ترقی یافتہ ممالک اور ماحولیاتی دہشتگردی
ڈاکٹر حفیظ الحسن
پچھلی دہائی میں پاکستان دہشت گردی کا شکار رہا اور اب آئندہ آنے والی دہائیوں تک ماحولیاتی دہشت گردی کا شکار رہے گا۔ ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات کی مثل اس ماحولیاتی دہشت گردی کے حوالے سے صادق آتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو گوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلی پوری دنیا کا مسئلہ ہے مگر پاکستان اس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ اس نہج تک پہنچنے میں کس نے کتنا حصہ ڈالا اور کون اب تک کیا کر رہا ہے؟ یہ جاننا ضروری ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کیسے رونما ہو رہی ہے اور اسکے کیا اثرات ہونگے؟ اسے سمجھنے کے لیے پہلے یہ سمجھتے ہیں کہ زمین پر موسم کیسے بدلتے ہیں اور یہاں اوسط درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔
اوسط درجہ حرارت کیا ہوتا ہے؟ یہ زمین کے تمام علاقوں خشکی، سمندر، پہاڑ، ریگستان سب کا دن اور رات کا درجہ حرارت ملا کر حاصل کیا جاتا ہے۔ بیسوسیں صدی میں زمین کا اوسط درجہ حرارت تقریباً 13.5 ڈگری سینٹی گریڈ تھا جو مسلسل بڑھ رہا یے۔2005 سے لے کر اب تک ریکارڈڈ انسانی تاریخ کے سب سے گرم سال تھے۔
زمین پر موسموں کا بدلاؤ اس کے اپنے محور پر جھکاؤ جو تقریباً 23.5 ڈگری ہے، کی وجہ سے آتے ہیں۔ زمین کے شمالی کرے پر آدھا سال سورج کی روشنی زیادہ دورانیے تک پڑتی ہے تو وہاں موسمِ گرما ہوتا ہے جبکہ اُسی وقت جنوبی کرے پر روشنی کم دورانیے تک پڑتی ہے تو وہاں موسمِ سرما چل رہا ہوتا ہے۔
زمین کی فضا کا اس کے موسموں اور درجہ حرارت سے گہرا تعلق ہے۔ اگر زمین کی فضا نہ ہوتی تو شاید یہ ایک ٹھنڈا سیارہ ہوتا۔ زمین کی فضا میں کئی گرین ہاؤس گیسیں موجود ہیں جن میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور بخارات شامل ہیں۔ یہ گیسیں سورج کی حرارت کو جذب کر کے زمین پر اوسط درجہ حرارت بڑھاتی ہیں۔ اگر فضا میں ان گیسوں کی مقدار معمول سے بڑھ جائے تو زمین پر اوسط درجہ حرارت بھی بڑھ جائے گا۔ اس سے غیر معمولی موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ گرمی کی شدت بڑھتی ہے۔ شدید موسموں کے دورانیے میں اضافہ ہوتا ہے۔ جس سے سیلاب، قحط، طوفان اور قدرتی آفات کا سلسلہ بڑھتا ہے۔ گویا انسانی سرگرمویوں سے پیدا کردہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے دنیا تباہی کے دہانے پر جا سکتی ہے۔
ایسا ہی کچھ آج سے نہیں اٹھارویں صدی عیسوی سے ہو رہا ہے جب انسانوں نے صنعتی ترقی کا آغاز کیا۔ کوئلے اور زمین سے نکلنے والا ایندھن یعنی پیٹرول، ڈیزل وغیرہ سے مشینیں، ریل گاڑیاں، ہوائی جہاز، انڈسٹریاں چلا کر گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار فضا میں بڑھ رہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں صنعتی ترقی اور ماحول دشمن ایندھن کے استعمال کا آغاز صدیوں پہلے شروع ہوا۔ ان انسانی سرگرمیوں اور عوامی رویوں سے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ہوا جن میں کاربن ڈائی آکسائڈ ، میتھین اور کئی اور نقصان دہ صنعتی گیسیں شامل تھیں۔
ماحولیاتی کمیونٹی میں ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جسے کاربن ایمیشن کہتے ہیں۔ یہ دراصل ایک پیمانہ ہے جو یہ بتاتا ہے کہ کونسا ملک ہر سال کتنے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ماحول میں کرتا ہے۔ یہ اخراج مختلف عوامل پر منحصر ہے۔ مثال کے طور پر زراعت میں ہونے والی سرگرمیاں، گوشت کی پیداوار، ذرائع آمد و رفت، صنعتی پیداوار اور لوگوں کا رہن سہن وغیرہ وغیرہ۔جس ملک کی کاربن ایمیشن زیادہ ہو اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ ملک ماحولیاتی تبدیلی کا سب سے بڑا ذمہ دار ہے۔
اگر ہم اعداد و شمار پر نظر دوڑائیں تو دنیا میں 1950 تک کل کاربن ایمیشن تقریباً 6 ارب ٹن تھی۔ یعنی 6 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ بلواسطہ یا بلاواسطہ فضا میں خارج ہو رہی تھی۔1990 میں یہ چار گنا بڑھ کر 22 ارب ٹن تک پہنچ گئی۔اور آج یہ 35 ارب ٹن سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔
بیسویں صدی کے آغاز سے وسط تک دنیا میں سب سے زیادہ کاربن ایمیشین کرنے والے ممالک میں امریکہ، یورپین یونین اور روس شامل تھے۔انکی مجموعی کاربن ایمیشن، دنیا کی کل ایمیشن کا 90 فیصد تھی۔ پھر 1950 کے بعد ایشیائی ممالک جیسے کہ چین، بھارت، سعودی عرب، انڈونیشا، وغیرہ میں آبادی کے بڑھاؤ اور صنعتی ترقی سے ان ممالک نے بھی کاربن ایمیشن میں خاطر خواہ حصہ ڈالنا شروع کیا۔
آج یہ حال ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک دنیا کی کل کاربن ایمیشن کا ایک تہائی پیدا کرتے ہیں جبکہ باقی چین، بھارت اور مشرقِ وسطی کے کئی ممالک کے کھاتے میں ہے۔
اس ضمن میں اگر ہم یہ دیکھیں کہ کس ملک کا شہری اپنی نجی، معاشی اور معاشرتی سرگرمیوں کے باعث کتنی کاربن ایمیشن کرنے کا قصوروار ہے تو ہمیں اس ملک کی کل کاربن ایمیشن کو اسکی آبادی پر تقسیم کرنا ہو گا۔اسے کاربن ایمیشن پر کیپیٹا کہا جاتا ہے۔
اگر ہم یہ تناسب دیکھیں تو اس میں کئی خلیجی ممالک سرِ فہرست ہیں۔ مثال کے طور پر 2017 کے اعداو شمار یہ بتاتے ہیں کہ قطر کا ایک فرد سال میں 50 ٹن کاربن ایمیشن کرتا ہے جبکہ کویت یا متحدہ عرب امارات کا 25 ٹن۔
اگر نظر دوڑائی جائے تو بھارت کو چھوڑ کر کاربن ایمیشن پھیلانے والے تمام ممالک ترقی یافتہ ہیں جہاں ہر کسی کو بہتر سہولیات میسر ہیں۔ ان ممالک کے پاس وسائل کی کمی نہیں یا بہتر وسائل ہیں۔ لہذا یہ ممالک قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے زیادہ بہتر حکمت عملی اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہیں۔ جس سے بروقت جانی و مالی نقصانات سے بچا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں اب ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے باخبر ہو کر یہ متبادل توانائی کے ذرائع کے حصول کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔
اگر ہم کاربن ایمیشن کو دیکھیں تو پاکستان کا اس میں حصہ بے حد کم ہے۔۔ 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان ہر سال تقریباً 202 کلو ٹن کاربن ایمیشن کرتا ہے جو دنیا کے کل ایمیشن کا 0.6 فیصد سے بھی کم ہے۔ یہ اس لیے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں صنعتی پیداوار کم ہے۔ بیشتر آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے اور ذرائع آمد و رفت اور رہن سہن سادہ ہے۔ مگر پھر بھی پاکستان ماحولیاتی تبدیلی کا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ جو ہر سال آنے والے قحط، سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات سے نبرد آزما رہتا ہے۔
اس تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ و داخلہ پالیسیوں کا محور ماحولیاتی تبدیلی اور اسکے ممکنہ اثرات کو رکھے۔ کیونکہ یہ مسئلہ معیشت اور یہاں بسنے والے افراد اور اُن کی آئندہ نسلوں کی بقا کے لیے سب سے اہم ہے۔ داخلی پالیسیوں میں ماحولیات کا تحفظ، شجرکاری، عوام میں ماحول دوست عادتیں اور اطوار پھیلانے کی کوشش، بہتر قانون سازی اور ماحول دوست توانائی کے متبادل ڈھونڈنا شامل ہیں۔
جبکہ خارجی پالیسیوں میں دیگر ممالک کو 2016 میں ہونے والے عالمی ماحولیاتی معاہدے Paris Climate Accord پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے جسکے تحت 2050 تک دنیا میں کاربن ایمیشن میں خاطر خواہ کمی اور اوسط درجہ حرارت کو 2 ڈگری سے زیادہ بڑھنے سے روکنا شامل ہے۔علاوہ ازیں ہمیں ماحولیاتی اثرات سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ اور مستقبل میں قدرتی آفات سے بہتر نپٹنے کے لیے مالی وسائل اور ٹیکنالوجی کے حصول پر بھی زور دینا چاہئے۔ دراصل یہ امداد نہیں بلکہ ہمارا حق ہو گا کیونکہ ںس معاملے میں پاکستان پر آنے والی ماحولیاتی تباہییوں کی وجہ انہی ترقی یافتہ ممالک کی صدیوں سے ہونے والی کاربن ایمیشن ہے۔
اس ماحولیاتی دہشت گردی کا شاخسانہ ترقی یافتہ ممالک ہیں جو ماحول کو بگاڑ کر خود مزے کر رہے ہیں اور بھگت پاکستان اور دیگر افریقی و ایشیائی ممالک کی غریب عوام رہی ہے۔