بندر، انسان اور ڈارون
عاطف توقیر
یہ دیکھ کر نہایت دکھ ہوتا ہے کہ ہمارے دیس کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو ایک فرضی کہانی سمجھتی ہے، جب کہ یہ نظریہ کوئی ساٹھ سال پہلے ڈی این اے کی دریافت کے بعد سائنسی حقائق کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔ اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟
ڈارون کا تعلق ایک مسیحی مذہبی گھرانے سے تھا اور مسیحیت میں جانوروں کی تخلیق سے متعلق رائے بڑی واضح رہی ہے، جہاں بہ ظاہر انسانی تاریخ فقط دس ہزار سال کے لگ بھگ پرانی ہے اور انسان یا دیگر جانور ارتقاء کی بجائے آسمان پر تخلیق کر کے زمین پر اتار دیے گئے۔
ڈارون بھی ٹھیک اسی گھریلو تربیت میں پلا بڑھا تھا، مگر جب اس نے ایک طویل سمندری سفر کیا اور مختلف جانوروں میں پائی جانے والی مماثلت دیکھی، تو اس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’اوریجن آف اسپیشیز‘ لکھی۔ اس کتاب میں انسان کی تخلیق یا ارتقا کی وجہ سے تخلیق کا شاید دانستہ طور پر ذکر نہیں کیا گیا تھا۔ یعنی ڈارون نے انسان کی تخلیق پر کوئی بھی بات کیے بغیر اپنی بات کو فقط جانوروں تک محدود رکھا تھا۔ کمال یہ ہے کہ ہمارے ہاں اب تک ڈارون کا نام سنتے ہیں ایک زوردار نعرہ لگایا جاتا ہے، ’’انسان بندر سے نہیں بنا‘‘ یا ’اگر انسان بندر سے بنا ہے، تو اب بندر انسان کیوں نہیں بنتے؟‘‘۔ ڈارون کا نظریہ فقط یہ بتاتا ہے کہ دنیا کے تمام جانوروں کے درمیان مماثلت اور مختلف اسپیشیز میں پائے جانے والے فرق سے واضح ہے کہ نیچرل سلیکشن یا فطری انتخاب کے ایک انتہائی سست مگر مستقل تغیر کا نتیجہ ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ کیا انسان بندر سے بنا ہے کہ نعرہ لگانے والے کسی بھی شخص نے ڈارون کی کتاب کا مطالعہ نہیں کیا، مگر عمومی طرز کی معلومات پر وہ سائنس کے ایک نظریے پر بات کرنے میں کوئی عار بھی محسوس نہیں کرتا۔
ڈارون کے نظریے میں دی جانے والی پیش گوئیوں کو سامنے رکھا جائے، تو تشریح کچھ یوں کی جا سکتی ہے کہ انسان بندر سے نہیں بنا بلکہ بندر اور انسان دونوں لاکھوں برس پہلے ایک ہی جد سے ہیں۔ یعنی اس ایک جد میں اس انتہائی سست جینیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ایک شاخ ارتقا پا کر بندر بنی اور دوسری ارتقا پا کر انسان۔ دوسرے لفظوں میں انسان بندر سے نہیں بنا بلکہ انسان اور بندر دونوں لاکھوں سال پہلے پیدا ہونے والی جینیاتی تبدیلیوں کے نتیجے کے طور پر یہ دو مختلف نوع کی اسپیشیز پیدا ہوئیں۔
دو برس قبل کی بات ہے کہ میں امریکا میں ایک طویل سفر کر رہا تھا۔ وہ کوئی سات آٹھ ہزار کلومیٹر کا فاصلہ تھا، جس میں نے میناسوٹا ریاست سے شروع کیا، پھر جنوبی ڈیکوٹا سے نکلتا، مونٹانا، وائومنگ، آئیڈاہو، یوٹا، کولوراڈو اور نبراسکا سے ہوتا ہوا دوبارہ جنوبی ڈیکوٹا اور میناسوٹا پہنچا۔
اس دوران اس سفر میں میں نے اپنے ہم راہ کچھ کتابیں رکھ لیں تھیں تاکہ اپنی باری پر طویل ڈرائیونگ کے بعد جو وقت بچے وہ کتاب پڑھنے میں گزرے۔ ایسے میں کسی جگہ پر ایک فیملی سے بھی ملاقات ہوئی، جو اسی طرز کا سفر کرتے ہوئے کسی مذہبی اجتماع کی جانب جا رہی ہے۔معلوم چلا کہ یہ خاندان انتہائی سخت قسم کے مسیحی نظریات کا حامی ہے۔ میں وہاں کیمپر گاڑی ایک طرف کھڑا کر کے کافی کا کپ ہاتھ میں لیے ایک درخت کے سائے میں بیٹھا ڈارون کی کتاب اوریجن آف اسپیشیز پڑھ رہا تھا۔
