بنگلہ دیش کی آزادی اور پاکستان میں قوم پرستی کا نیا بخار

مہناز اختر

مجھے ١٩ دسمبر کی منظور پشتین کی اردو میں کی جانے والی گفتگو کو سن کر ایک گہرا قلبی اطمینان حاصل ہوا۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی منظور پشتین نے سامعین کے لیئے اپنے پانچ نقاطی مطالبات کو دہرایا۔ منظور پشتین کی پوری گفتگو میں آپ کو کہیںمعمولی سا بھی شائبہ نہ ہوگا کہ وہ پختون قوم پرستی کی بات کررہا ہے اور نہ کبھی اس نے یہ بات جتائی ہے کہ اسکی ٹوپی ”پختون قوم پرستی“ کی علامت ہے جیسے پچھلے دو عشروں سے سندھی قوم پرستوں نے سندھی ٹوپی اور اجرک جیسے خوبصورت سندھی ثقافتی ورثے کو سندھی قوم پرستی کی علامت بنادیا ہے۔

پاکستان میں قوم پرستی کے کئی روپ ہیں جیسے سندھی قوم پرستی، پنجابی قوم پرستی، بلوچ قوم پرستی اور پختون قوم پرستی۔ میری طرح شاید آپ نے بھی محسوس کیا ہوگا کہ جب سے پشتون تحفظ موومنٹ منظر عام پر آئی ہے ایک خاص قسم کی پختون قوم پرستی اور نسلی برتری بھی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کبھی پختون قوم کا شجرہ بنی اسرائیل سے ملایا جاتا ہے اور کبھی قیس عبدالرشید اور خالد بن ولید کی نسبت سے پختونوں کے شجرے کو صحابہ اکرامؓ سے ملا کر نسلی برتری اور تفاخر کی نمائش کی جاتی ہے۔ میں اس وقت اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتی کہ آیا یہ روایات تاریخی حقیقت ہیں یا فسانے۔ دوسری طرف پشتون تحفظ موومنٹ کی حمایت کرنے والا ایک قوم پرست گروہ پاکستان، پاکستان کے وجود اور پاکستان میں بسنے والی دیگر اقوام کو جوڑنے والی زبانِ اردو کے خلاف بھی ہرزہ سرائی کرتا ندکھائی دیتا ہے۔

مجھے پشتون تحفظ موومنٹ سے اکثر یہ گلہ رہتا ہے کہ ہم جیسے لوگ جو پشتون نہیں ہیں بغیر کسی لسانی اور قومی تعصب کے صرف حق کی بنیاد پر اس تحریک کی حمایت کرتے ہیں، وہ وہاں آکر اجنبیت محسوس کرنے لگتے ہیں جب اس تحریک کے رہنما اور حمایتی صرف پشتوزبان کو ذریعہ اظہار بناتے ہیں جسے سمجھنا ہمارے لیۓ مشکل ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ حکومت اس تحریک کے ساتھ چاہے جتنا برا سلوک کرے لیکن جہاں جہاں منظور پشتین اور دیگر رہنما اپنی تحریک کا پیغام لے کر پہنچے ہیں وہاں کے حق پرستوں نے دل کھول کر ان کا استقبال کیا ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ راؤ انوار کے ہاتھوں ماوراۓ عدالت قتل ہونے والے نقیب محسود کی وجہ سے نمایاں ہوکر سامنے آئی تھی لیکن گلہ یہ بھی ہے کہ کراچی آکر بھی اس موومنٹ نے کراچی کے ان خاندانوں کے دکھ کی بات نہیں کی جنکے لعل بھی راؤ انوار کے ہاتھوں بے گناہ قتل کیۓ گۓ۔ کراچی پاکستان کا وہ واحد شہر ہے جہاں ہر قومیت کے لوگ اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے آتے ہیں۔ کراچی ہمیشہ سے ہی میزبان شہر رہا ہے۔ یہاں پختون ، بلوچ اور سندھی لاپتہ افراد اورماوراۓ عدالت قتل کی داستان بیان کرنے آتے ہیں پرافسوس ہوتا ہے کہ یہی افراد مہاجروں کے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں پر ناصرف خاموش رہتے ہیں بلکہ اسکی حمایت کرتے ہوۓ بھی دکھائی دیتے ہیں۔ جب قومی تشخص قوم پرستی میں تبدیل ہوتا ہے تو یہ سب سے پہلے مختلف اقوام کے درمیان موجود بھائی چارے کی فضا کو تباہ و برباد کرتا ہے۔ قوم پرست پاکستان مخالف بیانات دے کر شاید یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان نہ بھی رہے تو پنجابی پنجاب کے ساتھ ، پختون پختونخواہ کے ساتھ ، سندھی سندھ کے ساتھ اور بلوچ بلوچستان کے ساتھ اپنا وجود باقی رکھ سکتے ہیں اور انہیں پاکستان کی ایسی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ہندوستان سے ہجرت کرنے والی وہ اقوام جنہوں نے پاکستان اور پاکستانیت کے لیۓ اپنے لسانی اور جغرافیائی تشخص کی قربانی دی کیا وہ واپس اپنی دھرتی پر لوٹ سکتے ہیں، آسان لفظوں میں کہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ کیا تاریخ اور ہجرت عظیم undo ہوسکتی ہے؟
سوال یہ بھی ہے کہ کیا آپ نے پاکستان میں ١٦ سولہ دسمبر کو سقوطِ ڈھاکہ یا بنگالی شہداء کا سوگ منانے والوں کو ان لاکھوں بہاریوں سے معافی مانگتے دیکھا ہے جنہیں پاکستان نے بیچ منجدھار میں لاوارث چھوڑدیا؟

