تبدیلی کے دعویدار

صہیب حسن

علاقے کی ابتر حالت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسلم میاں کو علاقہ مکین کی متفقّہ رائے سے علاقے کی ذمہ داری سونپ دی گئی، اسلم میاں نے اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام کرنا شروع کردیا، لہذا وہ کبھی پارک کے لیے، کبھی صفائی ستھرائی کے لیے، کبھی چھوٹے موٹے کاموں کہ لیے علاقہ مکین سے ایک مخصوص کردہ رقم ہر ماہ طلب کرتے، لیکن بڑے کام جیسے سڑک کی مرمّت وغیرہ کے لیے متعلقہ یو-سی سے فنڈز مانگتے بہتری آرہی تھی اور کام بھی ہو رہا تھا لیکن سست رفتاری سے جو چند لوگوں کی طبیعت پہ گراں گزرا اور خان بابا جو علاقے کے نہایت جھوٹے آدمی تھے بےجا تنقید پہ اتر آئے “یہ ماہانہ رقم اس کی جیب میں جاتی ہے، روڈ کی مرمّت کے لئے یو-سی کیوں گئے ہمارا پیسہ کہاں ہے، آئندہ کوئی اسے ماہانہ رقم نہ دینا یہ اپنی جیب بھرتا ہے اور پھر حکومتی فنڈز کی طرف نظر دوڑاتا ہے وغیرہ وغیرہ” حتیٰ کہ اسلم میاں صفائی دیتے دیتے دستبردار ہوگئے اور خان بابا نے اپنے حمایتی کے ساتھ علاقہ سنبھال لیا۔

خان بابا نے پہلی بار اتنی بڑی ذمداری سنبھالی تھی لہذا انہیں اب پیچیدگیوں کا اندازہ ہوا، پہلے جہاں اسلم میاں محض ماہانہ رقم وصول کر کے کام کروا رہیں تھے وہیں خان بابا ماہانہ رقم کے ساتھ علاقہ مکینوں سے چندہ بھی یہ کہہ کے وصول کر رہیں تھے کہ فنڈز بالکل خالی پڑے ہیں، ساتھ ہی حکومتی فنڈ بھی مل رہا تھا لیکن نہایت بدانتظامی تھی، خان بابا نے 50 دنوں میں علاقے کی صورت بدل دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن حالات کسی اور سمت ہی جا رہیں تھے۔

پہلے تو سوچا تھا کہ یہ مضمون 100 دن پورے ہونے پہ شائع کروں گا لیکن صدقے جاؤں خان صاحب پہ جو 100 دن سے پہلے ہی اتنے عظیم کارنامے کر بیٹھے، کہ مزید چپ نہیں رہا گیا۔ مندرجہ بالا کہانی کوئی مزاحیہ تحریر نہیں، بدقسمتی کے ساتھ ہمارے وطنِ عزیز کا حال ہے، جہاں خان صاحب 2013 سے 2018 تک حکومتوں پہ بےجا تنقید کرتے تھکتے نہیں تھے، گویا تنقید اس انداز میں کر رہیں تھے جیسے حکومت نے کوئی اچھا کام سرانجام ہی نہیں دیا تمام لوٹ مار، چوری، رشوت خوری، بدعنوانی، دہشتگردی، بدانتظامی، دو نمبری، سب نواز شریف نے شروع کی اور ان سے پہلے ملک ترقی کی بلندیوں کو چھو رہا تھا، اگر ملک آج اس حال پہ پہنچا ہے تو یاد رہے اس وطنِ عزیز پہ پچھلے 70 سال میں 36 سال آمروں نے حکومت کی ہے اور 34 سال منتخب لوگوں نے ذمداریاں سنبھالی ہیں، اور یہ 34 سال منتخب حکومتوں نے کن مشکلات میں گزارے یہ ہم سب جانتے ہیں۔

2013 سے 2018 کے درمیان سی پیک معاہدہ ہوا، بجلی کی لوڈ شیدڈنگ سے میں بھی اور آپ بھی واقف تھے نواز شریف صاحب نے جاتے جاتے اس پہ بھی کافی حد تک کمی کردی، گیس لوڈ شیدڈنگ میں بھی کمی آئی، جہاں پہلے سی-این-جی کی قطاریں لگی ہوتی تھی، وہیں عوام کی یہ پریشانی بھی ختم ہوئی، برآمدات اور درامدات میں اضافہ ہوا، ٹیکس ریکوّری میں اضافہ ہوا، (یہ تمام چیزیں دھرنے، لوکڈاؤن، احتجاج، جلاؤ گِھراؤ جیسی مشکلات کے درمیان ہوا)، پنجاب صحت کے شعبے میں بھی تمام صوبوں سے سر فہرست رہا، 1122 میں 500 ایمبولینسز کا اضافہ ہوا، پاکستان کِڈنی اینڈ لیوئر انسٹیٹیوٹ (PKLI)، اردوگان ہسپتال مظفّرگڑھ، پنڈی انسٹیٹیوٹ اوف کارڈیولوجی کا قیام عمل میں آیا وغیرہ وغیرہ، صحت کے شعبے میں فہرست اتنی لمبی ہے کہ گنوانے بیٹھے تو آدھا مضمون یہی لے لے گا بہرحال، یہ سب بتانے کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ میں میاں صاحب کی وکالت کر رہا ہوں بلکہ یہ ہے کہ خان صاحب نے منفی چیزوں پہ تنقید تو کی لیکن مثبت چیزوں کو بھی پسِ پشت ڈال دیا۔

