جب ریاست سوتیلی ماں بن جائے!
عابد حسین
صوبہ خیبرپختونخواہ میں حکمران جماعت تحریک انصاف کو سادہ اکثریت حاصل ہے۔ جس کے بناء پر صوبائی حکومت بغیر کسی دقت کے کوئی بھی بل پیش کرکے اس کو مخالفت کے باوجود پاس کرکے قانون کا حصہ بنادیتی ہے۔ نومبر میں بھی کچھ ایسا ہی کیا گیا۔ جب صوبائی وزیر برائے معدنیات و قدرتی وسائل امجد علی خان نے خیبرپختونخواہ اسمبلی میں منرل سیکٹر گورننس ترمیمی بل 2019 پیش کیا۔ بل میں تجویز دی گئ ہے کہ خیبر پختونخواہ کے قبائلی اضلاع (سابقہ فاٹا) کے معدنی ذخائر کو ریاستی ملکیت قرار دے کر سرکاری تحویل میں لیا جائے۔ بل پیش ہونے کے بعد جب اپوزیشن اراکین نے مذکورہ آئینی تجویز پر بات کرنے کی کوشش کی تو خیبر پختونخواہ اسمبلی کے اسپیکر جناب مشتاق غنی نے انہیں بحث کرنے سے روک دیا اور صوبائی اسمبلی کے قانون خیبرپختونخواہ صوبائی اسمبلی رول 82 اور خیبرپختونخواہ پروسیجر اینڈ بزنس کنڈکٹ 1988 کے تحت اپوزیشن کو موقع دیئے بغیر یا کسی بحث و مباحثے کیئے بغیر پیش کیئے گئے ترمیمی بل کو فوری طور پر پاس کرکے قانون کا حصہ بنا دیا گیا۔ حکومت کے اس قدم کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کے اراکین اسمبلی نے احتجاج بھی کیا کہ حکومت نے غیر جمہوری اور آمرانہ طرز اپنایا ہے اور اپنی خواہشات کے مطابق قانون سازی کررہی ہے۔
دوسری جانب حکمران جماعت تحریک انصاف کے صوبائی وزیر برائے قانون و پارلیمانی امور سلطان محمد خان نے کہا کہ معدنی وسائل کو اس لیئے سرکاری تحویل میں لیا جارہا ہے تاکہ قبائلی اضلاع کے عوام وسائل اور جائیداد کے ملکیت کے معاملے پر آپس میں لڑائی جھگڑا نہ کریں۔ یہ سراسر غیرمنطقی بات ہے کیونکہ سابقہ فاٹا کے خیبرپختونخواہ میں انضمام سے پہلے معدنیات اور قدرتی وسائل قبائلی عوام کی ملکیت تھیں اور مختلف اقوام یا شجرہائے انساب میں تقسیم تھیں۔ پہلے قبائلی عوام ان وسائل جو کوئلے، سونا، چاندی، تانبہ اور قیمتی پتھر کرومائیٹ وغیرہ پر مشتمل ہیں۔ قبائلی ان وسائل کا ٹھیکہ ان رجسٹرڈ افراد اور کمپنیوں کو دیتے تھے جنہیں حکومت کی طرف سے اجازت نامہ ملا ہوتا تھا۔ اس طرح حکومت عوام اور ٹھیکہ داروں کے درمیان سہولت کار کا کردار ادا کرتی تھی۔ یہی کاروبار قبائلی عوام کے روزی روٹی ہوا کرتا تھا۔ قبائلی اضلاع نے طالبانائزیشن اور فوجی آپریشنز کی وجہ سے بہت نقصان اٹھایا ہے۔ ان کی وجہ سے وہاں کا انفراسٹرکچر تباہ ہوگیا ہے، کاروبار کے مواقع ناپید ہیں اور زمینیں بنجر ہوچکی ہیں۔ یہی قدرتی ذخائر قبائلی عوام کی کل کائنات ہیں۔ مگر اب خیبرپختونخواہ حکومت نے یہ دلیل دے کر کہ قبائلی اضلاع کے عوام ان وسائل کے لیئے آپس میں اکثر لڑتے رہتے ہیں تو ان کو سرکاری تحویل میں لینے سے ان جھگڑوں کا خاتمہ ہوگا۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ دو بھوکے آپس میں روٹی کے لیئے لڑرہے ہو اور آپ بجائے ان کے درمیان صلح کروائیں بلکہ وہ روٹی خود کھالیں۔
