بلوچ مسنگ پرسنز کا معاملہ، حکومتی سنجیدگی اور بلوچستان کا مستقبل

 عابدحسین

مملکت خداد میں لاپتہ افراد، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے مسائل بہت پرانے ہیں۔ جبری گمشدگیوں، حبس بے جا، ماورائے عدالت قتل، گرفتاریوں اور اغواء کاری کا نشانہ بننے والوں میں بلوچ سب سے زیادہ ہیں۔ جب کہ پختون، ہزارہ، سندھی اور گلگت بلتستان کے باسی بھی اس ظلم کا شکار ہوئے ہیں۔ ضیاء آمریت سے لے کر مشرف آمریت تک مختلف ادوار میں غیر معمولی واقعات سامنے آئے لیکن جنرل پرویز مشرف کے دور میں بلوچستان میں نواب اکبر خان بگٹی کے قتل اور بلوچستان کے وسائل پر قابض ہونے کے بعد سے بلوچستان میں قتل و غارت کا شروع ہونے والا سلسلہ آج تک جاری ہے۔

نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد بگٹی اور مری قبائل کے رہنماؤں کو یا تو مار دیا گیا یا وہ ملک بدر ہوئے یا قتل کیئے جانے کے ڈر سے ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ اکبر بگٹی مرحوم کے بیٹوں اور نواسوں سمیت مری قبائل کے سرداروں نے جلا وطنی اختیار کی اور ریاست پاکستان سے آزاد بلوچستان کا مطالبہ کیا جو کہ تاحال قائم ہے۔  تب سے ہی بلوچستان میں آزاد بلوچستان تحریک، بلوچ لبریشن آرمی، بلوچ لبریشن فرنٹ، بلوچ لبریشن موومنٹ جیسی تنظیموں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان تصادم کی شروعات ہوئی۔ آخر ان حالات نے کیوں جنم لیا؟ اس کا جواب بہت سادہ ہے۔ آمروں نے بلوچستان کے قدرتی وسائل پر قبضہ کیا، بلوچوں کو ان کے وسائل میں حصہ دینے سے محروم رکھا، بلوچ سرداروں کو طاقت سے رام کیا گیا۔ نواب اکبر بگٹی اور مری قبیلے کے سرداروں پر ملک دشمنی اور دہشت گردی کا ٹھپہ لگا کر قتل کیا گیا۔ پھر جو بچ گئے انہوں نے ملک چھوڑ کر آزاد بلوچستان کے لیئے جدوجہد شروع کی۔

جب کہ دوسری جانب ریاست کی جانب سے ان کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا نہ ہی بلوچوں کو اپنا سمجھا گیا۔ بلکہ الٹا انہی کے وسائل کو لوٹا گیا۔ بلوچستان کی قدرتی گیس، سونے اور کوئلے پر ہاتھ صاف کیا گیا پر بلوچستان کے لوگوں کو اس میں کوئی حصہ نہیں ملا۔ قدرتی گیس بلوچستان سے نکلتا ہے اور سارے پاکستان کو مہیا کیا جاتا ہے لیکن کوئٹہ شہر اور سرکاری املاک کے علاوہ بلوچوں کو گیس مہیا نہیں ہے, ایک آدمی کے گھر کے سامنے سے گیس پائپ گزرتا ہے لیکن وہ اس سے مستفید نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح بلوچستان سے اربوں روپے کا کوئلہ نکالا جاتا ہے لیکن عام بلوچوں کو اس سے کوئی فائدہ نہیں۔ ریکوڈیک کو ہر دور میں ریاستی بڑوں نے اپنے پیٹ بھرنے کے لیئے استعمال کیا لیکن بلوچستان کے باسیوں کو نظرانداز کیا گیا۔ بلوچستان کے ساتھ قیام پاکستان سے لے کر اب تک پرایوں جیسا سلوک جاری ہے۔ نہ کوئی مربوط نظام صحت، نہ ہی تعلیم پر کوئی خاص توجہ، پینے کے صاف پانی سے لے کر بجلی اور گیس تک کا نظام تباہ حال ہے۔ کاروبار کے کوئی مواقع نہیں، تعلیم کی کمی کی وجہ سے ملازمت ندارد۔