ہر جلسے میں بڑی بڑی باتیں کرتے، کہ ہم آجائیں گے تو لُٹا ہوا پیسا واپس آجائے گا، خودکشی کر لیں گے لیکن آئی-ایم-ایف کے پاس نہیں جائیں گے، بھیک نہیں مانگیں گے، “لوگ باہر سے اس ملک میں نوکریاں ڈھونڈنے آئیں گے، حد تو یہ ہے کہ مراد سعید صاحب نے پہلے دن تمام کرپٹ عناصر کو لٹکانے، دوسرے دن تمام چوری کیا ہوا پیسا واپس لانے اور تیسرے دن تمام قرضہ آئی-ایم-ایف کے منہ پہ مارنے کا انقلابی پلان بھی ترتیب دے دیا تھا۔

لیکن خان صاحب کی مثال اُسی خان بابا جیسی ہے جو جب ذمداریوں سے آزاد تھا تو بنا حقیقت جانے بڑے آرام سے تنقید کر دیتا تھا اور جب خود اسے وہ ذمداری ملی تو چیخیں نکل گئیں،

• نواز شریف صاحب نے اپنے دورِ اقتدار میں جب ہندوستان سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا، اور مودی کی پاکستان آمد ہوئی تو سب سے زیادہ شور خان صاحب نے مچایا “مودی کا یار ہے، غدّار ہے غدّار ہے” اور اب یہی خان صاحب مودی سرکار کو محبّت بھرے خطوط لکھ رہیں ہیں، اب نہ ہی کوئی “یار” ہوا نہ “غدّار”۔ نواز دور میں جب کبھی ہند و پاک قریب آئے تب تب خان صاحب نے تنقید کا سہارا لیا کہ نواز شریف صاحب کشمیریوں کے حقوق اور کلبھوشن کے متعلق بات کیوں نہیں کرتے اب جب خان صاحب نے خود خط لکھا تو نہ اس میں کلبھوشن کا ذکر آیا نہ ہی کشمیریوں کے حقوق کی پامالی یاد آئی، کیوں نکہ ‘خان بابا کو پیچیدگیوں کا اندازہ ہو رہا تھا’۔

• نواز دور میں جب کبھی کوئی چیز مہنگی ہوتی تو سب سے پہلے چیخیں پی-ٹی-آئی انتظامیہ اور خان صاحب کی نکلتی کہ یہ عوام کے ٹیکس کا پیسا کھا رہا ہے، ملک کو غریب سے غریب تر کر رہا ہے، اور اب یہی عوامی حکمران نے 22 روپے سی-این-جی پہ بڑھا کے سی-این-جی کو پیٹرول سے زیادہ نایاب کر دیا ہے، ساتھ ہی گیس کے بل میں بھی اضافہ فرما دیا “ہمدرد حکمرانوں” میں اب نہ ہی کوئی “ٹیکس کا پیسا کھا رہا ہے” نہ ہی کوئی “عوام کا خون نچوڑ رہا ہے”۔

• نواز شریف صاحب کے دورِ اقتدار میں قومی خزانے میں 24 عرب ڈالر تھے، اور اسٹاک مارکیٹ 56 ہزار پوائنٹس کو چھو رہی تھی، 2017-18 میں یہ قومی خزانہ 17 عرب ڈالر ہوگیا اور اسٹاک مارکیٹ 42 ہزار پوائنٹس پہ آگئی، اور اب جب کہ تبدیلی کے علمبردار حکمرانی کر رہیں ہیں تو 55 دن میں ہی ملکی خزانہ 8 ارب ڈالر ہوگیا، 102 لگژری گاڑیاں اور 6 بھینسے بیچ کے خان صاحب نے ملک کو 16 عرب ڈالر کا چُنا لگا دیا، اس کی منطق یہ پیش کی جاتی ہے کہ بھائی نواز شریف صاحب مصنوئی معیشت کھڑی کر کے گئے تھے خمیازہ تو بھگتنا پڑے گا، بات واپس وہیں آجاتی ہے کہ پھر خان صاحب آئے دن عوام سے آئی-ایم-ایف کے پاس نہ جانے کا، سی-این-جی قیمت کم کرنے، قرضہ نہ لینے، ڈالر کو تھام دینے کے جھوٹے وعدے کیوں کرتے رہیں، اور تو اور ماضی کہ یہ الفاظ بھی اس عظیم رہنما کے ہیں کہ “روپیے کی قدر گرنے میں چور حکمرانوں کا ہاتھ ہے”۔

