برائے مہربانی۔۔۔رک جائیں
وقاص احمد
علامہ نیوٹن صاحب فرماتے ہیں کہ ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے جو مقدار میں برابر اور متضاد سمت میں ہوتا ہے۔ طبیعات میں اسے حرکت کا تیسرا قانون کہا جاتا ہے۔
اب زرا حرکت کے اس تیسرے قانون کی ہانڈی کو اپنی پریشان خیالی کے چولہے سے دو منٹ کے لیے اتار کر سائیڈ پر رکھتے ہیں اور کچھ دیر کے لیے پروپیگنڈا کی سائینس کو مختلف مثالوں سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اپنے ایک پچھلے کالم میں ہم یہ بات کر چکے کہ منفیت کا پروپیگنڈا مثبت تبلیغ و پرچار سے کہیں زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے۔ اس کے خالص انسانی نفسیاتی وجوہات ہیں جس پر اگر کوئی صاحب علم قاری اپنے علم سے ہم سب کو مستفید کرنا چاہے تو ہم مشکور ہوں گے۔ اپنی ملکی سیاست کے تناظر میں ہم زیادہ پیچھے نہیں جاتے۔ بے نظیر سے شروع کر لیتے ہیں۔ محدود ذرائع ابلاغ کے اس دور میں بھی “یار لوگوں” کے لیے یہ چنداں مشکل نہیں تھا کہ وہ انہیں سکیورٹی رسک مشہور کر سکیں۔ بے نظیر سکیورٹی رسک تھی یا نہیں تھی، اس سے کسی کو کوئی علاقہ نہیں، پروپیگنڈا اتنا موثر تھا کہ دو دفعہ ان کی حکومت الٹا دی گئی اور ملک میں پتہ تک نا ہلا۔
آپ کارگل جنگ کو لے لیں، پوری دنیا کو معلوم تھا کہ وہاں کیا ہوا، آج تو اب اعترافی بیانات بھی اسی ادارے سے آتے ہیں جنہوں نے 99 میں پروپیگنڈا کی جنگ سے ایک اور منتخب وزیراعظم کا تختہ الٹا اور کارگل کی شکست کا ملبہ اس پر ڈال دیا گیا۔ آج دنیا جو بھی کہے، اس دور کے چوٹی کے جنرل جیسے مرضی اعترافی بیانات دیں مگر عرف عام اس جنگی شکست کا سہرا اس وزیراعظم کے سر ہے جسے اس جنگ کے بارے معلوم بھی نہیں تھا۔
آپ الطاف حسین کی مثال لے لیں۔ پاکستان کی تاریخ کا وہ منفرد ترین آدمی جو خود اور اس کی جماعت کئی بار غدار وطن اور کئی بار محب وطن قرار پائی۔ ایم کیو ایم کی مثال تو پروپیگنڈے کی ایک عمدہ ترین مثال ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ اس ملک کے خواص و عام اتنے کج فہم ہیں کہ ایک ہی بندے کو کبھی پروپیگنڈا کی زد میں آکر غدار اور ایجنٹ کہہ دیتے ہیں پھر پروپیگنڈا کی زد میں آکر اسی غدار کے ملک کے “محب الوطن ترین” اداروں سے عشق کو بھی جائز سمجھ لیتے ہیں۔
آج گنتی کے چند سر پھرے ہی یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ الطاف حسین کی “ملک دشمن تقریر” اور عمران نیازی و خادم حسین رضوی کی تقریروں میں فرق کیا ہے؟ مگر ان چند کے علاوہ کل پاکستان کے لیے الطاف حسین غدار وطن اور انڈین ایجنٹ ہے جبکہ خاں صاحب وزیراعظم اور خادم رضوی صاحب مجاہد اسلام اور عاشق رسول قرار پاتے ہیں۔ وجہ؟ پروپیگنڈا۔
آپ مشرف کی مثال لے لیں، وہ ڈکٹیٹر تھا، 8 سال بلا شرکت غیرے پاکستان کا مختار کل رہا۔ دنیا بھر کی آنکھ کا تارا۔ دنیا کا دوسرا طاقتور ترین آدمی سمجھا جانے والا۔ جنرل مشرف ایک عام انسان کی طرح اچھائیوں/برائیوں اور صحیح و غلط کا مجموعہ تھا مگر جب بدقسمتی نے آن گھیرا تو اپنے ہی “آذاد میڈیا” کے ہتھے چڑھا اور آج مشرف کا نام پاکستانی سیاست و صحافت میں ایک گالی کے طور پر لیا جاتا ہے۔
