لبرل پارٹی کینیڈا کے رہنما، کینیڈا کے 23 ویں ، وزیراعظم، دنیا کےمقبول ترین رہنماؤں میں سے ایک انتہائی خوش مزاج دلفریب عاجزانہ اور عوامی شخصیت کے مالک چھیالیس سالہ جسٹن ٹروڈو جنہیں دیکھ کر الف لیلی کی کہانیوں میں موجود فارس کے خوب رو اور عادل بادشاہ کی یاد آتی ہے، جو عوام میں ہر دل عزیز ہوا کرتا تھا۔ لبرل پارٹی اور خصوصاً جسٹن ٹروڈو کے دور میں کینیڈا دنیا بھرکے پناہ گزینوں کی جنّت بنا ہوا ہے- جسٹن ٹروڈو کبھی شامی پناہ گزینوں کو کینیڈا کی سرحد پر خوش آمدید کرتے اور کبھی کینیڈین مسلمانوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر افطار کرتے دکھائی دیے کبھی دیوالی کے دیپ جلا کر تو کبھی تامل کمیونٹی کے ساتھ پونگل کا تہوار منا کر اپنی عوام کی خوشی میں خوش ہوتے نظر آئے۔ المختصر یہ کہ جسٹن ٹروڈو کینیڈا میں بسنے والی ہر ایک کمیونٹی کی خوشی اور غم میں ان کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ جسٹن ٹروڈو نے ہمیشہ انسانیت، انسانی حقوق، کینیڈا کے اصل النسل اقوام کے حقوق اور کم آمدنی والے متوسط طبقے کی فلاح و بہبود کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ دنیا کے چند خوش حال اور پر امن ممالک میں سے ایک ملک کینیڈا کے سربراہ ہونے کے باوجود بھی جسٹن ٹروڈو ہمیشہ جوش و جذبات سے بھرپور عام انسان کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ آج کینیڈا کی اجتماعیت اور جسٹن ٹروڈو کی انسان دوست فطرت کو دیکھ کر مسلمانوں پرگزرا وہ وقت یاد آتا ہے جب
چھٹی صدی عیسوی کے اوائل میں قریش و دیگر قبائل نے مکّہ میں ایک نیا مذہب ’اسلام‘ اختیار کرنے والے افراد پر زندگی تنگ کر دی تھی تو اس وقت محمد صلی اللہ وسلم نے مسلمانوں کو مسیحی ریاست حبشہ کی طرف پناہ کی غرض سے ہجرت کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ وہاں کا بادشاہ نیک اور انسان دوست ہے۔
جسٹن ٹروڈو نے جوش خطابت اور معتصب بیانات کے بجائے اپنے مہذب انداز گفتگو، اپنی مسکراہٹ اور اپنی سیاست سے لوگوں کے دل جیتے ہیں۔
دوسری جانب کینیڈا کے ایک عام پاکستانی شہری اور پاکستان کی ایک سیاسی جماعت عوامی تحریک کے قائد جناب طاہرالقادری جو پبلک آفس کا نا کوئی عہدہ پاس رکھتے ہیں اور ناہی سیاسی طور پر ان کی جماعت پاکستانی سیاست پر کچھ خاص اثر رکھتی ہے مگر اس کے باوجود بھی جناب طاہرالقادری صاحب پاکستان کے سیاسی منظرنامے اور پاکستانیوں پر سخت سردی کے موسم میں آندھی طوفان کی طرح ایسے نازل ہوتے ہیں جیسے پاکستانی عوام کی سیاسی سمجھ بوجھ سے زیادہ ان کے ایمان کا امتحان لے رہے ہوں اور جاتے جاتے پاکستان کی عوام کے جان ومال، وقت یا اعتبار کا کچھ نا کچھ نقصان کر ہی جاتے ہیں۔ موصوف کینیڈا کے امن پسند شہری ہیں مگر پاکستان میں ہمیشہ خدائی فوج دار کی طرح نمودار ہوتے ہیں کہ جیسے ابھی ابھی خدا نے انہیں خلعت خلافت عطا کر کے بھیجا ہو اور پاکستان کے کرپٹ نظام، حکمران و اشرافیہ پرعذاب الہیٰ ان کی بددعا اور لعنت پر آیا ہی چاہتا ہو۔
جناب طاہرالقادری صاحب کا ڈرامائی انداز، گھن گرج، شان و شوکت، پرتعیش کنٹینر اور اطراف میں کارکنوں کا لشکر دیکھ کر کہیں سے بھی محسوس نہیں ہوتا کے جناب کسی عوامی تحریک کے عوامی رہنما ہیں۔ نظام مصطفیٰ کی بات کرنے والے مذہبی رہنما اکثر محمد مصطفی صلی اللہ وسلم کی سادگی، عاجزی، مدھم و سہل انداز گفتگو اور فرش نشینی کی سنت کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔
اقبال سچ ہی کہتے ہیں
اقبال بڑا اپدیشک ہے،من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا غازی تو یہ بنا، کردارکاغازی بن نہ سکا
پاکستان میں سیاستدان اور مذہبی رہنما ہمیشہ عوام سے قربانی مانگتے ہیں اپنی پرتعیش زندگی کے بلبلوں میں قید یہ لوگ عوام سے اس قدر فاصلے پر ہیں کہ انہیں عوام کی بے بسی اور بدحالی دکھائی ہی نہیں دیتی۔ ان کی آنکھوں میں تو بس امیر سلطنت اور امیر خلافت کی مسندوں کے خواب سجتے ہیں۔ پاکستان پر اگر خدا نخواستہ کوئی برا وقت آیا تو یہ سب لندن، سعودیہ یا کینیڈا کوچ کر جائیں گے، نجانے کیوں کینیڈا کے پرامن شہری پاکستان میں دھرنا ڈالنے کیوں چلے آتے ہیں۔
کوئی انہیں بتائے کے پاکستانی عوام کو کسی ایمپائر،انصاف مین یا دھرنا مین کی نہیں بلکہ جسٹن ٹروڈو جیسے جینٹل مین کی ضرورت ہے۔
جناب طاہرالقادری صاحب ایک وسیع علمی اثاثے کے مالک اور علمی شخصیت ہیں۔ ان کا شمار دین کے اصولی و فروعی معاملات، بین الاقوامی تعلقات اور مذہبی رواداری کے حوالے سے وسیع القلب و ذہن رکھنے والےاسکالرز میں ہوتا ہے۔ علمی شخصیت کا عوامی ہونا نہایت ضروری ہے عملی سیاست نظریات کا اطلاقی میدان اور عمل کی بھٹّی ہے۔ اگر آپ واقعی پاکستان اور پاکستانی عوام کا درد رکھتے ہیں تو عوامی گدڑی اوڑھ کر فقیری رنگ اختیار کریں۔ گوتم بدھ، ابو بن ادھم اور مولانا روم کو بھی جاہ و ہشم و منصب تیاگ دینے کے بعد حقیقی گیان ملا تھا اور زیادہ تر انبیاء نے مویشی ہی چراتے تھے۔