آج کل پاکستان میں ہر سال ١٦ دسمبر کو بنگلہ دیشی بنگالیوں سے معافی تلافی کا رجحان دیکھنے کو آرہا ہے مزید یہ کہ ہمارے قوم پرست بنگالیوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت کرتے ہوۓ بھی دِکھاٸی دیتے ہیں۔ بے شک بنگالی اس وقت ریاستی جبر، سیاسی اور نسلی تعصب کا نشانہ بناۓ گۓ اور ردعمل کے طور پر انہوں نے پاکستان سے اپنی آزادی اور حق چھین کر حاصل کرلیا۔ پر اسی ردعمل کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں بنگالی قوم پرستی نے جنم لے کر مشرقی پاکستان کو ایک گہری خلیج کے ذریعے تقسیم کردیا، وہ تقسیم بنگالی اور بہاری قومیت کی تقسیم تھی۔ اگر تو پاکستانی قوم پرستوں کی یہ حمایت بنگالیوں پر جبر کی مخالفت یا انکے جاٸز سیاسی حقوق کی حمایت پر مبنی ہوتی تو میرے پاس اعتراض کا کوٸی جواز نہ ہوتا لیکن اس مصنوعی بنگالی حمایت پر غور کیا جاۓ تو آپکو یہ جاننے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا کہ دراصل حمایت بنگالی قوم پرستی اور اسکی بنیاد پر علیحدگی کی تحریک کی جاتی ہے تاکہ بلوچ علیحدگی پسندوں اور پختونستان کے خواب دیکھنے والوں کو علیحدگی کی دلیل مل سکے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے آج تک بہت کم پاکستانیوں کو ان لاکھوں بہاریوں سے معافی مانگتے دیکھا ہوگا جو بنگالیوں کی نفرت کی آگ میں جھلس کر اپنی جانیں اور آبرو گنوا بیٹھے۔ ہزاروں آج بھی ٹھکراۓ ہوۓ پاکستانیوں کی طرح بنگلہ دیش کے کیمپوں میں پاکستانیت کی قیمت چکا رہے ہیں اور جو بہاری بچ بچا کر دہری ہجرت کے بعد پاکستان پہنچے انہیں حقارت سے ”بہاری“ کہا جاتا ہے۔ آج شاید آپکے ذہن میں لفظ ”بہاری“ آتے ہی حالیہ برسوں میں پاکستان میں دِکھاۓ جانے والے ٹی وی ڈراموں کی مہربانی سے بھدے اور مصنوعی بھوج پوری اور پوربی لہجے میں بات کرتے ہوۓ اداکار نظر آٸیں گے یا پھر ٹخنوں سے اونچی ساڑھی پہنے بھدے جملے کستی ادکاراٸیں دکھاٸی دیں گی۔ کیا یہ رویہ کسی قوم کے قومی تشخص کوبگاڑنے کے مترادف نہیں ہے؟

قوم پرستوں کا ایک مفروضہ دھرتی کو ماں قرار دینا ہے کیونکہ اسی میں انکی نظریاتی بقا ہے۔ یہ دھرتی کو ماں قرار دے کر خود اسکے سپوت اور جائز وارث بن جاتے ہیں۔ اگر ہم ہندوستان کی جدید سیاسی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ایک دلچسپ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ہندو قوم پرستوں نے صرف دیڑھ سو سال کے عرصے میں ”بھارت ورش“ کو ”بھارت دیوی ماتا“ میں تبدیل کرکے اسکی پرستش شروع کردی ہے، یہی حال پاکستانی قوم پرستوں کا بھی ہے۔ پاکستان اور بنگال کی قوم پرستی کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ یہ بنگالی، سندھی ،پنجابی،پختون اور بلوچ ”مسلم“ قوم پرستی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی غیر مسلم اقلیتیں یہاں اپنی بقا کے حوالے سے فکر مند ہیں۔

بنگلہ دیش کے بنگالیوں سے اظہار یکجہتی کرنے والے پاکستانی قوم پرستوں کو کراچی میں موجود لاکھوں بنگالیوں اور برمیوں کے سیاسی اور شہری حقوق سے کوٸی سروکار نہیں ہے۔ اسی طرح سندھی/پنجابی/پختون/بلوچ قوم پرست جو بھارتی ہندوستانیوں کو اپنا بھاٸی قرار دے کر فراخدلی سے ملتے ہیں وہی قوم پرست پاکستان میں موجود ہندوستانی مہاجر سے تعصب کا رویہ روا رکھتے ہیں اور انہیں انکی تمدنی شناخت تبدیل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

اس سال جب پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی تنزیلہ شیدی نے اپنی افریقی شناخت کے ساتھ سندھ اسمبلی میں فخر سے حلف اٹھایا تو سب نے واہ واہ کی اور کسی نے انہیں خود کو سندھی یا بلوچ کہلوانے پر مجبور نہیں کیا حالانکہ شیدیوں کو سندھ اور بلوچستان میں بسے صدیاں بیت چکی ہیں۔ اسکے برعکس یہاں بہاری اور دیگر مہاجروں کو اپنی اصلی شناخت کو بھول کر نقلی سندھی بننے یا ”اردو اسپیکنگ“ کہلانے کا بے تکا مشورہ دیا جاتا ہے۔ جس طرح قومی تشخص کا احساس ایک بہترین انسانی رویہ ہے تو اسکے برعکس قوم پرستی ایک بدترین انسانی روش ہے جو بھاٸی چارے اور انسانی مساوات کی دشمن ہے۔ کیا ہی اچھا ہوں کہ ہم دھرتی کو ماں کے بجاۓ ایک مہربان میزبان کا درجہ دیں اور اس پر امن اور بھاٸی چارہ قاٸم کرنے کی کوشش کریں۔