حکومت کے اس آمرانہ قانون اور جابرانہ طرز عمل کے خلاف پختونخواہ اسمبلی کی اپوزیشن جماعتوں نے نا صرف اسمبلی میں احتجاج ریکارڈ کروایا بلکہ خیبر پختونخواہ اور قبائلی اضلاع کے منتخب اپوزیشن اراکین نے یہ فیصلہ کیا کہ نا صرف اس قانون کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے بلکہ روزانہ کی بنیاد پر وزیر اعلی ہاوس کے سامنے احتجاج ریکارڈ کروائیں گے۔ یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب تک صوبائی حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی نہیں کرتی۔
یہ سچ ہے کہ ریاست کے اندر تمام جائیدادیں ریاستی ملکیت تصور کی جاتی ہیں۔ اگر کبھی ریاست کو اس کی ضرورت پڑتی ہے تو ریاست کو حق ہے کہ اس جائیداد یا زمین وغیرہ کو اپنی تحویل میں لے لے لیکن اصول تو یہ ہے کہ اگر آپ کسی شہری کی جائیداد کو اپنی تحویل میں لیتے ہیں تو بدلے میں اس کے لیئے کوئی متبادل انتظام کرتے ہیں۔ قبائلی عوام کی زمین جائیدادیں زیادہ تر پہاڑوں پر مشتمل ہیں۔ انہی پہاڑوں کے اندر مختلف قدرتی وسائل موجود ہیں جن سے قبائلی اضلاع کے عوام کی روزی روٹی منسلک ہے۔ اگر ان کی جائیدادیں اس طرح سرکاری تحویل میں لے لی جائیں تو ان کے پاس کچھ نہیں بچتا سوائے اکھڑی ہوئی سڑکوں، پرانے مکانوں اور مسمار دکانوں کے۔ بقول صوبائی وزیر قانون کہ اگر کہیں پر قبائلی عوام کے درمیان کسی زمین، پہاڑ یا کان وغیرہ پر اختلاف چل بھی رہا ہو تو حکومت کو ان کے درمیان صلح کرانی چاہیے۔ جرگے کے ذریعے معاملات سلجھانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔
ہاں اگر حکومت ہرقیمت پر قبائلی عوام سے ان کے وسائل چھیننا چاہتی ہے تو پھر ان کے لیئے بدلے میں پہلے روزگار کا بندوبست کرنا چاہیے تھا، ملازمت مہیا کرنا چاہیے تھا یا ان کی ملکیت کو اپنی تحویل میں لے کر اس کا معاوضہ ادا کرنا چاہیے تھا یا منافع میں ایک معقول حصہ مقرر کرنا چاہیے تھا۔ حکومتیں تو آنی جانی ہیں لیکن ریاست کو قائم رہنا ہے۔ ریاست کے شہری ہی اس ریاست کا اہم ترین بلکہ لازمی جزو ہیں۔ اگر ریاست سے شہری ہی نکال دئیے جائیں تو ریاست کب ریاست رہتی ہے پر یہاں تو عجیب قسم کی بے تکی دلیل اور منطق پیش کی جاتی ہیں کہ بھائیو! ہم اس لیئے شہریوں کی جائیدادوں پر قابض ہورہے ہیں تاکہ یہ آپس میں نا لڑیں۔ خیبرپختونخواہ حکومت کو اس قانون کو واپس لینا چاہیے اور قبائلی عوام کو انکے وسائل کے استعمال اور ان سے فائدہ اٹھانے کا حق دینا چاہیے۔ حکومت کو ایک شفیق اور مخلص باپ کا کردار ادا کرنا چاہیے نا کہ سوتیلی ماں جیسا۔