جب محافظ “سانپ کے بچے” بن جائیں

عابد حسین 

سلطنت عثمانیہ کے پہلے سلطان عثمان اول نے اپنی زندگی میں چھوٹے بیٹے اُورخان کو دولتِ عثمانیہ کا تاجدار نامزد کیا۔ اُس وقت اُورخان کی عمر بیالیس برس تھی۔ تخت پر براجمان ہونے کے بعد سلطان اُورخان کے دل ودماغ پر دنیا کو فتح کرنے کا جنون سوار ہوا۔ اُس نے پہلے خود فنِ حرب میں کمال مہارت حاصل کی۔ پھر اسے بڑی تعداد میں جنگی تربیت یافتہ فوج کا نہ ہونا دنیا فتح کرنے کی خواہش میں رکاوٹ محسوس ہوا تو سلطان نے بہادر جنگجوؤں کی مستقل فوج تیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ سلطان اُورخان نے مستقل فوج بھرتی کرنے کا حکم نامہ جاری کیا۔ اِن بھرتی ہونے والے فوجیوں کےلیئے معاوضہ مقرر کیا گیا۔ ان کی تربیت، رہائش اور طعام وغیرہ سلطنت نے اپنے ذمہ لیا۔ سلطان اُورخان  کا ایسا کرنا لوگوں کےلیئے حیران کن تھا کیونکہ اس سے پہلے جنگوں میں شامل ہونے کےلیے مختلف جگہوں پر سرکاری اعلان کرا دیئے جاتے تھے۔ لوگوں کو وقت اور مقام سے آگاہ کر دیا جاتا اور لوگ رضاکارانہ طور پر خود کو جنگ کےلیے پیش کر دیا کرتے تھے۔ جب جنگ ختم ہوتی تو حاصل ہونے والا مالِ غنیمت ہی معاوضے کے طور پر اِن رضاکار جنگجوؤں میں بانٹ دیا جاتا۔ سلطان اُور خان کے مستقل معاوضے(تنخواہ) سے لوگوں کے فوج میں شامل ہونے کا شوق بڑھ گیا۔ فوج کا نام ینی چری(نئی فوج) تجویز ہوا۔ ہر سال ایک ہزار تندرست و توانا نوجوان بھرتی کیئے جاتے پھر انہیں فوجی تعلیم اور سخت فوجی تربیت دی جاتی۔ سلطنت عثمانیہ کی حفاظت اور جنگوں میں بہادری کے کارنامے دکھانے کی وجہ سے ینی چری (فوج ) کی سلطنت کےلیئے اہمیت اور عوام میں قدر بہت زیادہ بڑھ گئی۔ ان سپاہیوں کو رہائشیں دی گئیں کمانڈروں اور جرنیلوں کو زمینیں الاٹ ہونے لگیں۔

سلطنت عثمانیہ میں ینی چری فوج کے سلسلہِ عروج کے تین سو سال گزرے اور اس دوران پچیس سلطانوں کے ادوار گزر گئے۔ جب سلطان سلیم سوئم کا زمانہ آیا تو اس وقت ینی چری فوج کی تعداد دیڑھ لاکھ  رجسٹرڈ ہو چکی تھی۔ یہ وہ وقت اور زمانہ تھا جب دنیا علم کی کروٹ لے رہی تھی۔ سلطان سلیم سوئم بھی فوج پر زیادہ توجہ دینے، جنگیں لڑنے اور دفاعی شعبہ میں اخراجات بڑھانے کے بجائے تعلیمی ادارے قائم کرنے کی طرف مائل ہوا۔ اُس نے سرکاری سطح پر کتب خانے بنوائے۔ فرانسیسی علوم کی کتابوں کا ترکی زبان میں ترجمہ کراوایا کہ لوگوں میں سیاسی شعور اور سیاسی تربیت کا رجحان پیدا کیا جاسکے۔ سلطان کے اسی دور میں لندن، پیرس، ویانا اور برلن وغیرہ میں ترک سفارتیں بھی قائم ہوئیں۔ سلطان سلیم سوئم کی طرف سے فوج پر خاص توجہ نہ دینے کی وجہ سے فوج میں یہ سوچ پنپنے لگی کہ ملک اگر قائم ہے تو ہماری وجہ سے ہے۔ اگر ہم فوجی نہ ہوتے تو ملک نہ ہوتا۔ قربانی ہم فوجی دیتے ہیں جبکہ اختیارات سلطان کے پاس ہیں۔ حفاظت کرنا ہمارے (فوج) ذمہ ہے، علاقے فتح کرنا ہماری ذمہ داری ہے لیکن فوج سے کاروبار اور معاملاتِ سلطنت میں مشورہ تک نہیں لیا جاتا۔

