تگڑا کون؟
وقاص احمد
تمہارے خیال میں اپنے ملک کا سب سے تگڑا بندہ کون ہے۔ چیونگم چباتے ہوئے اس نے اچانک ایک سوال اچھالا۔
میں نے کہا یار اگر اپنے ملک کا انتظامی ڈھانچہ دیکھو تو ہر ضلع کا ڈی پی او بہت تگڑا اور بارسوخ بندہ ہوتا ہے۔
“ڈی پی او؟” وہ ہنسا، “وہی جس کو اس کا اپنا آئی جی پولیس ہی لوگوں سے معافی منگواتا ہے اور بصورت دیگر کھڈے لائن لگانے کے لیے کافی ہے؟”
میں نے کہا کہ تم ٹھیک کہہ رہے ہو، آئی جی پولیس ویسے بھی تو 22 گریڈ کی ایک تگڑی پوزیشن ہے، وہی زیادہ طاقتور ہے۔
وہ پھر ہنسا “آئی جی پولیس؟ سچی؟ وہی آئی جی پولیس جس کو وزیراعظم اپنی اور اپنے یاروں کی فرمائشیں پوری نا کرنے پر بیٹھے بیٹھے ٹیلی فون پر فارغ کر سکتا ہے؟”
میں پھر لاجواب ہوگیا اور بولا “یار اصولاً ایسا ہونا تو نہیں چاہیے لیکن واقعی اپنے ملک میں وزیراعظم ایسا کر سکتا ہے اور اس حساب سے سب سے تگڑا بندہ وزیراعظم پاکستان ہی ہے”۔
اب کی بار تو وہ اتنا ہنسا کہ اس کے انکھوں سے پانی بہنے لگا، انکھیں صاف کرتا ہوا بولا “وزیراعظم ہاہاہاہاہاہاہا، وہی وزیراعظم جس کی اوقات اتنی ہے کہ ایک جج اسے تصوراتی تنخواہ نا لینے پر اٹھا کر نا صرف باہر پھینک سکتا ہے بلکہ تاحیات نااہل بھی کر سکتا ہے؟”
میرے پاس تسلیم کئے بنا چارہ نہیں تھا، “یار واقعی اس حساب سے تو واقعی جج زیادہ طاقتور ہوا”۔
اب کی بار تو وہ زمین پر لیٹ کر قہقہے لگانے لگا۔ اتنا ہنسا کہ مجھے الجھن ہونے لگی۔ پھر بولا “ججز؟؟ ابے ان کی اوقات تو واٹس ایپ پر نامعلوم نمبر سے آنے والی ایک حوالداری کال ہے, باقی تمام افسران کو تو ان کے افسران بالا ہی رگڑا دے سکتے ہیں مگر ایک 22 گریڈ کے چیف جسٹس کا دماغ تو 18-19 گریڈ کا کوئی کرنل برگیڈیئر ہی سیٹ کر دیتا ہے”۔
اب میں سمجھ گیا کہ یہ گفتگو کس طرف لے جارہا ہے اس لیے اس دفعہ تو پورے اعتماد سے بولا “ارے جاہل غدار انسان، اب میں سمجھا کہ تم نے یہ پوری تمہید تو اپنا پرانا رونا دھونا ڈالنے کے لیے باندھی تھی کہ کسی طرح فوج کو آئین شکن غاصب قرار دے کر اپنی ازلی جلاپا نکالو۔ سڑو سڑو، اور سڑو غیر ملکی ایجنٹ، ان کرپٹ سیاسدانوں کو نتھ ڈالنے کے لیے اگر آرمی چیف طاقتور بندے کا کردار ادا کرتے ہیں تو مجھے دل و جان سے قبول ہے۔”
وہ ہنستے ہنستے اچانک خاموش ہو گیا اور ایک سرد نظر سے میری طرف دیکھا۔ برف کی طرح چھبتی ہوئی سرد نظر جس کی ٹھنڈ میں نے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں اترتی ہوئی محسوس کی، میرے قریب ہوا اور سرگوشی میں بولا “آرمی چیف؟ وہی آرمی چیف جس کو وہیل چئیر پر بیٹھا ایک معذور غنڈہ کافر، واجب القتل اور نجانے کیا کیا کہہ گیا، یہاں تک کہ اس کے ادارے کو بغاوت پر اکسا گیا اور یہ کبھی تو اپنے نائبین بھیج کر ان میں ہزار ہزار روپیہ بانٹ کر رام کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کبھی گھر میں محفل میلاد کروا کر اپنے پر لگے کفر کے الزام کو دھونے کی کوشش کرتا ہے”۔
میں بالکل خاموش ہوگیا، وہ پیچھے ہٹا اور ایک زور دار تالی بجا کر دونوں ہاتھ بلند کیے اور وحشت بھری اونچی آواز میں بولا “تو پھر پتہ لگا کہ کون ہے اس ملک کا طاقتور ترین آدمی؟”
(متبادل مختلف موضوعات پر متنوع خیالات اور نکتہ ہائے نگاہ سے ماخوذ ہے۔ کسی مصنف کی رائے سے متبادل کا متفق یا نا متفق ہونا ضروری نہیں۔)