اس کے اپنے ادارے کے لوگ جس قابلِ نفریں انداز میں اس کا ذکر کرتے ہیں وہ عبرت ناک ہے۔ مشرف درست تھا یا غلط اس کے بارے میں کچھ فیصلے تاریخ کر چکی اور بہت سے فیصلے ابھی باقی ہیں مگر پروپیگنڈا کا وار ایسا ہے کہ آج اس کمانڈو کو باعزت وطن واپسی کے لیے دو درجن افراد بھی مہیا نہیں جو اس کا استقبال کر سکیں۔
آپ جنرل کیانی کی مثال لے لیں۔ اب اس سے زیادہ میں کیا کہوں کہ اس کی دور ملازمت میں جو ہارون رشید صاحب اس “مرد مجاہد فلاسفر جرنیل” کے سگار سے نکلے دھویں کے مرغولوں میں پاکستان کے مستقبل کے نقشے تلاشتے تھے آج وہی ہارون رشید اسے بزدل، نالائق، کم فہم، کرپٹ اور نجانے کیا کیا پکارتے ہیں۔ کیانی صاحب کا تعارف سابقہ آرمی چیف نہیں بلکہ ان کے بھائیوں کی مبینہ کرپشن ہے جو کسی عدالت سے ثابت تو نہیں ہوئی مگر پروپیگنڈا ایسا شدید ہے کہ آج کا سچ یہی ہے۔
آپ زرداری کی مثال لے لیں، 11 سال قید ایسے الزامات میں کاٹ لی جن کی اصل سزا بھی اس سے کم ہے، نیب سے “باعزت بری” ہو گئے مگر آج بھی پاکستان کے کرپٹ ترین انسان اور مسٹر 10 فیصد مشہور ہیں اور کوئی بندہ یہ تصور بھی نہیں کرنا چاہتا کہ عین ممکن ہے کہ یہ بے قصور ہی ہوں۔
آپ ڈاکٹر عاصم کی مثال لے لیں، آپ فواد حسن فواد کی بات کرلیں۔ کسی دانشوڑ کے بھوسے میں یہ بات نہیں گھسی کہ دونوں پر لگنے والے الزامات میں کرپشن کی مالیت اس سے بھی کئی سو گنا زیادہ ہے جتنی رقم کہ وہ کبھی مختار رہے۔ کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ 462 ارب روپے کی کرپشن کے الزامات اور دہشتگردوں کے علاج جیسے سنگین الزامات کے بعد ڈاکٹر عاصم پر صرف 17 لاکھ روپے کا ریفرنس کیوں بنایا ہے یا اگر واقعی فواد حسن فواد نے 1800 ارب روپے کی کرپشن کی ہے تو اس کے بنک اکاؤنٹس سے دیامیر بھاشا ڈیم کیوں نہیں بنا لیا جاتا۔ مگر بس جی۔۔۔پروپیگنڈا ہے اس لیے سوال جواب کچھ نہیں۔ بس وہ کرپٹ ہیں تو ہیں۔
افتخار چوہدری اچھی اور بری دونوں خصوصیات رکھتا ہوگا۔ مگر آج کے پروپیگنڈا میں اس کے سر برائی کے تاج کے علاوہ اور کیا سجتا ہے؟ اگر آپ کو افتخار چوہدری کی مثال بھول چکی تو صرف چند مہینے انتظار کیجئے کہ ایک اور افتخار چوہدری ریٹائر ہونے والا ہے جس کا امتیاز یہ ہے کہ افتخار چوہدری کے برعکس یہ اپنے دورِ ملازمت میں ہی اتنا متنازع ہو چکا ہے کہ بعد کے حالات کا سوچ کر بھی ہول اٹھتے ہیں۔
نواز شریف تو تازہ ترین مثال ہے پروپیگنڈا کی طاقت کی۔ ایک انتہائی مقبول عوامی رہنما، 2013 میں بھاری اکثریت سے وزیراعظم بننے والا۔ اگرچہ اس کو گرانے کے لیے تیس تیس میڈیا چینلز کو خلائی مخلوق کے تعاون سے 4 سال تک محنت کرنا پڑی مگر آج کی تاریخ میں، کوئی یہ سوال سوچنےکو بھی کوئی تیار نہیں کہ 2 سال کی محنت کے بعد بھی اگر کوئی کرپشن کا الزام تک نہیں لگایا جا سکا تو پھر چور چور کی کھپ کیا ہے؟ کوئی نہیں سوچتا کہ اگر مشہور زمانہ “والیم 10” میں کوئی ایٹم بم چھپے ہوئے ہیں تو وہ نواز شریف پر چلا کیوں نہیں دیے جاتے؟ کوئی یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ اگر قطری خط ایک افسانہ ہے تو یہ کتنا مشکل تھا کہ اس افسانے کو قانون کے دائرے میں لا کر افسانہ ثابت کر دیا جاتا اور متعلقین کو سزا سنا دی جاتی۔ مگر نہیں۔ چونکہ آج کا پروپیگنڈا فیشن یہ ہے کہ نواز شریف کرپٹ ہے تو چاہے کرپشن کا الزام نا بھی ہو، تو بھی ہم اسے کرپٹ ہی مانیں گے۔