بلوچستان کے لوگ آج بھی پتھر کے زمانے میں رہ رہے ہیں۔ جبکہ بلوچستان کے بعض غلام سرداروں اور سیاستدانوں نے بھی آج تک صرف بلوچستان کے نام پر سیاست کرکے، ووٹ لے کر اپنے اقتدار کو دوام بخشا  نا کہ عوام کی خوش حالی کو۔ یہ کرسی کی خاطر آمروں کی جھولیوں میں گرتے اور فروخت ہوتے آئے ہی۔ یہ وہ محرومیاں، ریاستی جبر اور رویہ ہے کہ جس کی وجہ سے بلوچستان آہستہ آہستہ ہمارے ہاتھوں سے جارہا ہے۔ ظاہر ہے جب آپ کسی کو اپنا نہیں مانیں گے، ان کے بڑوں بزرگوں کو قتل کریں گے، ان کے وسائل کو لوٹ کر ان کو کوئی حصہ نہیں دیں گے، ان کی قیمتی زمینوں پر قابض ہونگے، ان کے وسائل پر قابض ہونگے، جب بلوچوں کو گھروں سے زبردستی اٹھایا جائے اور پھر تشدد زدہ لاشیں سڑکوں پر ملیں۔ جب جبری گمشدگیوں،  ماورائے عدالت قتل کے خلاف آواز اٹھانے والوں اور اپنے آئینی اور قانونی حقوق مانگنے والوں کو غدار اور دہشت گرد قرار دیں گے تب ایسا محروم طبقہ، ایسی قوم،  ایسے لوگ نہ تو کبھی آپ کے ملک اور ریاست کو زندہ باد کہیں گے اور نہ ہی آپ کے ساتھ رہنا چاہیں گے۔ پھر آپ کا دشمن ان کا دوست بھی ہوگا اور انہیں سپورٹ بھی کرے گا۔ پھر آپ پر حملے بھی ہوں گے آزادی کی تحریک بھی چلے گی۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں گزشتہ پانچ روز سے بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاج جاری ہے۔ مظاہرین جو بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے اسلام آباد آئے ہیں اور نیشنل پریس کلب کے سامنے اپنا احتجاجی کیمپ لگایا ہوا ہے۔ اپنے پیاروں کے بازیابی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کا مطالبہ ہے کہ ان کے جن رشتہ داروں، باپ، بھائی، بیٹوں، شوہر کو سیکیورٹی فورسز نے اٹھایا ہے ان کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ اگر وہ کسی جرم میں ملوث ہیں تو ان کے خلاف عدالت میں ثبوت پیش کرکے قرار واقعی سزا دلوائی جائے لیکن جو افراد بے گناہ ہے ان کو رہا کیا جائے۔ بلوچ مظاہرین میں زیادہ تعداد میں عورتیں اور بچے شامل ہیں جن کے والد، باپ، بیٹا یا شوہر لاپتہ ہیں۔ ایک بلوچ ماں کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے ان کے بیٹے کو گھر سے اٹھایا تھا لیکن دو سال سے اس کے زندہ یا مردہ ہونے کی کوئی خبر نہیں۔ وہ ماں روتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ اگر اس کے بیٹے کو مار دیا گیا ہے تو بھی بتایا جائے تاکہ وہ اس کا مزید انتظار نہ کریں۔ اسی طرح ایک معصوم بچی نے ہاتھ میں اپنے والد کی تصویر اٹھائے مطالبہ کررہی تھی کہ اس کے والد کو رہا کیا جائے۔ حسیبہ قمبرانی جو کہ بلوچ لاپتہ افراد کے حوالے سے کافی فعال ہیں اور سوشل میڈیا پر ان کو جانا اور پہچانا جاتا ہے، ان کے دو بھائی جو کہ پیشے کے لحاظ سے درس و تدریس سے منسلک تھے گزشتہ کئی سالوں سے لاپتہ ہیں۔ سیکیورٹی فورسز نے انہیں اپنے گھر سے اٹھایا تھا لیکن حسیبہ قمبرانی کے مطابق ابھی تک ان کے زندہ یا مردہ ہونے کی کوئی اطلاع نہیں اور نہ ہی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے انہیں اپنے بھائیوں سے ملنے کی اجازت دی جارہی ہے اور نہ ہی ان کے حال کے متعلق کوئی خبر دی جارہی ہے۔

