برطانوی شاہی بہو کی پاکستان آمد پر پاکستانی خواتین کی شامت

 مہناز اختر 

جیسے ہی برطانوی شاہی جوڑے نے پاکستان کو خداحافظ کہا میں نے سوچا کہ ذہن میں شور مچاتے اس مضمون کو مکمل کرلیا جاۓ۔ عام مشاہدے کی بات ہے کہ پاکستان میں گفتگو کا موضوع چاہے جو بھی ہو بات سیاست اور مذہب تک ضرور پہنچتی ہے اور مذہب پر پہنچے تو ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی  “بے حیائی” کا تذکرہ نہ ہو اور لفظ بے حیائی کے ساتھ تصورِانسان بلکہ یوں کہیے کہ تصورِمرداں میں عورت نہ ابھرے ایسا ممکن نہیں۔ دیکھا جارہا ہے کہ حیا اور بے حیائی کا تعلق صرف خواتین کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ حیا کی بات کی جاۓ تو حیا سے جڑا اہم موضوع لباس ہے۔ انسان شکم مادر سے دنیا میں ننگا ہی  تشریف لاتا ہے لیکن نام نہاد مذہبی پولیسیوں نے آج کل بُرقَع یا حجاب نہ پہننے والی خواتین کو بھی “ننگی عورت” سمجھنا شروع کردیا ہے۔ قصائی کی دکان پر رکھے تازہ اور کھلے گوشت کی مانند عورت جس پر مکھیاں بھنبھنا رہیں ہوں۔  

عجیب سی بات ہے کہ پاکستان میں جب بھی خواتین جبری حجاب یا برقعے کی مخالفت کرتی ہیں تو ان سے سوال کیا جاتا ہے  “کیا آپ ننگی ہونا چاہتی ہیں؟” یعنی کہ ایک بُرقَع زن خاتون اور ایک برہنہ خاتون کے علاوہ پاکستانی مردوں کے ذہن میں خواتین کا دوسرا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ یوں تو قمیض و شلوار بمع چادریا ڈوپٹہ پاکستانی خواتین کا مقبول عام لباس ہے جسے وہ اپنی اپنی معاشرتی اور خاندانی حدود کے مطابق متنوع بناتی رہتی ہیں لیکن ہمارے معاشرے کے بہت سے مرد اس مناسب ترین لباس میں ملبوس  “عورت” کو بھی بے حیا اور بے پردہ تصور کرتے ہیں۔ اس کی ایک نمایاں مثال چند ہفتوں پہلے دیکھنے میں آئی جب خیبرپختونخواہ میں اسکول کی طالبات کے لیۓ بُرقَع لازمی قرار دینے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ انہیں جنسی ہراسانی سے محفوظ رکھا جاسکے۔ بعد ازاں پاکستانی سول سوسائٹی کی جانب سے بھرپور ردعمل اور منطقی ردِ دلیل آنے کے بعد اس فیصلے کو واپس لے لیا گیا۔ اسی دوران شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار والی مثال بھی دیکھنے کو ملی اور خیبرپختونخواہ کی تحصیل رستم کے  PTI کے ڈسٹرکٹ ممبر مظفر شاہ نے گورنمنٹ گرلزمڈل اسکول چینہ میں خاکی رنگ کے افغان برقعے تقسیم کروادئیے۔ 

