جنرل صاحب، مذمت بھی اور ہزار کے نوٹ بھی؟

عاطف توقیر

فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ایک ایک ٹوئٹر پیغام میں فوجی سربراہ جنرل قمر باجوہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہیں اس واقعے پر افسوس ہے۔

احسن اقبال صاحب کو نارروال کے علاقے میں مولوی خادم رضوی کی تحریک لبیک کے ایک کارکن نے گولیاں مار کر زخمی کر دیا۔ احسن اقبال فقط نون لیگ کے ایک رہنما نہیں ہی نہیں پاکستان کے وزیرداخلہ بھی ہیں، یعنی ایک شخص جس پر ملک کی داخلی سلامتی کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کسی بھی ملک میں وزیرخارجہ، وزیر خزانہ اور وزیرداخلہ وہ تین بنیادی وزارتیں ہوتی ہیں، جن پر قریب پورے ملک کو بوجھ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وزیرداخلہ جس کے ماتحت پاکستان کے تمام داخلی سکیورٹی ادارے آتے ہیں، وہ خود محفوظ نہیں ہے۔ اس سے عام افراد اپنے تحفظ کی ریاستی ضمانت کا اندازہ خود لگا سکتے ہیں۔

جنرل صاحب کی مذمت اپنی جگہ مگر انتخابات سے قبل یہ سیاسی رجحان، نون لیگ کا میڈیا بلیک آؤٹ اور اس جماعت کے خلاف جاری باقاعدہ مہم بالکل ویسی ہی ہے، جیسی گزشتہ انتخابات میں پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی کے خلاف کھڑی کر کے نواز لیگ اور تحریک انصاف کے لیے جگہ بنائی گئی تھی۔ ہم اس وقت بھی چیختے رہے کہ فوجی سیاست سے الگ رہے، تاہم اس بار تو بہت ہی واضح انداز سے جرنیل متحرک ہیں۔ کراچی میں پی ایس پی اور ایم کیو ایم پاکستان کی چپکلش، پرویز مشرف کے لیے جگہ بنانے کی کوشش، ناکامی پر عمران خان اور پیپلز پارٹی کو راستہ دینا۔ اسی طرح ملک کے دیگر علاقوں میں پی ٹی آئی کے لیے راہ ہم وار کرنا جب کہ دوسری جانب نواز شریف کی جماعت کے رہنماؤں کو عدالتوں کے چکر لگوانا اور باہر ان پر حملے ہونا، یہ واضح کر رہا ہے کہ عسکری اشرافیہ جسے نواز شریف ’خلائی مخلوق‘ پکارتے ہیں ایک بار پھر انتخابات سے قبل ’دھاندلی‘ میں مصروف ہے۔

انتخابات سے قبل دھاندلی کی تعریف یہ ہے کہ تمام جماعتوں کو عوام سے رابطے کے برابر امکانات یا مواقع فراہم کرنے کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنا۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہے کہ فوج آئندہ انتخابات میں عدالتی جج بھی استعمال کرے گی، ریٹرنگ آفیسر بھی اور پولنگ عملہ بھی۔ ججوں کی تاریخ نظریہ ضرورت اور فوجی آمروں کو وردی سمیت قبول کرنے اور غیرآئینی طور پر دستور پامال کرنے والے ان بادشاہوں کے سامنے باادب کھڑے ہو کر پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے عبارت ہے۔ ریٹرنگ افسران کی حالت گزشتہ انتخابات میں سامنے آ چکی ہے۔

احسن اقبال پر حملے کا یہ واقعہ کوئی علیحدہ واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل وزیرخارجہ خواجہ آصف کو ایک تقریب میں کوئی ڈیڑھ گز کے فاصلے سے ایک شخص نے سیاہی کے ذریعے نشانہ بنایا تھا۔ یعنی وزیرخارجہ کی سلامتی کا عالم یہ ہے کہ کوئی شخص ان کے اس قدر قریب پہنچ کر کچھ بھی پھینک سکتا ہے۔ جو شخص اپنے ساتھ سیاہی لا سکتا ہے، وہ اپنے ساتھ تیزاب بھی لا سکتا ہے بلکہ پستول بھی لا سکتا ہے۔ اس سے پہلے سابق وزیراعظم اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ نواز کے قائد نواز شریف پر کوئی ڈھائی تین میٹر کے فاصلے پر جوتا اچھالا گیا۔

ان تینوں واقعات میں یا کم از کم دو واقعات میں ملوث افراد کا تعلق تحریک لبیک سے تھا۔ ان واقعات میں ملوث افراد نے علی العلان اعتراف کیا کہ انہوں نے توہین رسالت کے الزام کے تحت ان افراد کو نشانہ بنایا ہے۔