فوج کی یہ سرگوشیاں سلطان سلیم سوئم تک بھی پہنچیں۔ سلطان نے ینی چری فوج کے سربراہ جرنیلوں کو اپنی وضع کردہ تعلیمی پالیسیوں سے جڑے مستقبل میں نتائج اور تعلیم کی قدرواہمیت سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ اس مقصد میں ناکام رہا کیونکہ طاقت فوج کے پاس تھی سلطان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کہ فوج کو امورِ سلطنت میں شریک کیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا تھوڑے ہی عرصے بعد تمام سلطنتی عہدوں پر ریٹائرڈ  فوجی افسر نظر آنے لگے اور ان کا اثر اتنا بڑھ گیا کہ سلطان فقط نام کا سلطان رہ گیا۔ فوج جسے چاہتی تخت پر بٹھا دیتی جسے چاہتی اتار دیتی۔ فوجی اجلاسوں میں ملکی دفاع سے زیادہ اس بات پر مشاورت ہونے لگی کہ سلطان سے اپنے لیے کون سی نئی مراعات حاصل کی جائیں اور کون سا سلطان کیسے لایا یا ہٹایا جائے۔ سلطان سلیم سوئم اس صورتحال سے پریشان ہو کر رہ گیا۔ سلطان نے اپنے دانا و مخلص وزراء اور رفقاء سے مشورہ کرنے کے بعد فوج میں کچھ اصلاحات لانا ضروری سمجھا۔ جب ان اصلاحات کے نافذ کرنے کا اعلان ہوا تو ینی چری فوج نے ان اصلاحات کو خود پر نافذالعمل کروانا اپنی توہین سمجھ کر ٹھکرا دیا۔ ان اصلاحات کے خلاف مفتی اعظم سے فتویٰ حاصل کیا اور اس فتوے کی آڑ میں ینی چری فوج قصرسلطانی میں داخل ہو گئی۔

سلطان سلیم سوئم نے صورتحال کو دیکھتے ہوئے اصلاحات منسوخ کر دیں مگر فوج نے انہیں نظر بند کر دیا۔ سلطان کو فوج میں ایسی اصلاحات لانے کا مشورہ دینے والے تمام وزراء و اکابرین کو میدانِ آت  میں لا کر ینی چری فوجیوں نے بے دردی سے قتل کیا، قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ دو دن تک جاری رہا۔ ان حرکتوں کی وجہ سے لوگوں کی نظر میں ینی چری فوج کی قدر و منزلت کم ہوگئی۔ جنگ اور دفاع کی بجائے عوامی معاملات میں مداخلت کرنے کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں فوج کےلیے نفرت پیدا ہوگئی۔ پھر ایک وقت آیا کہ جس ینی چری فوج سے لوگ اظہارِِ محبت کے تعریفی گیت گایا کرتے تھے اسی محافظ فوج کو سرعام  “سانپ کے بچے” کہہ کر پکارنے لگے۔ نجی محفلوں میں یہ تذکرے دیدہ دلیری سے ہونے لگے کہ ہم تو اس ینی چری فوج کو دشمن سے لڑنے کےلیے دودھ پلاتے ہیں مگر یہ سانپ کے بچے ہمیں ہی ڈسنے لگے ہیں۔ یہ حالات دیکھ کر ینی چری فوجی اپنی ہی عوام پر سختیاں کرنے لگی۔ عوام پر خوف مسلط رکھنے کےلیے لوگوں کو اذیت ناک سزائیں دی جانے لگی اور صدائے ہوش دینے والوں کی جائیداد سزا کے طور پر ضبط کی جانے لگی۔

سلطان سلیم سوئم کو ینی چری فوج نے نظر بند کر رکھا تھا اور اقتدار کی اصل دیوی یعنی ینی چری فوج کی حمایت سے مصطفیٰ چہارم تخت پر بیٹھا تھا لیکن محض تیرہ ماہ بعد عوامی جدوجہد اور مصطفیٰ چہارم کی نالائقیوں کے سبب سلسلہ اقتدار سلطان محمود دوم تک جا پہنچا۔ سلطان محمود دوم کو بھی فوج کا امورِِ سلطنت میں بے جا مداخلت کرنا پسند نہ تھا کیونکہ فوج کا اصل فرائض کی طرف توجہ نہ دینا سلطنت کےلیے نقصان کا سبب بن رہا تھا سلطان محمود دوم نے پہلے اصلاحات نافذ کرنے کے بجائے ایک عجیب پالیسی مرتب کی اس نے پہلے ینی چری فوج کے سپاہیوں کی تعداد کم اور تنخواہ دوگنا کرنے کا اعلان کیا ایسا کرنے سے ینی چری فوجی سلطان کی حکمت عملی نہ سمجھ سکے۔ جب فوج کی تعداد آدھی رہ گئی تو ایسے بڑے فوجی افسر جو حکومتی مرتبوں میں دل چسپی رکھتے اور سازشوں میں ملوث نظر آتے ان کی فہرست مرتب کی گئی۔ ان تمام فوجیوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا گیا اور ساتھ ہی تمام علاقوں میں سابقہ طرز کے اعلان کرائے گئے جیسے ماضی میں لوگوں کو جنگوں میں شامل ہونے کی دعوت دی جاتی تھی۔

پھر وہ وقت بھی آیا کہ ان سازشی فوجیوں کو عین اسی جگہ تہہ داغ کرنے کا حکم دیا گیا جہاں کچھ عرصہ قبل یہ فوج  اصلاحات پسندوں کو قتل کر رہی تھی۔ بہ وقت سزا میدانِ آت لوگوں سے بھرا ہوا تھا مگر لوگوں کے مزاج بدل چکے تھے کچھ سال پہلے ینی چری فوج کو اپنا محافظ سمجھ کے احترام کرنے والے اب فوجیوں کو سزائے موت ہونے پر آزادی کے گیت گا رہے تھے۔