حسیبہ قمبرانی کے مطابق وہ حکومت، عدالت اور سیکیورٹی فورسز سے بھیک مانگتی ہیں کہ انہیں ان کے بھائیوں کے بارے میں بتایا جائے۔ حسیبہ قمبرانی کی طرح کئی بلوچ مائیں، بہنیں ، بیویاں اور بیٹیاں کئی سالوں سے اپنوں کی راہ تک رہی ہیں لیکن ان کے زخم پر کوئی مرہم رکھنے کےلیئے تیار نہیں۔ پاکستان کے موجودہ حکمرانوں اور ریاست مدینہ کے دعویداروں کی وفاقی پولیس نے پچھلے دنوں بلوچ مظاہرین کے خیموں کو اکھاڑ دیا۔ خواتین اور بچوں کو زبردستی احتجاجی کیمپ ختم کرنے اور وہاں سے اٹھانے کی کوشش کی۔ بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کھلے آسمان تلے دھرنے پر بیٹھے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ان کا احتجاج تب تک جاری رہے گا، جب تک کوئی حکومتی نمائندہ ان کے پاس آکر ان کے مطالبات حل کرنے کی یقین دہانی نہیں کرتا لیکن حکومت اور حکومتی نمائندوں، وزیر اعظم اور وفاقی وزراء کے پاس ان کے لیئے نہ وقت ہے اور نہ ان کی نظر میں ان بے چاروں کی کوئی وقعت ہے۔

اس ماہ  پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماء اور ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ ایڈوکیٹ نے بلوچ مسنگ پرسنز کے دھرنے میں شرکت کی اور حکومت سے ان کے مطالبات ماننے کا مطالبہ کیا۔ مزید یہ کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے، گرفتار کیئے گئے بلوچوں کو ان کے حقوق دینے کے مطالبات بھی پیش کیئے۔ اسی طرح پشتون تحفظ موومنٹ کے بانی رہنماء منظور احمد پشتین نے بھی بلوچ مسنگ پرسنز کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کے طور پر ان کے احتجاجی دھرنے میں شرکت کی، لیکن حکومت کی جانب سے کوئی دلچسپی  نہیں دکھائی گئی۔ گزشتہ ماہ کی بات ہے کہ جب بلوچ اسٹوڈنٹ لیڈر کریمہ بلوچ جو کہ گزشتہ پانچ سال سے کینیڈا میں مقیم تھیں۔ پراسرار طور پر ایک جھیل میں مردہ پائی گئیں۔ جب ان کی نعش ان کے آبائی علاقے تپ، بلوچستان لائی گئی تو سیکیورٹی فورسز کی جانب سے علاقے میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔ مرد حضرات کو کریمہ بلوچ کے جنازے میں شرکت کرنے سے روکا گیا۔

حکومتی نمائندوں کے مطابق کریمہ بلوچ پاکستان کی غدار تھیں پر کریمہ بلوچ تو بلوچستان کی بیٹی تھیں۔ بلوچستان کی دردمند عوام کے دلوں کی دھڑکن تھیں۔ بلوچ عوام کی محرومیوں اور ان سے روا رکھے گئے مظالم کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار تھیں۔ پر ریاست پاکستان کے حکمرانوں نے مرنے کے بعد ان کی نعش کو بھی اغواء کرنے کی کوشش کی۔ تو کیا اس ریاستی رویے کے بعد بھی بلوچ عوام سے یہ توقع رکھی جائے گا کہ وہ اس ریاست سے مخلص ہوں گے۔ جب کہ کریمہ بلوچ کے بھائی سمیربلوچ اور دوست  لطیف جوہر بلوچ نے شک ظاہر کیا ہے کہ کریمہ بلوچ کو بھی پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے بلکل اسی طرح قتل کیا ہے جس طرح سویڈن میں مقیم بلوچ صحافی اور ایکٹیویسٹ ساجد حسین کو قتل کیا گیا تھا۔

