جمہوریت کے نام پر حکمران طبقے کی آپس کی لڑائی اور پس پردہ محرکات
تحریر: آدم پال
ترجمہ: عابد حسین
پاکستان کو اس وقت سیاسی، آئینی اور معاشی بحران کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت کو بھی تحریک عدم اعتماد کا سامنا ہے۔ عمران خان حکومت کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے 3 اپریل کو تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ کے ہی روز اپوزیشن کی جانب سے پیش کیئے گئے تحریک کو غیر آئینی قرار دے کر مسترد کیا اور وزیر اعظم عمران خان نے صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش کی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس آئینی بحران کا از خود نوٹس لیا اور تین روز کی سماعت کے بعد 7 اپریل کو اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دے کر اسمبلی بحال کرنے اور 10 اپریل کو اسمبلی اجلاس بلانے اور عدم اعتماد کا ووٹنگ کرنے کا حکم صادر کیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے سے حکمران جماعت خوش نظر نہیں آرہی اس لیئے عمران خان نے اپنی رہائش گاہ بنی گالہ میں تحریک انصاف کور کمیٹی کا اجلاس بلالیا۔ جس میں موجودہ حالات پر مشاورت ہورہی ہے۔ قوی امکان یہ تھا کہ عمران خان اپنے کابینہ اور ایم این ایز سمیت مشترکہ طور پر استعفیں پیش کرینگے، اپنے باغی اراکین پارلیمنٹ کو ڈی نوٹیفائی کرینگے، جس سے اپوزیشن کے نمبرز بھی کم ہونگے اور ہاؤس پورا نہ ہونے کی وجہ سے مجبوراً دوبارہ انتخابات کا اعلان کیا جائے گا- یعنی حالت ویسے ہی رہے گی۔ درحقیقت یہ سب پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام کے گلنے سڑنے کی علامت ہے، جس کو عالمی سرمایہ دارانہ بحران نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے قائم رہنے تک اس طرح کے قابل رحم واقعات کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ پاکستان میں آئین، قانون اور جمہوریت کو حکمران طبقے نے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اس دوران محنت کش طبقے کو بھی بورژوا ریاست کی جانب سے عوام کے استحصال اور جبر کو چھپانے کے لیے استعمال کئے جانے والے چہروں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ اس کے باوجود سیاسی لیڈرز انتہائی عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہوئے مسلسل، منافقانہ طور پر قانون کی حکمرانی، جمہوریت اور آئین کے تقدس کا راگ آلاپتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف سرمایہ داروں، بینکروں اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک جیسے سامراجی اداروں کے ہاتھوں عوام کا وحشیانہ استحصال جاری ہے جو غریب عوام کے خون کا آخری قطرہ بھی چوسنے پر تلے ہوئے ہیں اور انہیں بدحالی میں ڈال کر غربت اور بھوک کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
اگر چہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دے تو دیا لیکن اگر تحریک انصاف حکومت کے ممبرز پارلیمنٹ استعفیں دیں دیتے ہیں تو ملک کو پھر غیر یقینی صورتحال اور آئینی بحران کا سامنا ھوگا، جس کا فائدہ غیر جمہوری قوتوں کو ھوگا۔
پس پردہ محرکات:
عمران خان کی حکومت کو ساڑھے تین سال قبل 2018 میں اپنے قیام کے بعد سے ہی ”سلیکٹڈ“ حکومت کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں ہر کوئی جانتا ہے کہ یہاں انتخابی عمل ایک بہت بڑا فراڈ ہے، اور یہ کہ نتائج کا فیصلہ سول اور فوجی اسٹبلشمنٹ کرتی آرہی ہے۔
