بابڑا سانحہ، جناب عالی! بےادبی معاف
فیاض الدین
یہ تو ان کی خوش قسمتی تھی کہ گولیاں ختم ہوگئی، ہم نے کسی کو نہیں چھوڑنا تھا، وزیراعلی صوبہ سرحد میرے منہ میں خاک، بےادبی کے لیے معذرت، سوال کرنے کی جسارت چاہتا ہوں، جن کو بےدردی اور بہت شوق سے مرغیوں کی طرح ذبح کیا گیا ان کا قصور کیا تھا؟
برا نہ مانیئے گا جناب عالی! دراصل ہم طالب علم ہیں، جاننا چاہتے ہیں، جناب عالی! میں اکثر سوچتا ہوں کہ جو بندہ کسی کو قتل کرتا ہے وہ رات کو سوتا کیسا ہے؟ یہ سوال مجھے سونے نہیں دیتا، مگر جناب عالی 600 سے زائد کو قتل کرنے والا سوتا ہوگا؟ اس کو نیند آتی ہوگی؟ جناب عالی! اورپتہ ہے جن 600 سے زائد کو قتل کیا گیا وہ کون تھے؟ میں یہ سمجھتا ہوں کہ انسانوں کا قتل نہیں ہوا، پختونوں کا بھی قتل نہیں ہوا، جناب عالی! امن کا قتل ہوا، امن کو رسوا کیاگیا، امن کو داغ داغ کیا گیا، محبت کو گولی ماری گئی، عدم تشدد کا گلہ دبایاگیا، پیار کو زخمی کیا گیا، پھولوں کو اکھاڑا گیا، بہار کی بھی بےعزتی ہوئی،اڑنے والے پرندوں کے پر کاٹے گئے، جناب عالی! 45 منٹ میں لوگوں کی جنتوں کو ان سے چھینا گیا، جناب عالی! جنت کو تو آپ جانتے ہونگے، جناب عالی ! جب آپ کی ماں کو قتل کر دیاجائے شاید تب احساس ہوکہ جنت کو پایا کہ کھویا۔
جناب عالی! اس کتاب کا کیا بنا، جس کتاب کو ہم اللہ کی کتاب سمجھتے ہیں، جنتوں نے تو اپنے سر پر وہ کتابیں بھی رکھی اس فریاد کےساتھ کہ صاحب بس کریں، مگر جناب عالی! کتاب کو بھی دیکھ کر ظالم نہ رکھا، ظالم کو کتاب سر پر رکھ کر فریاد کی گئی کہ اس کتاب کی خاطر بس کریں، مگر کسی نے نہیں سنی،جناب عالی! “پبلک سیفٹی” کا آرڈنینس پاس ہوا۔
جناب عالی! انگلش میری کمزور ہے مگر شاید یہ پبلک تو عوام کو کہتے ہیں اور سیفٹی شاید حفاظت کو کہتے ہیں، مگر عوام کو روند کر یہ سیفٹی کیسے ہوا؟ بچوں بوڑھوں، ماٶں کو مار کر یہ حفاظت کیسی ہوئی؟ جناب عالی! یہ کیسی پبلک سیفٹی ہوئی جس میں پبلک کا گلہ گھونٹ دیا جائے اور گلہ گھونٹتے وقت اسے یہ بھی بتایا جائے کہ تمہاری حفاظت کر رہا ہوں۔
جناب عالی! ہمارا دین بالکل درست کہتا ہے کہ اس دن ہر بےجان چیز بول اٹھے گی، مجھے یقین ہے جناب عالی! اس دن غازی بابا کی مسجد کہے گی، ہاں بالکل میرے خدا! میں گواہ ہوں، میں نے گولیوں کی آواز سنی، ہاں میرے خدا! جوتوں سمیت کچھ انسان نما لوگ میرے اندر آگئے، کچھ چھت کے اوپر شکار کی تلاش میں بیٹھے، میرے خدا! مجھے یاد ہے وہ گولیوں کی آوازیں، وہ ماٶں اور جوانوں کی چیخیں۔
میرے خدا! مجھے اب بھی ایسا لگ رہا ہے کہ یہ کربلا آج ہی ہوا ہے میں اس کو بھولا نہیں، جناب عالی! اوپر آسمان کیسے خاموش رہ سکتا ہے، آسمان بھی کہے گا، میں سب سے بڑا گواہ ہوں کیونکہ مجھے یہ سارا واقعہ بالکل صاف اور واضح نظر آرہا تھا، میں دیکھ رہا تھا کس بےدردی کیساتھ لوگوں کو قتل کیا گیا، گولیاں چلانے والے اتنے بزدل تھے کہ ان کی گولیاں ماٶں کو لگ رہی تھی، یہ گولیاں اتنی بزدل تھی کہ پھول جیسے بچوں کو لگ رہے تھے،۔
