ وہ اسکول ہو یا مدرسہ، گھر ہو یا بازار، بچوں کے جسم بھنبھوڑنے والی نگاہیں تعاقب کرتی ہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ ان سفاک درندوں کو یہ بچے آسان شکار دکھائی دیتے ہیں اور ایسے میں ہمارے جیسے معاشرے میں ماں باپ کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ ان پھولوں کی حفاظت کریں۔

ہمارے ہاں اخلاقیات کے لیکچر دیتے لوگ اپنی اعلیٰ ظرفی کے قصیدے پڑتے ملتے ہیں، مگر سڑک پر اسکول یا کالج جاتی بچی ہو، یا بس میں بیٹھی کوئی خاتون کہیں گندی گھٹیا نگاہیں پیچھا کرتی ہیں، کہیں گندے جملے اور کہیں ہوس کی آگ ٹھنڈی کرنے والی چھون۔

ہم اس سماج کو وہاں لے جا چکے ہیں جہاں قبروں سے مردوں کو نکال کر اپنی جنسی ہوس کی تسکین کرنے والے بھی موجود ہیں، مسجدوں، اسکولوں اور مدرسوں کے اندر بچوں کو نشانہ بنانے والے بھی اور زینب جیسی ہماری بیٹیوں اور بہنوں کو بھنبھوڑنے اور پھر کوڑے دانوں میں پھینک دینے والے بھی۔

اس گھٹن زدہ معاشرے کی تعظیم اور تکریم کے جملے بولنے والے ہم جیسے لوگوں کو زینب کا جسم اور اس کے چہرے پر پریشانی، دکھ، خوف، تکلیف، اذیت، تشدد، عقوبت، دعاؤں اور بدعاؤں کا دیکھ کر شرم اپنا سر نیچا کر لینا چاہیے۔