2018 کے انتخابات کا ٹرن آوٹ توقعات سے کم رہا،عوام کی شرکت اور دلچسپی کم رہی۔ اگرچہ جعلی سرکاری اعداد و شمار اس کے برعکس تصویر پیش کرتے ہیں۔ اس بے حسی کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس عوام کو ریلیف دینے کا کوئی پروگرام نہیں۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں عوامی اعتماد کھو چکی ہے کیونکہ جب یہ جماعتیں اقتدار میں تھیں تو عوام کی حالت بد سے بدتر ہوئی ہے۔
متوسط طبقے کے نوجوانوں اور دانشوروں کی ایک چھوٹے سے طبقے نے عمران خان کی حمایت کی، جس کو وہ سیاست میں اپنا نجات دہندہ سمجھتے تھے حالانکہ ان کے علاوہ پارٹی کے دیگر تمام رہنما وہی لوگ تھے جنہیں ہم پہلے دیکھ چکے ہیں، صرف ان کے ایک بار پھر اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیئے پارٹی اور وفاداریاں بدلی ہیں۔ عمران خان کو میڈیا کے ذریعے بڑے پیمانے پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، اور 2018 میں پی ٹی آئی کو جیت کا راستہ دکھایا گیا- اقتدار میں آنے کے بعد سے اس نئی حکومت نے جرائم، بدعنوانی، عوام پر جبر، لوٹ مار، ٹیکسوں کی بھرمار، مہنگائی اور بے روزگاری، بیرونی قرضوں کو نئی انتہاؤں پر پہنچا دیا۔
عدم مساوات نئی انتہا کو پہنچنے کے ساتھ ساتھ ریاست نے زبردست جبر کا استعمال کیا۔ ہر مخالف آواز کو زبردستی کچل دیا گیا۔ اس دور میں اظہار رائے دینے والوں کو ڈرا دھمکا کر یا زبردستی دبایا گیا۔ میڈیا پر قدغنیں لگائی گئی۔ جس سے اس بات کو یقینی بنانے میں بھی مدد ملی کہ حکومت اپنی ظالمانہ اقتصادی پالیسیوں سے لاکھوں لوگوں کو مزید مصائب، غربت اور بیماری میں ڈالنے کے باوجود آسانی کے ساتھ اپنے دور میں سفر کرے گی۔ لیکن آخر کار یہ منصوبہ دم توڑ گیا اور عمران خان اور جرنیلوں کے مضبوط تعلقات خطرے میں پڑ گئے۔ اب انہیں اپوزیشن کی جانب سے نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور پی ٹی آئی کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ان اپوزیشن جماعتوں کو آرمی چیف کی حمایت حاصل ہے۔ جب تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو عمران خان نے ایک خط دکھا کر اس کو دھمکی، امریکی سازش قرار دیا اور اپوزیشن پر غداری کا الزام بھی لگایا جس کو سیکیورٹی اداروں کی طرف سے اس طرح رد کیا گیا کہ خط میں عمران حکومت یا ملک کے خلاف کوئی سازش کا عنصر نہیں ملا-
اصل تنازعہ چند ماہ قبل اس وقت شروع ہوا جب میڈیا چینلز نے خبر دی کہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو آرمی چیف کی جانب سے پشاور میں کور کمانڈر کے طور پر تبدیل کیا جا رہا ہے، حالانکہ عمران خان نے اس تبادلے کی مخالفت کرتے ہوئے اسے مؤخر کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ یہ بھی بتایا گیا کہ جنرل فیض اگلے آرمی چیف کے لیئے امیدوار ہیں جب اس سال نومبر میں ان کی مدت ملازمت ختم ہو رہی ہے۔ اب یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ عمران خان کی توقعات کے باوجود آرمی چیف کو ایک اور ایکسٹینشن نہیں دینا چاہتے اور وہ ان کی جگہ اپنی پسند کے کسی فرد کو تعینات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن جماعتیں اس کو قبول نہیں کر سکیں کیونکہ اگلے الیکشن کے نتائج کا زیادہ تر انحصار اسی تقرری پر ہے۔
’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ میں اقتدار کی کشمکش پارلیمنٹ اور عدالتوں میں چل رہی ہے۔
تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ آنے کے بعد واضح ہوا کہ فوجی اسٹبلشمنٹ نے اس سارے معاملے سے اپنے آپ کو دور رکھا-
معاشی بدحالی:
یہ سارا بحران ملک میں جاری ایک گہرے سماجی اور معاشی بحران کا عکاس ہے، جس نے ملک کو دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ درحقیقت پاکستان کی معاشی صورتحال سری لنکا اور لبنان سے زیادہ مختلف نہیں ہے اور ملک بھی ایسی ہی صورتحال کی طرف گامزن ہے۔ غیر ملکی ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں اور اس ہفتے تقریباً 11 بلین ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی ہفتہ وار کمی دیکھی گئی، جب ذخائر میں $3 بلین سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی۔ پچھلے آٹھ مہینوں میں، ملک کے ذخائر میں $8 بلین کا نقصان ہوا ہے۔ مارچ میں ملکی ذخائر صرف دو ماہ کی درآمدات پر محیط تھے۔ مشہور معاشی تجزیہ کار فرخ سلیم کے مطابق اس وقت اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس صرف 12 بلین ڈالر کے ذخائر موجود ہیں جبکہ IMF سے 6.7 بلین ڈالر، سعودی عرب سے 2 بلین ڈالر، چین سے 6 بلین ڈالر، UAE سے 2 بلین ڈالر اور مالیاتی ڈیریویٹو اثاثوں سے 4.8 بلین ڈالرلیے گئے ہیں۔
فکر مندی کی بات یہ ہے کہ باٹم لائن منفی 9.5 بلین ڈالر بن جاتی ہے۔ یعنی معیشت منفی اعشاریوں میں ہے۔ جبکہ اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں مزید اضافہ کرکے اس کو 12.6 فیصد تک بڑھادیا-
اسٹیٹ بینک کے مطابق، اگلے 12 مہینوں میں غیر ملکی کرنسی پر پہلے سے طے شدہ مختصر مدت کے نیٹ ڈرین $12.4 بلین ہونے جا رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق ہماری مجموعی بیرونی فنانسنگ کی ضرورت 32 بلین ڈالر ہے اور مالی سال 2023 کے لیے ہماری بیرونی قرضوں کی فراہمی کا تخمینہ 15.5 بلین ڈالر ہے۔ اس سے پہلے ہی کمزور روپے پر دباؤ بڑھ گیا ہے، آج روپے کے مقابلے میں ڈالر کی اونچی اڑان جاری ہے جو کہ 186 کا عدد عبور کرچکا ہے- اور روپے کی قدر تیزی سے گر رہی ہے۔ مہنگائی سرکاری طور پر 12.7 فیصد ہے لیکن حقیقت میں اس سے کہیں زیادہ ہے، خاص طور پر خوراک کی مہنگائی، جو اس اعداد و شمار سے تقریباً دوگنی ہے۔ تجارتی خسارہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 70 فیصد زیادہ نئی بلندیوں پر پہنچ گیا ہے کیونکہ بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافے نے کمزور معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔ تجارتی خسارہ مالی سال 2017-18 میں 37.7 بلین ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا، لیکن رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ کے دوران یہ پہلے ہی 35.4 بلین ڈالر تک پہنچ چکا ہے، اور جون میں ختم ہونے والے رواں مالی سال میں 45 بلین ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ برآمدات کمزور ہو رہی ہیں، غیر ملکی سرمایہ کاری ملک سے باہر جا رہی ہے، اسٹاک ایکسچینج تیزی سے گر رہی ہے، اور معیشت کے تمام میکرو انڈیکیٹرز ریڈ الرٹ پر ہیں۔
فرخ سلیم کے مطابق: درآمدات 75 بلین ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچنے والی ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب ہمیں اپنی برآمدات میں اضافے کی ضرورت ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب غیر ملکی خریدار بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان سے بھاگ رہے ہیں۔ 2007 میں غیر ملکیوں نے $5.59 بلین کی سرمایہ کاری کی، جو اب تک کی سب سے زیادہ ہے۔ فی الحال غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری (FDI) تقریباً 2 بلین ڈالر سالانہ ہے۔ مارچ میں سال بہ سال ایف ڈی آئی میں 33 فیصد کمی واقع ہوئی۔ پاکستان اپنی معیشت کو بیل آؤٹ کرنے کے لیئے آئی ایم ایف پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، لیکن امریکی حکمران طبقے کی ہدایت پر جو حالیہ برسوں میں پاکستان پر مشتعل ہے، آئی ایم ایف ملک کو سخت ہدایات قبول کرنے پر مجبور کر رہا ہے، جو اس نے پہلے آسانی سے معاف کر دی تھیں۔ موجودہ ناکامی کے بعد 3 اپریل سے آئی ایم ایف نے اعلان کیا ہے کہ جب تک نئی حکومت نہیں بن جاتی وہ اپنے قرضوں کی اگلی قسط جاری نہیں کرے گا۔ پہلے ہی آئی ایم ایف نے ملک کے مرکزی بینک کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے جب پارلیمنٹ نے گزشتہ ماہ ایک بل کی منظوری دی تھی جس میں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ وہ مرکزی بینک کو کنٹرول نہیں کرے گا، بینک کے گورنر کا مکمل کنٹرول باقی ہے۔ لیکن موجودہ گورنر آئی ایم ایف کے ملازم ہیں۔ آئی ایم ایف نے حالیہ دہائیوں میں پاکستان کے ساتھ 21 سے زیادہ پروگرام شروع کیے ہیں اور وہ اپنی شرائط پر معیشت کو ڈکٹیٹ کر رہا ہے۔ پاکستانی حکمران طبقہ اس انتظام سے ہمیشہ خوش رہا ہے، کیونکہ انہیں لوٹ مار کا موقع دیا گیا، جب کہ معاشی بحران کا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا گیا۔ بدلے میں ریاست کو امریکی سامراج اور اس کے اتحادی خطے میں اپنے گھناؤنے کاموں کے لیے استعمال کرتے ہیں – جیسے افغانستان میں جنگ کی حمایت کرنا اور جنوبی ایشیائی خطے میں مداخلت کرنا۔ لیکن حال ہی میں کٹھ پتلی اور ماسٹر کے درمیان تعلقات خراب ہو گئے ہیں, امریکی پاکستان کے حکمران طبقے سے خوش نہیں اور انہیں سبق سکھانا چاہتے ہیں۔ ان کی مایوسی کی ایک بڑی وجہ افغانستان میں امریکی سامراج کی ذلت آمیز شکست تھی جس کا سارا الزام انہوں نے پاکستان کے حکمران طبقے اور اس کی غداری پر ڈالا۔
امریکی کابل سے ہموار انخلاء چاہتے تھے، جسے وہ فتح کے طور پر دعویٰ کر سکتے تھے۔ اس مقصد کے لیے وہ برسوں تک طالبان اور پاکستان کے ساتھ بات چیت میں مصروف رہے۔ لیکن آخر کار یہ ایک بہت بڑی تباہی تھی کیونکہ ریاست کی پوری عمارت جو انہوں نے دو دہائیوں میں کھربوں ڈالر کی لاگت سے بنائی تھی، مٹی کے گروندےکی طرح گر گئی, اور کابل میں ایک بھی گولی چلائے بغیر اقتدار طالبان کے ہاتھ میں چلا گیا۔
کابل میں امریکی سفارتی عملے کو ہنگامی صورت حال میں نکالنا پڑا اور بہت سے افغان ملک چھوڑنے کی مایوس کن کوششوں میں ہوائی جہازوں کے لینڈنگ گیئرز پر لٹک رہے تھے۔ کابل کے افراتفری کے مناظر نے پوری دنیا کے سامنے امریکی سامراج کی نسبتاً کمزوری اور بے چارگی اور زمینی حالات پر قابو پانے میں اس کی نااہلی کو بے نقاب کردیا۔ تاہم چند روز بعد پاکستانی خفیہ ایجنسی (آئی ایس آئی) کے سربراہ جنرل فیض کو کابل کے ایک ہوٹل میں چائے کا کپ ہاتھ میں لیئے دیکھا گیا، وہ صحافیوں کو سکون سے کہہ رہے تھے کہ سب کچھ قابو میں ہے۔ یہ تصویر پاکستان کے حکمران طبقے کی غداری کے ثبوت کے طور پر دنیا بھر میں پھیلائی گئی۔ اس کے باوجود پاکستانی حکام نے امریکیوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے ہوئے اپنی پوزیشن واضح کرنے کی بار بار کوشش کی۔ کابل میں برسراقتدار آنے کے بعد سے طالبان نے افغانستان کے عوام بالخصوص افغان خواتین پر اپنی بربریت اور ظلم و ستم ڈھائے ہیں۔ وہ ہر اس آواز کو خاموش کر رہے ہیں جو ان کے رجعتی نظریے سے متفق نہیں ہے، لیکن وہ امریکیوں کے چھوڑے ہوئے بورژوا ریاستی نظام اور سرمایہ دارانہ نظام کی باقیات کو بھی دوبارہ بنانا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے طالبان نے امریکیوں سے حمایت اور مدد کی اپیل کی ہے اور بار بار رحم کی اپیل کی ہے۔ لیکن ان سابق دوستوں کے درمیان تعلقات ابھی تک مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوئے ہیں۔ پاکستانی حکمران طبقہ بین الاقوامی سطح پر طالبان کی طرف سے کھل کر وکالت کرتا رہا ہے اور کابل میں حکومت کے اخراجات پورے کرنے کے لیے امریکہ، روس اور چین سے مدد مانگ رہا ہے۔ امریکی سامراج کی کٹھ پتلی ہونے کے باوجود پاکستانی اسٹبلشمنٹ نے بھی چین کے ساتھ برسوں سے تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں اور اب ان سے قرضے اور خطے میں اسٹریٹجک امداد کی درخواست کی ہے تاکہ ان سے نجات حاصل کی جا سکے۔
تاہم چین بھی مکمل طور پر عہد کرنے کو تیار نہیں ہے، حالانکہ اس نے چین کے جیواسٹریٹیجک مفادات کے مطابق پاکستان میں سرمایہ کاری کی ہے۔ پاکستان کی مخدوش معاشی صورتحال کے باعث چینی کمپنیوں اور بینکوں کو قرضوں کی ادائیگی میں بھی تاخیر ہو رہی ہے، حالانکہ چینی حکومت جلد از جلد اس کی ادائیگی چاہتی ہے۔ پاکستان نے اپنے غیر ملکی ذخائر کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ قرضوں کی بحالی کے لیے چین سے 21 ارب ڈالر کی امداد کی اپیل کی ہے۔ لیکن اب تک چین نے صرف 4.2 بلین ڈالر کے قرضوں کو ری شیڈول کیا ہے اور صرف پاکستان کی جانب سے اسلام آباد میں اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس کی میزبانی کے بعد جہاں چینی وزیر خارجہ مہمان خصوصی تھے۔
حالیہ برسوں میں پاکستانی حکمران طبقہ امریکہ اور چین کی سامراجی طاقتوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے دونوں میں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے خطے میں اپنی اسٹریٹجک پوزیشن کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن بین الاقوامی سطح پر طاقت کے بدلتے توازن نے پاکستانی ریاست کے اندر گہرے تنازعات کو جنم دیا ہے اور اب یہ تضادات کھل کر سامنے آرہے ہیں جو ریاست کے گہرے بحران کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایک موقع پر پاکستانی حکمران طبقہ امریکیوں کے سامنے بہت نیچے جھک گیا تھا اور چین کے ساتھ تعلقات کو پس پشت ڈال دیا، جیسا کہ ہم نے عمران خان کی دور حکومت میں دیکھا۔ ایک اور وقت میں پاکستان نے پہلے چین اور اب روس کو آمادہ کرنا شروع کر دیا تاکہ بہتر ڈیل حاصل کرنے کی کوشش کرنے کے لیئے امریکیوں کو پریشانی کے طور پر اپنی قدر ظاہر کی جائے۔ یہ کھیل انتہائی حد تک پہنچ چکا ہے کیونکہ بین الاقوامی سطح پر بحران ایک نئی شدت میں داخل ہو چکا ہے یعنی ہر طاقت دوسرے سے فیصلہ کن وقفہ چاہتی ہے۔
امریکی خطے کی نئی صورتحال کے مطابق بھارت کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا کر پاکستانی حکمران طبقے کے سائز اور کردار کو کم کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ پاکستانی حکمران طبقہ اب بھی اپنے بازو پھیلا رہا ہے اور اپنی شرائط پر معاہدہ چاہتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے عمران خان کو ماسکو کا دورہ اس دن دیکھا جب روسی مسلح افواج یوکرین میں داخل ہوئیں، پیوٹن کے ساتھ ایک ملاقات میں دوستانہ گفتگو ہوئی جس کو انہوں نے بہت خوشگوار قرار دیا۔ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کا وہ حصہ جو ان کی حمایت کر رہا ہے اب اپنی حمایت کی بنیاد کو بڑھانے کے لیے عوامی طور پر امریکہ مخالف بیان بازی کا استعمال کر رہا ہے، حالانکہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ ایک بار پھر اپنے آقاؤں کے قدموں میں گر کر معافی کی بھیک مانگیں گے۔ عمران خان کھلے عام یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ امریکی ان کی حکومت گرانا چاہتے تھے اور وہ ہر امریکی سازش کے خلاف کھڑے ہوں گے اور ایک آزاد خارجہ پالیسی کے لیے لڑیں گے۔ یہ سب ایک مذاق اور سراسر منافقت ہے اور درحقیقت یہ بیانات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا ایک حصہ امریکیوں کی طرف سے دیے گئے گھٹے ہوئے کردار کے اثرات کو محسوس کررہا ہے۔ دوسری جانب شہباز شریف کی قیادت میں اپوزیشن کیمپ امریکی اقتصادی امداد کا دفاع کر رہا ہے اور اسے ملک کو درپیش گہرے معاشی بحران سے بچنے کا واحد راستہ بتا رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ہونے والی ایک کانفرنس میں پاکستان کے آرمی چیف نے یوکرین پر روسی حملے کی کھلے عام مذمت کی تھی جو اس معاملے پر کسی بھی اہلکار کی جانب سے پہلا بیان تھا۔ اس سے پہلے پاکستان کا موقف سرکاری طور پر جنگ میں غیر جانبداری کا حامل رہا ہے۔ یہ صورت حال پاکستان کے حکمران طبقے کے اندر موجود گہری دراڑ کو ہی ظاہر کرتی ہے۔ آنے والے دور میں یہ گہرے ہوتے جائیں گے اور تضادات مزید تیز ہوتے جائیں گے، اس کا کوئی حل نظر نہیں آرہا ہے اور معاشی بحران کسی وقت سری لنکا یا اس جیسے دیگر ممالک کی طرح قابو سے باہر ہو سکتا ہے اور ملک کے دیوالیہ ہونے کا باعث بن سکتا ہے۔ پاکستان کے محنت کش طبقے نے ابھی تک اپنا اظہار نہیں کیا۔ ان کے لیے ریاست کے دونوں دھڑے ان کے دشمن ہیں اور کوئی بھی عوام کے مفادات کی نمائندگی نہیں کرتا۔
امریکہ اور چین کی سامراجی طاقتوں کے پاس بھی ملک کے معاشی بحران کا کوئی حل نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کی پالیسیاں اور چین سے قرضے درحقیقت معاشی صورتحال اس نہج پر پہنچنے کی وجوہات ہیں۔ پاکستان میں محنت کش طبقہ اس بات کو سمجھتا ہے اور حکومتی عہدیداروں یا سیاسی جماعتوں کے قائدین کے کسی منافقانہ بیانات پر یقین نہیں رکھتا۔ سیاسی جماعتیں بھی معاشرے کی مختلف طبقوں میں اپنی حمایت کھو چکی ہیں اور سیاسی افق پر ایک بہت بڑا خلا ہے۔ ملک بھر سے پبلک سیکٹر کے محکموں اور کراچی کی نجی صنعتوں کے کارکنوں نے حال ہی میں اجرتوں میں اضافے کے لیے زبردست احتجاجی مظاہرے کیے، اور ان میں سے زیادہ تر کامیاب رہے۔ کچھ مظاہروں میں اسلام آباد میں 30,000-40,000 سے زیادہ کارکنوں نے شرکت کی، جو لاکھوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو مالی اور دیگر مسائل کی وجہ سے ان میں شامل نہیں ہو سکے۔ آنے والے وقت میں بہت بڑا احتجاج پھوٹ سکتا ہے اور ملک بھر کے شہروں اور قصبوں میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ اس وقت سطح پر سکون ہے اور ملک میں کوئی عوامی تحریک موجود نہیں ہے۔ لیکن یہ طوفان سے پہلے کا سکون ہے۔ اس طرح کے حالات میں بڑی عوامی تحریکیں کہیں سے پھوٹ سکتی ہیں اور پوری صورتحال کو اوپر سے نیچے تک بدل سکتی ہیں۔ یہ واضح ہے کہ پارلیمنٹ میں تمام سیاسی جماعتیں بنیادی طور پر کرپٹ ہیں اور عوام کو بار بار دھوکہ دیتی رہی ہیں۔ عدلیہ، بیوروکریسی سمیت تمام ریاستی ادارے متاثرہ مریض کے جسم پر چھالوں کی طرح ہیں۔ ان سب کا حل صرف عوامی حکومت کے قیام کے زریعے سے ممکن ہے, جہاں پر حکمرانوں , سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے بجائے عام آدمی, مزدور طبقے کی بات بھی سنی جائے اور کسی عالمی مالیاتی ادارے کے غلامی کا طوق گردن میں نہ پہنا جائے۔