• میرے انسافیئنز اس مہنگائی کا یہ جواب دیتے ہیں کہ “بھائی اربوں روپے کا خسارہ ہے وہ بھی تو پورا کرنا ہے”، تو میرے بھائی ہر حکمران کو خسارہ پورا کرنے کے لیے عوام کی جیبوں کو خسارے میں ہی ڈالنے کی سوجھتی ہے؟ کہاں ہے وہ اربوں ڈالر منی لانڈرنگ کیا ہوا پیسا؟ عاسم صاحب، آیاں علی، شرجیل میمن، اور بقول خان صاحب کے نواز شریف کے چوری کیے ہوئے اربوں کو واپس لائیں، اگر مہنگائی کر کے ہی خسارہ پورا کرنا تھا تو یہ کام نواز حکومت سے پہلے بھی سب کرتے رہیں ہیں “تبدیلی کہاں ہے؟”

• پھر کہتے ہیں میرے انسافیئنز دوست کہ بھائی ہر کام میں وقت لگتا ہے تھوڑا انتظار کرو سب ہوجائیگا، “کنٹینر پہ کھڑے ہو کے بڑے بڑے وعدے کیوں کیے پھر؟” وہ تو بس سیاسی بیان تھے، “سیاسی بیان؟ کبھی خان صاحب کو لیڈر کہتے ہو کبھی کہتے ہو سیاسی بیان تھے، میرے بھائی لیڈر سیاسی بیان نہیں دیتے بلکہ حقائق پہ مبنی بات دو ٹوک کرتے ہیں چاہے وہ بات ان کے مفاد میں ہو یا نہ ہو”

• نواز شریف صاحب جب کبھی بیرونِ ملک دورے پہ جاتے تو اس پہ بھی خان صاحب تنقید میں سب سے آگے ہوتے، انتخابات جیتنے کے بعد اوّل تو فواد چودھری صاحب نے بولا تھا کہ وزیر عاظم 3 ماہ تک کوئی بیرونِ ملک دورہ نہیں کریں گے لیکن خدا جانے کون سی ضرورت نازل ہوئی کہ فوری دورہ عربوں کا اربوں سے متعلق کرنا پڑا۔

• خان صاحب الیکشن سے قبل اس بات کے بھی علمبردار تھے کہ ذاتی تعلقات کی بنیاد پہ کسی کو کوئی سرکاری عہدہ نہیں ملے گا، لیکن بعد انتخابات انہی خان صاحب نے زلفی بخاری کو سرکاری عہدہ دیا، جہانگیر ترین بھی نہ اہل ہوتے ہوئے اکثر پارٹی میٹنگس میں خان صاحب کے ہمراہ نظر آتے ہیں، ساتھ ہی 2014 میں خان صاحب نے وزیر آعظم کا پی-سی-بی چیئرمین منتخب کرنے کی بھی مخالفت کی تھی اور جناب نے خود یہی کام الیکشن جیتنے کے بعد کیا۔

مختصراً یہ کہ ابھی محض 2 ماہ ہی ہوئے ہیں لیکن ان 2 ماہ میں جو واقعات پیش آگئے ہیں مثلاً، عارف علوی صاحب کا پروٹوکول، خان صاحب کا کراچی آمد پہ پروٹوکول، پنجاب ڈی-پی-او کیس، قطری وفد چوری معاملہ، پچھلے 9 ماہ میں اسٹاک مارکیٹ کم ترین سطح پہ، یہ تمام باتیں اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ خان صاحب کے وعدے محض الیکشن جیتنے تک محدود تھے یا خان صاحب نے جذبات میں باتیں کر تو دی لیکن ‘خان بابا کو اب پیچیدگیوں کا اندازہ ہو رہا ہے’۔ 2013 سے 2018 تک خان صاحب نے بڑی بڑی باتیں کی اب جب ان باتوں پہ عمل کرنے کا وقت یا تو جواب ملتا ہے “عوام کو مشکل وقت میں چند کڑوے گھونٹ لینے ہوں گے”۔ افسوس کے ساتھ خان صاحب کے پاس وزرا کی قابلیت سے زیادہ ان کی تعداد ہے۔ خان صاحب کے الفاظ “میں ان کو رلاوں گا” آج بھی میرے کانوں میں گونج رہیں ہیں اور اب یہی لگ رہا ہے کہ یہاں “ان” سے مراد 18 کروڑ عوام تھی۔