تاریخ کا کوڑا دان
وقاص احمد
بیٹا کوڑے کا شاپر کوڑے دان میں ڈال دیا؟
جی امی ابھی ابھی بھرا ہے، کوڑے دان میں ڈال دیا ہے۔
آخرکار جناب چیپ جسٹس آف الباکستان جسٹس ثاقب نثار ریٹائر ہو ہی گئے۔ پہنچی وہیں پر خاک جہاں کا خمیر تھا۔
اور شاعر سے معذرت کے ساتھ،
“جس شان سے کوئی ریٹائر ہوا وہ شان سلامت رہتی ہے۔”
آپ اس شخص کی ریٹائرمنٹ والے دن کا احوال پڑھ لیں، ایسے شخص کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی جس کے سامنے جب اس سے اگلا آنے والا چیف جسٹس اس کے کارنامے گنوا کر اس کی “تحسین” کر رہا تھا تو اس کی تقریر میں کوئی ایک تحسین بھی اس کام سے متعلق نہیں جس کام کی سابقہ جج صاحب کو تنخواہ ملتی تھی۔ شرم تو شاید انہوں نے ابھی محسوس نا کی ہو لیکن ایک خیال تو ذہن میں ضرور آیا ہوگا؟ ہر ادارے کا سربراہ چاہتا ہے کہ اس کی ایک legacy قائم ہو، لوگ اس کے کاموں، اس کے افکار و نظریات کو اس کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یاد رکھیں, اس کے کیے گئے فیصلوں کے حوالے دیے جائیں اور آنے والے لوگ اس کو فالو کریں۔ مگر رسوائی کا معیار دیکھیں کہ ریٹائرمنٹ والے دن ہی اگلے آنے والے سربراہ کی تقریر کا لب لباب یہ ہے کہ میرے پیش رو نے بہت سے “کارنامے” سرانجام دیے مگر میں ان میں سے کسی ایک کی بھی تقلید نہیں کروں گا نا ہی ان “کارناموں” کو جاری وساری رکھوں گا۔ غلط اور صحیح کی اس سے زیادہ بے رحمانہ پہچان کیا ہوگی؟
ثاقب نثار صاحب عدلیہ کی تاریخ کے ان سیاہ ترین کرداروں میں سے ایک تھے جو اس حقیقت کو ثابت کرتے ہیں کہ بدی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ آج سے عشروں پہلے جن لوگوں نے سوچا ہوگا کہ جسٹس منیر سے زیادہ بدنام زمانہ منصف کون ہوسکتا ہے اگر وہ مستقبل میں جھانک کر ثاقب نثار کو دیکھ لیتے تو شاید جسٹس منیر کے ہاتھ پر بیعت کرلیتے۔
چیپ صاحب کی خصوصیت یہ رہی کہ ابتداء میں تو وہ غالباً کچھ خاص “ہدایات” پر ملک کا بیڑا غرق کرتے رہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کو اپنی ذات میں مجتمع لا متناہی اختیارات کا ایسا چسکا لگا کہ انہوں نے سچ میں اپنے آپ کو مسیح موعود سمجھنا شروع کردیا۔ دو ڈھائی سال ملک کے دو بڑی سیاسی جماعتوں سے محاذ آرائی کے بعد اپنے آپ کو اور عدلیہ کو بے توقیر تو کروایا مگر جاتے جاتے نئی حکومت سے بھی ایسے پنگے لیے کہ تحریک انصاف والوں سے بھی خوب گالیاں کھائیں۔
آج اس بات پر بحث کرنا فضول ہے کہ جنابِ چیپ جسٹس کا دور کیسا رہا؟ کیسا رہا یہ سب کو سامنے نظر آرہا ہے۔ ملکی اداروں کی رہی سہی حیثیت کی تباہی، دخل در معقولات کا ایسا عالم کہ لوگ اب فیصلہ کرنے سے ہی انکاری ہیں، اٹھتی ہوئی معیشت کی تباہی، جمہوریت کے سینے میں گھونپا ہوا خنجر، احتساب کے نام پر کسی کے اقتدار کا گندا کھیل، ترقیاتی منصوبوں کی بندش اور اب ان پر ہونے والے جرمانے یہاں تک کہ صحت و انفراسٹرکچر کے میدان میں اٹھائے ہوئے بڑے اقدام کو سبوتاژ کرنے کا “ڈس کریڈٹ” جن لوگوں کے سر سجتا ہے اس میں بدقسمتی سے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کا سب سے بڑا جج نمایاں ہے۔
میں نے ایک دفعہ لکھا تھا کہ تاریخ کا کوڑے دان ہر کچرے کے لیے منہ کھولے کھڑا ہے۔ اگر پاکستان کی تاریخ کے بدترین آمروں اور ان کے پروردہ منصفوں کا آج کوئی نام لیوا نہیں تو تم کیا بیچتے ہو؟ آج مورخہ 24 جنوری جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں، ہر اخبار کی شہہ سرخی میں جگہ بنانے والا “چیف جسٹس ثاقب نثار” حرف غلط کی طرح ایسے مٹا ہے جیسے کبھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ میڈیا پر چلنے والے تبصروں میں اڑائے جانے والے ٹھٹھوں اور سوشل میڈیا پر برسنے والی گالیوں کی بارش میں اس سکھا شاہی دور کا خاتمہ بالخیر ہوگیا جو کبھی فرعون کے لہجے میں بولا کرتا تھا “قانون وہ ہوگا جو ہم کہیں گے”.
