تاریخ بطور پروپیگنڈہ
طیب سرور
لفظ تاریخ کے لغوی معنی حالات و واقعات یا حادثات کا تحریری تذکرہ ہے اور یہاں ہمارا سروکار بھی لفظ تاریخ کے انہی معانی سے ہی ہے۔ ہر مخصوص دور کے واقعات ضبط تحریر کرنے والا واقفِ تحریر تاریخ دان کہلاتا ہے اور یوں بعد کے ادوار میں نسل انسانی کے سابقہ واقعات ،حالات یا حادثات کی معلومات کا انحصار تاریخ ہی پر ہوتا ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کی موجودہ شکل سے پہلے تاریخ کو محفوظ کرنے کیلئے اسے رقم کئے جانے کا طریقہ کار ہی عام تھا اور اس سے قبل جب تحریر کا کوئی خاص انتظار نہ تھا تب یہی تاریخی واقعات سینہ بہ سینہ منتقل ہوا کرتے تھے جن کی صحت تحریری طریقہ کار سے بقدر مشکوک اور کم قابل اعتماد تھی۔ آنے والے دور میں ممکنہ طور پر یہی تاریخ کسی دوسرے طریقہ سے آمدہ نسلوں میں منتقل کی جائے گی جو کہ گذشتہ طریقہ کار سے زیادہ درست اور مستند ہو سکتا ہے جیسا کہ ویڈیو ریکارڈنگ۔
پوری انسانی معلوم تاریخ میں تاریخ گوئی کا مسئلہ مشکوک رہا ہے بلکہ مشکوک بنایا گیا ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ چونکہ کسی مخصوص واقعہ کی نقل کرنے والا تاریخ دان خود اس معاشرے کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرتی ذہنیت کا حصہ بھی ہوتا ہے اس لئے اس مخصوص ذہنیت اور سابقہ علم و فکر کا اثر اس تاریخی واقعہ پر بھی ہوتا ہے جس سے حقیقت کے متاثر ہونے کا خدشہ پایا جاتا ہے اس عنصر کی نسبت سے تاریخ پر پڑھنے والا اثر مختلف ضرور ہوتا ہے لیکن متضاد نہیں۔ متضاد تاریخ کی وجہ اشاعت یا پروپیگنڈہ ہے جو کہ خودساختہ من پسند اور من گھڑت ہوتا ہے جو کہ آنے والی نسلوں کے لاشعور کے لئے انتہائی مہلک ہوتا ہے۔
اشاعت و پروپیگنڈہ کو اگر زیر بحث موضوع کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بلکل واضح ہےیہ کہ ہر مکتبہ فکر اپنے افکار کی ترویج کیلئے پروپیگنڈہ پر انحصار کرتا ہے اور کوئی بھی شخص کسی خاص مکتبہ فکر سے باہر نہیں ہے کیونکہ معاشرہ اپنے ارتقاء میں اس جگہ کھڑا ہے جہاں انفرادی زندگی کا خیال کسی متک سے کم نہیں خیال کیا جا سکتا۔ اس لئے آج کی اس دنیا میں تقریبا ہر عام شخص کسی نہ کسی پروپیگنڈہ کے زیر اثر زندگی گزار رہا ہے اور یہی اس کا واحد سچ ہے جس کو وہ نہ صرف زندگی کا سرمایہ خیال کرتا بلکہ اس سچ کی بقاء میں جان تک کی قربانی دے دیتا ہے۔
پروپیگنڈہ کی ترویج کے سوال کو اگر دیکھا جائے تو اس کا تعلق طاقت سے ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کے اندر مطلق الانعان طاقت ریاست ہے یہی وجہ ہیکہ ریاست کے منظور نظر پروپیگنڈہ ہی بڑی آسانی سے پھلتا پھولتا ہے چونکہ وہ تمام آلے جو پروپیگنڈہ کو پھیلانے کا باعث ہوتے ہیں ان پر ریاست ہی کا کنٹرول ہوتا ہے مثلا میڈیا ، نصاب تعلیم وغیرہ اس بابت اگر مثالیں ملاحظہ کی جائیں تو بیش بحا ہیں مگر یہاں ہم اپنے ہی اس خطے کی مثال پیش کرنا مناسب سمجھیں گے جو کہ ماضی قریب کے ایک واقع کی ہے جس کو تقسیم ہند کہا جاتا ہے۔ تقسیم یا بٹورا ہے تو ایک تاریخی واقعہ مگر اس پر متضاد بیانیے ہیں جن میں سے دو کو ریاستی سر پرستی حاصل ہے جس میں خطِ تقسیم سے اس پار کی تاریخ حادثے کا زمہ دار اُس پار کو ٹھراتی ہے جبکہ اُس پار کی تاریخ اس کے برعکس۔ یہ دونوں تاریخیں چونکہ جانبدار ہیں اس لئے یہ کہنا بجا ہو گا کہ حقیقت ان دونوں سے بہت مختلف ہو گی۔
چونکہ پروپیگنڈہ شعوری طور پر کیا جاتا ہے جس کے پیچھے کوئی نہ کوئی مفاد پوشیدہ ہوتا ہے مثلا تقسیمِ ہند پر دو مختلف تاریخیں اس بات کی شاہد ہیں کہ ان کے مسلط کیے جانے پر دونوں ریاستوں کی قابض مقدر اشرافیہ کی بقا ہے جو کہ تقسیم کے فورا بعد سے بسر اقتدار ہیں جن میں حصہ کی جنگ چلی آ رہی ہے اور اس لڑائی کے آلات یہاں کی عوام ہیں۔
تاریخ کی بحث میں اس کے مسخ کئے جانے کا سوال بھی بہت اہم ہے کیونکہ مسخ کئے بغیر پسندیدہ من گھڑت تاریخ کو پھیلانا مشکل ہوتا ہے اس لیئے پہلے تو اسے مسخ کیا جاتا ہے پھر بھی کہیں تذکرہ نکل آئے تو پہلے پہل ایسے مواد کو جبرا نہ صرف بین کیا جاتا ہے بلکہ لکھنے والے کو اور یہی وہ طریقہ ہے جس کا استعمال کر کے نسل در نسل غلامی کے طوق پہنائے جاتے ہیں اور اپنے مفادات کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ جس کی واضح مثال مسئلہ جموں کشمیر ہے جہاں لوگوں سے ان کی تاریخ چھین کر ان کے ہاتھوں میں مسخر شدہ تاریخ تھما دی گئی جس نے انہیں لاشعوری طور پر غلام بنا دیا اور وہ آذادی کے مغالطے میں” اپنا نصیب” سہہ رہے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر زبان ، ادب، ثقافت بلکہ شناخت تک چھین لی گئی۔
یہ سب تو ایک سرمایہ دارنہ ،نیم سرمایہ دارانہ جاگیردارانہ یا گماشتہ سرمایہ دار ریاست کا کام ہے لیکن ہمیں اپنا کام کرنا چاہیے اور وہ ہے ردِ پروپیگنڈہ۔ البتہ نوجوان نسل کیلئے سچ جاننے کا واحد راستہ مادی حالات کا علم اور تجزیہ ہے جوکہ ان کی نجات کا واحد ذریعہ ہوگا بصورت دیگر ہر جدوجہد مٹھی بھر پروپیگنڈہ خالق غاصبوں کے حق میں ہی جائے گی اور باقی رہے معجزہ پرست جن کیلئے کسی سیانے کا قول ، جنگ لڑنا ہی پڑتی ہے اپنے زورِ بازو پر زندگی کے میدان میں معجزے نہیں ہوتے۔