بھوک اور تہذیب
سیدہ تہنیت کاظمی
پچھلے سال میرا گزر اسلام آباد کی ایک چوک سے ہوا تو وہاں لگے ایک بینر پر میری نظر پڑی ایک بڑا مختصر مگر جامع جملہ لکھا ہوا تھا” بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے”اُس وقت تو شاید وقتی میں نے اس پہ اتنا غور نہیں کِیا مگر کُچھ دِن پہلے وقت گزاری کے لیے جب فیس بُک اوپر نیچے کرنے لگی تو اچانک میری نظر ایک تصویر پر پڑی۔میری نظر ایک لمحے کیلئے اُس تصویر پر ٹھہر گئی۔
ایک بارہ ،تیرہ سالہ نابالغ بچی پھٹے پرانے کپڑوں میں ایک پُرہجوم شاہراہ پراپنے دو یا تین سالہ بھائی کے لئے بھیک مانگ رہی تھی۔اُس کو دیکھ کر آنکھ کی پُتلی جیسے ساکت ہو کے رہ گئی۔
اور بس ذہن میں گھومنے لگا کہ واقعی بھوک تہذیب کے آداب بُھلا دیتی ہے۔وہ بارہ تیرہ سالہ بچی جو نا جانے کِس مجبوری کے تحت وہاں بیٹھی تھی۔اور پھٹے پرانے لباس میں سے اُس کا جسم نظر آ رہا تھا۔جانے کِتنے ہی ہوس پرست لوگوں کی نظر کا نشانہ بنتی ہو گی ۔مگر کہتے ہیں نہ بھوکے پیٹ کا مذہب روٹی ہے ۔بس اسی روٹی کیلئے تہذیب کے آداب
کو بالائے طاق رکھے بِنتِ حوا ,صَنفِ نازک سڑک کے کنارے بیٹھنے پر مجبور ہے۔
روٹی کے ایک نوالے کے عِوض پتہ نہیں کتنی ہی ہوس
پرست نظریں اُسکے جسم کا طواف کرتی ہوں گی۔ آج کل تو شہر کی ہر گلی کُوچے میں یہ سب دیکھنے کو مِل رہا ہے۔امیر، امیر سے امیر تر ہو کر اپنے محلات کو بلند سے بلند کر رہا ہے اور غریب دِن بدِن غُربت کے گہرے سمندر میں ڈوب رہا ہے۔کِسی نے کیا خوب کہا ہے۔
” بھوک پِھرتی ہے میرے دیس میں ننگے
پاؤں رِزق ظالم کی تجوری میں چُھپا بیٹھا ہے ”
اگر ہر شخص فقط سُنتِ رسول صَلٰی اللَّہُ عَلیہِ وَآلِہِ وَسَلَّم پر ہی عمل کر کے اپنے پڑوسی کا خیال رکھیں تو شاید کِسی
بِنتِ حوَّا کو سڑک کِنارے بھیک نہ مانگنی پڑے۔یہ تنقید برائے تنقید نہیں یہ تو محض تنقید برائے اِصلاح ہے۔اپنے اندر تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔اگر ہر شخص صِرف اپنے اندر تبدیلی لائے اور اپنے ساتھ چلنے والے لوگوں،اپنے پڑوسیوں کا خیالرکھے تو بہتری آ سکتی ہے۔اللَّہ پاک سب
کیلئے آسانیاں پیدا کرے اور سب کو آسانیاں پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)