سیاست میں  دائیں بازو اور بائیں بازو کی تقسیم کے باوجود عوام کی اکثریت یا نمایاں اکثریت اعتدال پسند افراد یا سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ابتداً یہی سمجھا گیا تھا کہ PTI ایک اعتدال پسند centerist جماعت ہے۔ اس جماعت میں معتدل جدت پسند، روایت پسند، لبرل، سیکولر اور مذہبی افراد موجود ہیں پر وقت نے ثابت کیا کہ PTI نے سیاسی اصطلاح سینٹرسٹ کو منافقت اور یوٹرن سے تبدیل کردیا ہے۔ نظریہ ضرورت کے تحت یہ جماعت پکی مذہبی جماعت بن جاتی ہے اور کبھی مکمل لبرل اور سیکولر، یہی حال اس جماعت کے حامیوں کا بھی ہے۔ جب عمران خان نے ریحام خان سے شادی کی تو یہ جماعت ایک جدید ترقی پسند پارٹی تھی اور ریحام خان کو آئیڈیل پاکستانی خاتون اول کے طور پر پیش کرتی تھی لیکن جیسے ہی عمران خان نے ریحام خان کو طلاق دے کر بشریٰ بی بی سے بیاہ رچایا  تو انتہا پسند مذہبی افراد کے ساتھ ساتھ PTI والوں نے بھی بشریٰ بی بی کو آئیڈیل پاکستانی خاتون کا خطاب دے کر پاکستان میں “آئیڈیل عورت” کی تعریف کو بدل ڈالا۔ 

برطانوی شاہی بہو کیٹ مڈلٹن نے پاکستان آکر قمیض شلوار کیا پہنی اور ڈوپٹہ کیا اوڑھ لیا بس سمجھیں کہ پاکستانی خواتین کی شامت ہی آگئی “لبرل آنٹی” اور  “میراجسم میری مرضی والی” کہہ کہہ کر اردو لغت کی کوئی ایسی غلیظ گالی باقی نہ رکھی گئی جو جدت پسند تعلیم یافتہ خواتین کو نہ دی گئی ہو۔ میرے خیال میں اعتدال پسند پاکستانی خواتین کو کیٹ مڈلٹن کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے ریاست مدینہ اور خاتون اول بشریٰ عمران خان کے احترام میں بُرقَع یا نقاب کو عزت نہیں بخشی ورنہ صرف قمیض شلوار اور ڈوپٹہ پہن کر باہر نکلنے والی خواتین کو سرکاری سطح پر “ننگی” قرار دے دیا جاتا۔ ویسے کیا آپ کو تعجب نہیں ہوا کہ میڈیا میں خاتون اول اور برطانوی شاہی جوڑے کی کسی ملاقات کا کوئی ذکر نہیں ہوا اور ملاقات ہوئی بھی یا نہیں واللہ اعلم۔ 

فیمن ازم صنفی مساوات پر مبنی ایک سماجی نظریہ ہے  مگر پاکستان میں لفظ feminism کو گالی بنادیا گیا ہے۔ یہ بالکل ضروری نہیں ہے کہ ہر جدت پسند ذہن رکھنے والی خاتون نظریاتی طور پر فیمنسٹ ہو لیکن ہر ترقی پسند تعلیم یافتہ خاتون جو جبری برقعے کی مخالفت کرے  یا پسند کی شادی، تعلیم اور روزگار کا حق مانگتی نظر آۓ یا جینز پہننے کو برا نہ سمجھتی ہو اسے فیمنسٹ کہہ کر گالی دی جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستانی خواتین کی بے عزتی کرنے میں انتہاپسند مذہبی طبقے کے ساتھ  PTI کے حامی اور کارکنان بھی پیش پیش رہے۔ پدرشاہی منافقت کی اس سے گھٹیا مثال اور کیا ہوگی کہ ایک طرف تو کیٹ مڈلٹن کو آئیڈیل قرار دے کر پاکستانی خواتین کو گالیاں دی گئیں اور دوسری طرف کپتان بزرگوار کو نیا نویلا بانکا چھورا بنا کر  کیٹ جیسی پروقار شادی شدہ خاتون کی طرف گھٹیا مذاق بھی منسوب کیۓ گئے۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی تھی کہ برطانوی شاہی بہو کے پروقار پاکستانی لباس کی تعریف میں جہاں پاکستانیوں نے زمین آسمان ایک کردئیے وہیں ان ملبوسات کی پاکستانی ڈیزائنر ماہین خان کو تعریف کا سہرا پہنانا بھول گئے۔  اچھا ہی ہوا کہ ماہین خان منظر عام پر نہیں آئیں ورنہ کچھ خاص الخاص گالیاں انہیں بھی پڑجاتیں ان کے مردانہ انداز کے چھوٹے بالوں کی وجہ سے۔ 

