تھر کے صحرا میں جاری موت کا رقص اور حکمرانوں کی خاموش

حیدر راجپر

اس سال تھر کے باسیوں کو یہ امید تھی کہ شاید بارشیں ان کی روٹھی ہوئی قسمت کو منا کر لائیں گی ، لیکن بدقسمتی سے ایک مرتبہ پھر بارشیں نہ ہوئیں جس وجہ سے قحط سالی نے شدت اختیار کرلی۔

گزشتہ 4 سالوں میں قحط سالی کی وجہ سے 2460 بچے ہلاک ہوچکے تھے ۔ رواں سال بھی 493 بچے موت کی نیند سوچکے ہیں اور ان بچوں کو لوری سنانے والی مائیں بھی خودکشیاں کر رہی ہیں۔

اموات کی اس شرح کو کم کیا جاسکتا ہے مگر حکمران جان بوجھ کر غفلت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

متعدد بار تو سندھ اسمبلی میں موجود فرشتے منرل واٹر کی بوتل سامنے رکھ کر یہ تک کہہ چکے ہیں کہ ” ہم نے تھر کو پیرس بنا دیا ہے” ۔ آپ کو اگر پیپلزپارٹی کا وہ پیرس دیکھنا ہے تو ایک مرتبہ تھر کا چکر ضرور لگائیں آپ کو پیرس کے بچے تڑپ تڑپ مرتے ہوئے دکھائی دینگے۔

چند دن قبل ایک صحافی دوست نے بتایا تھا کہ تھر کے علاقے امرکوٹ میں امدادی سامان کے بدلے تھریوں کو انتہاپسندوں کی جانب سے لشکرطیبہ میں شامل کیا جارہا ہے ۔ اب حکومت تھریوں کے ساتھ مکمل لاتعلقی اختیار کرے گی تو پھر ایسا ہی ہوگا۔

ماضی میں عمران خان بھی تھر کے حوالے سے حکومتوں پر تنقید کرتے رہے ہیں ۔ لیکن ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد خان صاحب نے 40 ہزار ٹن گندم افغانستان کو تحفہ دینے کا اعلان تو کیا مگر انہوں نے دیگر حکمرانوں کی طرح تھر کے باسیوں کو نظرانداز کردیا ۔

خان صاحب ہمیشہ حضرت عمرؓ کی مثالیں دیا کرتے ہیں اور پاکستان کو مدینے کی ریاست بنانے کے خواہشمند بھی ہیں ، تو یقیناً ان کو حضرت عمرؓ کا وہ فرمان بھی یاد ہوگا کہ “دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک اور پیاس کی وجہ سے مرجائے تو اس کا ذمہ دار میں ہوں ” ۔ خان صاحب ! دریائے فرات کے کنارے کتے نہیں آپ کی ریاست میں انسان مر رہے ہیں۔