ایسے میں اس فیملی کی بارہ چودہ برس کی ایک لڑکی میرے پاس آئی اور کہنے لگی۔ انکل آپ کیا پڑھ رہے ہیں۔ میں نے کہا، ’ڈارون کی کتاب اوریجن آف اسپیشیر‘۔ میرا جواب سنتے ہی اس نے قہقہ لگایا اور بولی یہ تو بکواس کتاب ہے۔ میں نے پوچھا کہ وہ کیسے، تو اس نے چند ہی ثانیوں میں بغیر رکے کوئی نو سوالات ڈارون کی اس کتاب اور نظریہ ارتقا پر داغ دیے۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ یہ نظریہ بالکل غلط ہے کیوں کہ یہ بائبل کے خلاف ہے اس کے بعد اس نے بائبل کی بنا پر متعدد سوالات بھی اٹھا دیے۔
میں نے اس کے سوالات کے جوابات دینے اور ایک بحث شروع کرنے کی بجائے اس سے فقط یہی کہا، ’’مجھے بہت اچھا لگا کہ تم نے اس کتاب اور اس نظریہ پر اتنے سارے سوالات کیے ہیں۔ ڈارون خود بھی موجود ہوتا، تو بھی اسے تمہارے سوالات بہت اچھے لگتے۔ مگر میرا سوال یہ ہے کہ کیا تم نے یہی نو سوالات بائبل پڑھتے ہوئے بھی اٹھائے تھے؟‘‘ اس پر وہ ایک لمحے کو چونک گئی اور کچھ سوچتی ہوئی پھر اپنے خاندان سے جا ملی۔
حیاتیات میں ایسے بہت کم نظریات ہیں، جن کی بنیاد پر پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔ پیش گوئی کی طاقت والے نظریات عموماﹰ طبیعات کے حصے میں آتے ہیں اور دیگر علوم تجرباتی اور مشاہداتی بنا پر چیزیں وضع کرتے ہیں، تاہم ڈارون کا یہ نظریہ اپنے دور کا ایک عجیب و غریب نظریہ تھا، جس نے اس دور کے رائج اعتقادات اور نظریات کے بالکل برخلاف بات کی اور ایک طرح سے بالواسطہ طور پر پیش گوئی تک کر دی۔
اس کے بعد جانوروں کی کھوپڑیوں اور ڈھانچوں کی تلاش کا ایک طویل اور صبرآزما عمل شروع ہوا، تاہم اس نظریے کے خلاف کھڑے حیاتیات دان اس دوران مختلف کھوپڑیوں کے درمیان پائے جانے شواہد کے خلا کی بنا پر عموماﹰ اس نظریے کی صحت پر سوالات اٹھاتے رہے۔ ایک طویل تاریخ اور زمانہ گزر جانے کے بعد یہ بدقسمتی تھی کہ بہت سے جانوروں کے ڈھانچے اور کھوپڑیاں بہ طور ثبوت ملنا ممکن نہیں تھا کیوں کہ ان جانوروں کی باقیات ختم ہو چکیں۔
مگر پچھلی صدی میں بلاآخر ڈی این اے دریافت کر لیا گیا۔ ڈی این اے کی دریافت کے بعد ڈارون کے نظریے کے تحت کی جانے والی پیش گوئیوں کو پرکھا گیا، تو مختلف جانوروں کے درمیان مماثلت اور ارتقائی تغیر کی گتھیاں سلجھ گئیں۔
مختلف انواع کے جانوروں کے درمیان فرق اور ان کے ڈی این اے کا فرق بتا رہا تھا کہ معاملہ ہوا کیا ہے۔ یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ڈی این اے فقط اسی صورت میں ایسا سا ہو سکتا ہے اگر ارتقا کی اساس ایک ہو اور اسی ارتقائی تغیر اور نیچرل سلیکشن کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ نہایت آہستگی سے جسمانی تبدیلیاں رونما ہوئی ہوں۔
سائنس کی دنیا میں ڈارون کا نظریہء ارتقا کوئی کہانی یا مفروضہ نہیں بلکہ اب ایک سائنسی حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، کم از کم حیاتیات کے شعبے سے تعلق رکھنے والا شاید ہی کوئی سائنس دان ہو، جو اب اس پر سوال اٹھاتا ہو۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں پڑھائی جانے والی کتب میں اب تک ساٹھ سال پرانی حیاتیات پڑھائی جا رہی ہے۔
بہت سی چیزیں ہمیں مذہب کے نام پر پڑھائی جاتی ہیں، حالاں کہ ان کا خود مذہب سے بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کم از کم اسلام میں ارتقا کے نظریے کے خلاف کوئی بات نظر نہیں آتی، تاہم زیادہ تر تشریحات قرآن کی بجائے دیگر مذہبی کتب سے مستعار لے کر انہیں خدا کی بات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ میرا موضوع چوں کے براہ راست حیاتیات ہے اور نہ مذہب، اس لیے اس مضمون کو علمی بحث کے لیے رکھ چھوڑتا ہوں اور سوالات کے لیے بھی۔ نہ سائنس آپ کو سوالات سے روک رہی ہے اور نہ مذہب، تو کیوں نہ ہم پوری قوت سے سوالات اٹھائیں اور اپنے علم میں اضافہ کریں؟