گزشتہ کئی سالوں سے دنیا بھر میں ماہ اکتوبر کو چھاتی کے سرطان سے آگاہی کے مہینے کے طور پر مخصوص کردیا گیا ہے۔ اسی حوالے گزشتہ برس میں نے اپنے مضمون   “عورت ہونا آسان نہیں ہے” میں لکھا تھا “دنیا میں دو قسم کے مرد موجود ہیں, روایت پسند اور آزاد خیال جدیدیت پسند انہی دو اقسام کے مردوں پر مشتمل پدرانہ پاکستانی معاشرہ خواتین کے لیے چکی بن چکا ہے, جس کے پاٹوں سے فرار ناممکن ہے”  یہ بیانیہ عملی شکل میں 13 اکتوبر کے روز میرے سامنے آیا۔ اس روز پاکستان میں لبرل کہلانے والے اکثر مردوں نے No Bra Day بڑی عقیدت کے ساتھ منایا اور سوشل میڈیا پر “برا” اتارکر پھینکنے والی برہنہ خاتون کی تصاویر بڑے چاہ سے شیئر کیں۔ مجھے اور مجھ جیسی کتنی ہی پاکستانی خواتین کو لبرل مردوں کا یہ عمل اتنا ہی شرمناک محسوس ہوا جتنا کہ جبری حجاب کی مخالفت کرنے پر کوئی  مذہبی انتہا پسند آپ سے کہتا ہے “کیا آپ سڑکوں پر ننگی گھومنا چاہتی ہیں!” نو برا ڈے ابتدا میں ایک آگاہی مہم تھی جسکا مقصد خواتین کو غیرمعیاری Bra کے استعمال کے حوالے سے آگاہی دینا تھا کہ یہ غیرمعیاری Bra چھاتی کے سرطان کا ایک سبب ہوسکتے ہیں۔ اب مغرب میں بھی اس دن کے حوالے سے سول سوسائٹی اپنے تحفظات کا اظہار کررہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ دن خواتین کی صحت سے متعلق تھا لیکن اس دن شوبز کی اکثر خواتین  جنسی اشتہا سے بھرپور عریاں اور نیم عریاں تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرتی ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو بریسٹ کینسر سے متعلق آگہی کے بجاۓ جنسی اشتہا انگیزی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نو برا ڈے منانے کا مقصد خواتین کو بے لباسی کی ترغیب دینا نہیں ہے بلکہ قدرتی رہن سہن اپنانے کی ترغیب دینا ہے۔ 

رواں ماہ پاکستان میں جاری بریسٹ کینسرآگاہی مہم اور برطانوی شاہی بہو کی آمد کی وجہ سے پاکستان کے روایت پسند اور لبرل مردوں کی خواتین کے حوالے سے ایک مخصوص سوچ واضح ہوکر سامنے آئی کہ ان دونوں نظریات کے حامل مردوں کے مطابق آزاد عورت کا مطلب بے لباس عورت ہے۔ یہ مرد ہی طے کرنا چاہتے ہیں کہ خواتین کو کیسا لباس پہننا چاہیے۔ اس معاملے میں خواتین کی راۓ ان کے سامنے ثانوی درجہ رکھتی ہے۔ جہاں کیٹ کی آمد سے ہم نے یہ سبق سیکھا کہ پاکستانی لباس کو عزت کیسے دی جاتی ہے وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ اس  “مقدس” معاشرے میں خواتین کو غلیظ گالیاں دینا بھی باعثِ ثواب سمجھا جانے لگا ہے۔