نئے آنے والے چیف جسٹس صاحب کا ماضی کا کردار مشکوک لیکن ابتدائی تقریر انتہائی انتہائی حوصلہ افزا ہے۔ مجھے ان کی تقریر سن کر ایک گونہ اطمینان ہوا کہ شکر ہے کہ کوئی تو آیا جس کو اپنے اصل فرائض کی پہچان ہے۔ باوجود اسکے کہ جسٹس کھوسہ کے ان نظریات کا براہِ راست فائدہ اس حکومت وقت کو ہوگا جس کا میں شدید ترین ناقد ہوں، مگر جیسا کہ میں اکثر کہتا ہوں کہ میری نفرت مجھے سچ بولنے سے نہیں روکتی اور میری محبت مجھے جھوٹ بولنے پر آمادہ نہیں کرتی۔ سو کھوسہ صاحب، آپ کی اس تقریر کو سیلیوٹ۔ اگر آپ حکومتی و انتظامی معاملات میں مداخلت مت کریں، مقدمات کا بوجھ کم کریں، عدالتی اصلاحات پر کام کریں لوگوں کو سستا، تیز اور شفاف انصاف مہیا کریں، سیاسی احتساب سے بالاتر ہوکر “جامع احتساب” پر عمل کریں، میڈیائی شہرت کے پیچھے مت بھاگیں تو میں آپ کے پاؤں دھو کر پیوں گا۔ منصف اللہ تعالیٰ کی ایک صفت کا زمینی وارث ہوتا ہے۔ منصف کا مقام بہت اونچا ہوتا ہے، اتنا اونچا کہ منصف کی اپنی ذات بھی بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔ لیکن یہ ذہن میں رکھیں کہ منصف خدا نہیں ہوتا۔ منصف نیتوں کے فیصلے نہیں کرسکتا۔ منصف کے پاس شرعی اور ملکی قوانین ہوتے ہیں اور اس کو انہی لکھے ہوئے قوانین کی قابل عمل، قابلِ قبول اور عمومی تعریف پر فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ منصف “بادی النظر” لکھ کر فیصلے نہیں کرتا۔ منصف گمان پر نہیں چلتا۔ منصف شکوک سے نتیجہ اخذ نہیں کرتا۔ منصف تعصبات کا شکار نہیں ہوتا۔ منصف کسی کے دباؤ میں کسی کا آلہ کار نہیں بنتا۔ منصف کا پیش نظر ایک آفاقی کلیہ ہے کہ “چاہے 10 گناہگار چھوٹ جائیں لیکن کسی ایک بے گناہ کو سزا نا ہو”. ہماری عدلیہ کی تاریخ ایسی شرمناک مثالوں سے بھری ہوئی ہے کہ جس وقت ہمارا سابقہ چیپ جسٹس ہسپتالوں میں صفائی کے معیار پر ناک بھوں چڑھا رہا تھا اسی اثنا میں اسی کی عدالت سے دو ایسے بھائیوں کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے بری کیا گیا جن کو پھانسی ہوئے دو سال گزر چکے تھے۔ کسی مہذب ملک میں یہ واقعہ ہوتا تو شاید کوئی باکردار ذمہ دار جج خودکشی کرلیتا مگر خوش قسمتی سے ہمیں باکرداری جیسی خرافات سے واسطہ نہیں اس لئے ثم الحمدللہ ہم جیل میں 18 سال قید رہ کر بے گناہ ثابت ہونے والی معصوم عورت کی رہائی پر شرم سے ڈوب مرنے کی بجائے ڈیم کے چندہ ڈنر کی عیاشیوں میں ڈوبتے رہے۔
جسٹس کھوسہ صاحب، یہاں سے آگے دو راستے جاتے ہیں۔ ایک عزت کا، شان کا، احترام کا اور لیجنڈ بننے کا اور دوسرا راستہ جسٹس ثاقب نثار کا، جسٹس افتخار چوہدری کا، جسٹس مشتاق کا، جسٹس منیر کا۔ یہ فیصلہ بھی آپ ہی نے کرنا ہے کہ کون سا راستہ اختیار کریں۔ بس یہ یاد رکھیں کہ تاریخ کا کوڑا دان بہت مہیب ہے، یہ ہر کچرے کو نگلنے کے لیے بےتاب رہتا ہے۔