توہین رسالت کا معاملہ پاکستان میں گزشتہ دو تین دہائیوں سے گلی کوچوں میں باہمی رنجشوں، تنازعات، جائیداد کے جھگڑوں اور اس انداز کے دوسرے فائدوں کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ یعنی کسی بھی شخص سے جھگڑا ہو، اس پر توہین کا الزام لگا دو اس سلسلے میں ایک گواہی ہی کافی ہے۔

تحریک لبیک گزشتہ طویل عرصے سے مسلسل نفرت انگیزی، شرپسندی، فرقہ واریت اور ملکی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز زبان استعمال کرتی رہی ہے۔ اسی جماعت نے فیض آباد میں دھرنا دیا، وہاں عدالتی حکم پر دھرنے کے خلاف کارروائی کرنے والے پولیس اور فرنٹیر کانسٹبلری کے اہلکاروں پر حملے کیے اور اس کے جواب میں نہ صرف فوج کی ثالثی اور ضمانت کے ساتھ ان کے تمام قانونی اور غیرقانونی مطالبات تسلیم کیے گئے جب کہ دوسری جانب مظاہرین کو ہزار ہزار کے نوٹ بھی دیے گئے۔
یہ ہزار کے نوٹ واقعی ریاست یا ریاستی اداروں کی جانب سے شاباشی کی رقم تھی کہ آپ نے بالکل ٹھیک کام کیا ہے۔ یہ دن پاکستانی تاریخ کا ایک سیاہ دن اس لیے بھی تھا کیوں کہ اس روز ریاست نے ایک مشتعل جتھے کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اس سے قبل ہم نے فقط دشمن کی مسلح فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا تمغہ اپنے سینے پر سجایا تھا۔

مگر سوال یہ ہے کہ مولوی خادم رضوی جو انسداد دہشت گردی کے الزامات کا سامناکر رہے ہیں، انہیں گرفتار اور ان کی نفرت انگیزی کو ہوا دینے والے جماعت کو کالعدم قرار کیوں نہیں دیا جا سکتا؟ حالاں کہ تمام سیاسی جماعتوں نے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے دہشت گردانہ واقعے کے بعد واضح انداز سے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ ملک میں نفرت انگیزی اور شدت پسندی کی اجازت ہر گز نہیں دی جائے گی؟ یہ کون سی قوت ہے، جو نون لیگ کو حکومت میں ہونے کے باوجود اس جماعت کے رہنماؤں پر حملوں کے جواب میں سخت حکومتی ردعمل کی راہ میں رکاوٹ ہے؟ یا تو یہ مصلحت ہے یا پھر کوئی خوف یا پھر ہزار ہزار روپے کے نوٹ۔

اس سے اہل حدیث اور دیوبندی مکتبہ ہائے فکر کے افراد کی جانب سے تو عسکری اور جہادی تنظیموں کا پتا ملتا تھا، جو تاحال جاری بھی ہے۔ اسلام آباد کی لال مسجد ہو یا متعدد دیگر عسکری تنظیموں پر ریاستی عناصر کا ہاتھ، اس میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔ تمام تر اعلانات اپنی جگہ مگر گڈ طالبان اب بھی گڈ ہیں اور بیڈ طالبان اب بھی بیڈ۔

یہاں کچھ بنیادی سوالات ہیں، جو ہمیں خود سے پوچھنے کی ضرورت ہے؟ وزیرداخلہ کی سلامتی کی ذمہ داری کس پر تھی؟ جس پر تھی، اس کی جانب سے ایسی کیا کوتاہی یا سستی یا نااہلی ہوئی؟ مولوی خادم رضوی اور اس کی پرتشدد تحریک کو کس طرح روکا جا سکتا ہے؟ اور کیا ملک میں شدت پسندی کو ایک بار پھر ہوا دی جا رہی ہے؟

ملک کی معیشت کی تباہی، امن کی تباہی، شہری آزادیوں کی تباہی، فرقہ واریت، لسانی تقسیم اور مذہبی عدم مساوات کے باوجود جرنیل یہ سمجھنے کو تیار نہیں ہیں کہ اس ملک کے وارث اس ملک کے عوام اور اس ملک کا نظام اس ملک کا دستور ہے۔ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ ملک عبوری فیصلوں اور احکامات پر چلایا جا سکتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ملک رفتہ رفتہ تقسیم اور عدم استحکام کی بدترین حالت تک پہنچ رہا ہے۔ جس ملک میں ادارے دستور کا احترام نہ کریں، جو ان اداروں کا ادارہ بناتے ہیں، تو ایسا ملک ٹھیک وہی حالت پیش کرتا ہے، جو اس وقت پاکستان کی ہے۔