میرے خدا! میرا سر اس وقت شرم سے جھک گیا جب گولیاں برسانے والوں نے قرآن کو بھی نہیں بخشا، زمیں کیسے خاموش رہ سکتی ہے بھلا! اپنی گواہی میں زمیں بھی کہے گی، میرے سینے پر بہت لاشیں گری، میرے سینے میں خون کو بہایا گیا، میرے سینے کو خون سے لت پت کیا گیا، میرے سینے پر موجود دریا میں لاشوں کو پھینکا گیا، میرے خدا! یہ تصویر میرے ذہن سے ہٹ نہیں رہی، میرے خدا! اس سفید ملنگ کو بہت بےدردی کیساتھ قتل کیا گیا، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، زمیں کہے گی میرا اپنا رنگ سرخ ہوچکا تھا کیونکہ خون بہہ رہا تھا ایسا لگ رہا تھا زمین اپنا رنگ بدل رہی ہے،
جناب عالی! میں آپ کی عزت،توقیر اور احترام میں کمی ہرگز نہیں چاہتا، میں اپنی قوم کو یہ بتانا چاہتا ہوں، کہ آج جو قوم قاتلوں کو سزا دینے کا احتجاج کر رہی ہے، انہیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ جب 600 سے زائد پختون کو قتل کرنے کے لیے نہ کوئی کمیشن بنتا ہے نہ کوئی سوال کرتا ہے اور نہ کوئی انکوائری ہوتی ہے وہاں نقیب اللہ محسود کو اور ان جیسے کئی لوگوں کو انصاف کیسے مل سکتا ہے، ریاست ماں ہوتی ہے، جناب عالی! ماں نے اپنے بچوں کو کیسے مار سکتی ہے؟ جناب عالی مان اپنے بچوں پر گولیاں کیسے برسا سکتی ہیں، ماں اپنے بچوں کی لاشوں کو دریا میں کیسے پھینک سکتی ہیں؟
جناب عالی! ماں یہ کیسے کہہ سکتی ہے کہ میرے زخمی بچوں کو ہسپتال میں نہ لیا جائے، کیا ایسا ممکن ہے؟ جناب عالی! دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں! اگر نہیں، تو کیوں ایک خاص طبقے کو ظلم وبربریت کا نشانہ بنایا جارہا ہے؟
جناب عالی! ریاست اگر ماں ہے تو بابڑا کی وہ سرزمین سوال کرتی ہے کیا وہ زمین اور اس زمین پر آگے بڑھنے والا انتہائی پرامن جلوس کو ریاست ماں کی نظر سے نہیں دیکھ رہی تھی؟ جب لاشوں کو گرایا جارہا تھا، ماں نہیں روئی؟ جب لاشوں کو گرایا جارہا تھا تو ماں نے اس تاریخ کو چھپایا کیوں؟ ماں ایسے تو نہیں ہوتی جناب عالی! ماں تو غیرجانب دار ہوتی ہیں، اپنے سب بچوں کو یکساں دیکھتی ہیں، جناب عالی! اس ماں کو سمجھائیں ناں بس کریں ہمیں اور نہیں مرنا، ہم ہاتھ جوڑ کر التجا کرتے ہیں کہ یہ ماں ظالم کو سزا دے اور مظلوم کا ساتھ دے۔
جناب عالی! !اللہ کا شکر ہے ظالم مر جاتا ہے مگر محبتیں بانٹنے والا، عدم تشدد اور امن کی بات کرنے والے ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور کسی شاعر نے پشتو میں کیا خوب کہا ہے کہ
د مینې زور ، د خلوص شور، د وفا رنګ به منې
باچاخــــان شته د قیوم خان هډو درک نه لګي
یعنی محبت کی طاقت،خلوص اور وفا کے رنگ کو ہمیں تسلیم کرنا ہی ہوگا کیونکہ باچاخان موجود ہے مگر قیوم خان کا کسی کو پتہ تک نہیں ہے۔