دوسری جانب پشتون تحفظ موومنٹ بھی پختونخواہ سمیت پورے ملک میں جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، اغواء کاری، حبس بےجا اور بنیادی انسانی حقوق کے لیئے جدوجہد کررہی ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ مسنگ پرسنز کو بازیاب کرایا جائے، اگر کسی کو قتل کیا گیا ہے تو ہمیں بتایا جائے، اگر کوئی فرد کسی جرم میں ملوث ہے تو عدالت میں پیش کریں اور جرم ثابت ہونے پر سزا دی جائے لیکن جو بے گناہ ہیں ان کو رہا کیا جائے۔ قبائلی اضلاع میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو ختم کیا جائے۔ لیکن یہاں بھی ”الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“ کے مصداق پی ٹی ایم کے زیر سایہ اپنے آئینی اور قانونی حقوق مانگنے والوں کے خلاف غداری کے مقدمات درج کیئے جارہے ہیں۔ انہیں جیلوں میں بند کیا جارہا ہے۔ انہیں احتجاج سے روکا جاتا ہے اور ان پر غداری اور ملک دشمنی کے ٹھپے لگائے جاتے ہیں۔ کراچی میں انسداد دہشت گردی عدالت نے پی ٹی ایم رہنماؤں منظور پشتین اور محسن دواڑ کے قومی شناختی کارڈز بلاک کرنے کا حکم دیا کہ ان کے خلاف انتشار پھیلانے اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی ایف آئی آر درج ہیں۔ جب کہ پی ٹی ایم رہنماء علی وزیر سمیت کئی کارکنان اب بھی جیلوں میں بند ہیں۔

تین جنوری کو دہشت گردوں نے گیارہ بے گناہ ہزارہ افراد کو قتل کیا تو ہزارہ برادری نے سڑک پر لاشیں رکھ کر انصاف کا مطالبہ کیا اور مطالبہ بھی کیا کہ جب تک وزیر اعظم ان سے ملنے نہیں آئیں گے تب تک وہ مردوں کو دفن نہیں کریں گے۔ پر حکومت، حکومتی نمائندوں اور وزیر اعظم کی جانب سے لیت و لیل سے کام لیا گیا اور حتی الوسع کوشش کی گئی کہ وزیر اعظم کوئٹہ نہ جائے لیکن جب احتجاج طویل ہوا اور ہر طرف سے لعن طعن کی گئی تو پھر بوجہ مجبوری وزیر اعظم ہزارہ برادری سے ملنے گئے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سی پیک منصوبے کی تکمیل سے بلوچستان کی محرومیاں ختم ہوجائیں گی جو کہ تب تک ناممکن ہے کہ جب تک بلوچستان کی عوام پر روا رکھے گئے مظالم کا ازالہ کیا جائے، ان سے معافی مانگی جائے، ماورائے عدالت قتل میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دلوائی جائے، مسنگ پرسنز کے معاملے کو حل کیا جائے، بلوچ عوام کو ان کے وسائل پر حق دیا جائے اور ان کو پورا پورا حصہ دیا جائے، بلوچوں کے مسائل کو پوری طرح حل کرنے کی سعی کی جائے اور ناراض بلوچ سرداروں کو منایا جائے۔

حکمرانوں کے ڈر سے پشتون تحفظ موومنٹ کی طرح بلوچوں کے مسائل اور احتجاج کو بھی کوئی میڈیا کوریج نہیں دی جارہی ہے۔ الٹا انہی کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ اگر اسی رویے کو ہی روا رکھا جاتا رہا تو یقین جانیے کہ گوادر کے کرکٹ گراونڈ، گوادر مرین کالونی، چینیوں کے لیئے بنائی گئی کالونیاں، فوجی افسران کے لیئے بنائے گئے   محلات اور خاردار تاروں میں گھرے ہوئے گوادر پورٹ یا بلوچستان سے گزرنے والے سی پیک روٹ سے نہ ہی کوئی تبدیلی آنے والی ہے، نہ ہی امن اور نہ ترقی۔