جن کو بوتل میں کیسے بند کیا جائے

حیدر راجپر

المیہ یہ ہے کہ اگر پاکستان کا کوئی شہری اپنے ملک میں بسنے والے ہندوؤں کے حقوق کی بات کرے تو فوراً اسے ہندوستانی ایجنٹ بول کر خاموش کردیا جاتا ہے اور اگر کوئی ہندوستانی وہاں بسنے والے مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھائے تو اسے پاکستانی ایجنٹ کہا جاتا ہے ۔ چند ہفتے پہلے جب بالی ووڈ اداکار نصیرالدین شاہ نے اپنے بیان میں ہندو انتہاپسندی کا ذکر کیا تو انہیں بھی “اینٹی نیشن ، غدار اور پاکستانی ایجنٹ” جیسے لفظوں کا سامنا کرنا پڑا ۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ” ہندوستان میں ایسے حالات ہوگئے ہیں جہاں ایک انسان کی موت سے زیادہ گائے کی موت کو اہمیت دی جارہی ہے ، اب اس جن کو واپس بوتل میں بند کرنا بہت مشکل ہے “۔‎
آج میں اس مضمون میں بات کروں گا اس “جن” کی ، جس جانب نصیرالدین شاہ نے اشارہ کیا ہے ۔ وہ جن دراصل کمیونل ازم ہے ۔ جو سرحد کے اُس پار ( ہندوستان میں) مسلمانوں اور سرحد کے اِس پار
( پاکستان میں ) ہندوؤں کا دشمن ہے ۔ اِس وقت ہندوؤں اور مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے جو نفرت کے جذبات ہیں ، یہ جن ان ہی جذبات کا نام ہے ۔ نفرت کے ان جذبات کو پیدا کرنے کے لئے مختلف زرائع کو استعمال کیا گیا ، خاص طور پر تاریخ کو استعمال کر کے ہندوؤں اور مسلمانوں کو یہ احساس دلایا گیا کہ آپ ایک دوسرے کے دشمن ہیں ۔ ہندوؤں نے جو مسلمان حکمراں رہے ہیں اسے ہندوؤں کے لئے ظالمانہ اور بربریت کا دور کہا اور ان حکمرانوں کو کہ جنہوں نے مسلمان حکمرانوں کے خلاف جنگیں لڑیں ہیرو قرار دیا ۔ ان کے ردعمل میں مسلمانوں نے اپنے ہیرو ڈھونڈ نکالے ، وہ حکمراں بھی جن کا مذہب سے کوئی گہرا تعلق نہیں تھا صرف اپنے مقاصد کے لئے فتوحات کیں تھیں انہیں عظیم بنا دیا ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پاک و ہند کی تقسیم میں بھی کمیونل ازم کا کمال تھا ۔
اور آج بھی ہندوستان میں گائے کو ذبح کرنے کے الزام میں کسی مسلمان کا قتل ہو چاہے پاکستان میں کوئی ہندو توہین مذہب کے جھوٹے الزام میں قید ، ہندوستان میں شدت پسندوں کا مسجد کو مسمار کردینا ہو چاہے پاکستان میں ملاّ کا کسی مندر کو آگ لگانا ، اور ہندوستان میں کسی مسلمان لڑکی کا ریپ ہو یا پھر پاکستان میں کسی ہندو لڑکی کا جبری طور پر مسلمان ہونا ؛ ان تمام واقعات میں اس جن کا اہم کردار ہوتا ہے ۔ اب معاشرے کو پرامن اور پرسکون بنانے کے لئے اس جن کو دوبارہ بوتل میں بند کرنا ضروری ہے ، اور اس کا واحد حل سیکولرازم ہے ۔ جب سیکولرازم کی بوتل ہندوستان اور پاکستان دونوں کو مل گئی تو یہ کمیونل ازم کا جن خودبخود بند ہوجائے گا ۔ لوگ اکثر سوال کرتے ہیں کہ ہندوستان تو سیکولر ہے پھر وہاں ایسے فسادات کیوں ہوتے ہیں ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہندوستان کے پاس اس بوتل کا ڈھکن ( سیکولر آئین ) ضرور ہے لیکن وہ بوتل ( معاشرہ سیکولر ) نہیں ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں اس ڈھکن کا نام لینا بھی گناہ سمجھا جاتا ہے ۔ اس بوتل کو تلاش کرنے لئے نفرت کی ہر دیوار کو دھکا دینا ہوگا ، ہر ایسی سوچ کا رد کرنا ہوگا جو انسان کو مذہب ، رنگ ، نسل ، قومیت اور جنس کی بنیاد پر تقسیم کرتی ہے ۔