ارے بات بات میں ہم علامہ نیوٹن کے عمل ردعمل والا قانون چولہے سے اتار کر بھول گئے۔ تو چند ایک گذارشات ہیں۔ آپ سے نہیں بلکہ “ان” سے جن کو “عمل” کا بہت شوق ہے مگر “ردعمل” کا ادراک نہیں۔
کیا آپ کو احساس ہے کہ پاکستان کے ہر معاملے، ہر ادارے، ہر قضیے، ہر مسئلے میں ٹانگ پھنسا کر آپ کہاں پہنچ چکے ہیں؟ پاکستان کی ایک کے علاوہ باقی ہر سیاسی جماعت اور ان کے پیروکار آپ کے کرتوتوں سے نالاں ہیں۔ جوڈیشری میں انگلی پر گنے جانے لائق لوگوں کے علاوہ ہر کوئی آپ کی در اندازی سے خائف ہے، پاکستان کے دو نازک ترین صوبوں میں آپ کے کھلائے گل، اور ان گلوں کے بیج اتنے پھیل چکے کہ اب آپ کے سائیڈ کی سٹوری کوئی سننے کو تیار نہیں۔ سڑکوں پر آپ کے نام لے کر غدار، دہشتگرد اور قاتل کے نعرے لگ رہے ہیں اور مجبوری یہ کہ آپ ایک بندہ تو اٹھا کر غائب کر سکتے ہیں مگر ایک پوری قوم اٹھا کر غائب کر دینا آپ کے بس سے باہر ہے۔ میڈیا میں آپ کے دفاع میں صابر، بھٹی، سمیع، دانش، شاہد، مبشر و ہمنوا جیسے نابغے ہی رہ گئے ہیں جبکہ پاکستان کا تمام سنجیدہ اور جینوئن صحافتی طبقہ کھل کر آپ کی دراندازیوں کو کبھی ایک طریقے کبھی دوسرے طریقے سے بے نقاب کر رہا ہے۔ حد تو یہ کہ پاکستان جیسے ملک جہاں ملا اور ملٹری اتحاد ایسے قائم ہوتا تھا جیسے جڑواں بچوں کا پیار مگر اب اسی مذہبی طبقے کا ایک بڑا حصہ آپ سے اس حد تک ناراض ہے کہ ابھی پچھلے دونوں تو آپ کے خلاف وہ فتوے جاری ہوگئے جن کو میں دہرا بھی نہیں سکتا۔
سچ کیا ہے؟
سچ یہ ہے کہ اگر آپ سو فیصد درست نہیں تو سو فیصد غلط بھی نہیں۔
سچ یہ ہے کہ آپ نے بے شک غلطیاں کی ہیں اور کر رہے ہیں مگر آپ کے پاس اس کے کچھ غلط یا درست جواز بھی ہوں گے جن پر بحث ہو سکتی ہے۔
سچ یہ ہے کہ چاہے آپ فرشتے نہیں لیکن آپ کو ابلیس بھی نہیں کہا جاسکتا۔
سچ یہ ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ آپ ماضی کی چند غلطیوں کی صدق دل اور صاف نیت سے تصحیح کرنے کی کوشش کر رہے ہوں مگر آپ کا محدود ویثزن اور اصل صورتحال کا ادراک اتنا کمزور ہے کہ آپ نیک نیتی کے باوجود معاملات کے بگاڑ کا باعث بن رہے ہیں جس پر آپ کو نالائق تو کہا جاسکتا ہے مگر قاتل، غاصب، دہشتگرد اور بدمعاش کہنا آپ کے ساتھ صریح زیادتی ہے۔
مگر حضور، سچ یہ بھی ہے کہ اس وقت بیشتر عوام اس پورے سچ کو سننے کو تیار نہیں۔ پروپیگنڈا کا وہ ہتھیار جو آپ نے اپنے مفادات کے مخالفین کے لیے بے رحمی سے استعمال کیا، آج وہی ہتھیار آپ پر ٹوٹ پڑا ہے۔ آپ زبردستی کریں گے تو ردعمل مذید ابھرے گا۔ آپ خاموش رہیں گے تو شبہات کو تقویت ملے گی، آپ وضاحت دیں گے تو کمزور تصور کیے جائیں گے۔ حضور! آپ پھنس چکے ہیں۔ وہ قوم جو آپ کی جیپوں کی راہ میں پلکیں بچھاتی تھی وہ اب سڑکوں پر نعرے لگا رہی ہے۔ کھلے اور ڈھکے احتجاج چل رہے ہیں۔ کل سرگوشیوں میں بات تھی، آج محفلوں میں ہو رہی ہے اور کل جلسہ عام میں ہوا کرے گی۔ یہ آپ کے ہی عمل کا ردعمل ہے، اسے آپ “ففتھ جنریشن وار” کی کہانی بنا کر چند بیوقوفوں کو مذید بیوقوف بنا سکتے ہیں مگر باقی یہ کہانی خریدنے کو تیار نہیں۔ اس کا حل موجود ہے۔ اور حل یہ ہے کہ گیند کو دیوار پر مارنا چھوڑ دیں۔ اب بھی وقت ہے، رک جائیں۔ ورنہ علامہ نیوٹن کے مطابق “ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے، جو مقدار میں برابر اور سمت میں مخالف ہوتا ہے۔”