حرمت حرم

 عاطف توقیر

حرم تک سیاسی جملے بازوں سے محفوظ نہیں،میں اپنی بات کروں تو میں خود کو مذہبی اعتبار سے نہایت گناہگار تصور کرتا ہوں اور اسی لیے آپ نے دیکھا ہو گا کہ میں مذہبی گفتگو سے قدرے پرہیز کرتا ہوں اور کوئی مذہبی بات کرنا بھی ہو یا کسی مذہبی تاریخی واقعے پر رائے دینا بھی ہو تو محتاط رہتا ہوں۔ مذہب ایک نہایت حساس معاملہ ہے اور اس سے لوگوں کے جذبات وابستہ ہوتے ہیں اور ایسے میں کوئی مذہبی گفتگو کرتے ہوئے یہ احتمال ہمیشہ رہتا ہے کہ غلط الفاظ کو تو خیر تصور بھی نہیں مگر الفاظ کے چناؤ میں غلطی یا کوتاہی بھی کسی شخص کو تکلیف پہنچا سکتی ہے۔

کوئی پندرہ برس پہلے کی بات ہے کہ میں ایک ریڈیو اسٹیشن پر کام کرتا تھا اور وہاں میرے ایک سینیئر ساتھی تھے، جو وہاں پروگرام کی میزبانی کے  لیے آیا کرتے تھے۔ مذہبی اعتبار سے وہ خاصے غیرمذہبی قسم کے تھے۔ شراب و شباب سبھی سے خاصا شغف رکھتے تھے اور ایک بڑے کاروباری ادارے میں کام کرتے تھے۔

ان کی کمپنی نے انہیں ایک کانفرنس کے لیے جدے بھیجا، مگر وہاں پہنچے تو اس کانفرنس کی تاریخ کسی وجہ سے چند روز کے لیے آگے بڑھا دی گئی اور وہاں ان کی کمپنی کے لوگوں نے طے کیا کہ اب چوں کہ اضافی وقت دستیاب ہے اور ہم قریب بھی ہیں، تو کیوں نہ عمرہ کر لیا جائے۔

وہ کہتے ہیں کہ جب مجھے  پتا چلا کہ میں حرم کی جانب جا رہا ہوں، تو میرا پورا وجود کانپ رہا تھا اور لگتا تھا کہ جیسے جسم میں جان نہیں ہے۔

یہ بات کبھی اہم نہیں ہوتی کہ آپ کا نظریہ درست ہے یا نہیں ہے، اہم یہ ہوتا ہے کہ آپ جس بھی نظریے کو مانتے ہیں، چاہے رتی بھر بھی کیوں نہ مانتے ہیں، اس نظریے کے لیے آپ کے دل میں تعظیم کتنی ہے یا اس نظریے پر آپ کا ایمان کیسا ہے۔ زیادہ مذہبی ہونے کا مطلب ہر گز نہیں کہ آپ ایمان کے بھی پکے ہوں۔ آپ نے بہت سے مولویوں کو مسجد کے مصلے پر مسجد کی تقدیس برباد کرنے کی خبریں بھی دیکھی ہوں گی اور اسی طرح بہت سے غیرمذہبی لوگوں کی مذہب کے لیے لازوال محبت کی کہانیاں بھی سنی ہوں گی۔

خیر وہ دوست جب واپس پہنچے تو ان کی زندگی یکسر مختلف ہو چکی تھی۔

دنیا کا سب سے گھٹیا انسان وہ ہوتا ہے، جو کسی نظریے کو درست مانتا ہو مگر اس نظریے کے لیے اس کے دل میں ذرا سی بھی محبت اور عقیدت نہ ہو۔

مسجدِ نبوی کے تاہم حرم ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے بحث رہی ہے۔ کچھ ایماء اس مقام کو بھی حرم ہی قرار دیتے رہے ہیں جب کہ کچھ اسے کعبے کی طرح حرم نہیں سمجھتے، تاہم اس کی تقدیس پر کبھی کوئی سوال نہیں اٹھا۔

لفظ حرم حرمت اور حرام سے نکلا ہے۔ مسجد الحرام کے اردگرد کا ایک مخصوص علاقہ اس لیے حرم کہلاتا ہے کہ وہاں مقام تاریخی طور پر ہر کسی کے لیے پناہ گاہ قرار دیا جاتا رہا ہے یعنی وہاں کسی بھی شے کو ہلاک نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں پر رائج قانون دنیا کے کسی بھی قانون سے مختلف ہے۔ ماضی میں کچھ ایسے واقعات ضرور ہوئے ہیں جب مسجد الحرام کا یہ بنیادی قانون توڑا گیا یا وہاں کسی کو قتل کیا گیا، لیکن حرم مدنی کے حوالے سے زیادہ تر وقت اور تقریبا تمام ہی حکمرانوں اور مسلمانوں کی جانب سے مسلک اور فرقے سے بالاتر ہو کر تعظیم کا مظاہرہ کیا گیا۔ تاریخ میں فقط یزید کی جانب سے مسجد نبوی کی توہین سے متعلق کچھ حوالہ جات یقینا موجود ہیں۔

ہم نے بچپن میں سنا تھا کہ مسلمانوں کا کعبہ مکے میں ہے جب کہ کعبے کا کعبہ مسجدِ نبوی کی صورت میں مدینے میں ہے۔ تاہم کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ کے دونوں جانب کی پتھریلی زمین کے بیچ کا تمام علاقہ حرم ہے۔ یہ حرم حرم مکہ کی طرح دم لازم تو نہیں مگر تعظیمی ہے۔ یعنی محبت و تکریمِ پیغمبر کے تناظر میں۔ 

کل مسجد نبوی میں جو کچھ ہوا وہ اپنے آپ میں ایک تاریخی طور پر بدترین اور شرم ناک ترین واقعہ تھا اور اس کے بعد اس بدترین واقعہ کا دفاع شاید اس واقعے سے بھی زیادہ شرم ناک کام تھا۔

مسلمانوں کے لیے اس مقدس ترین مقام پر ’چور چور‘، ’ڈاکو‘ اور ’بے غیرت‘ جیسے الفاظ سن کے پہلے مجھے یقین تک نہیں آیا۔ مگر پھر جب یہ خبر نگاہوں سے گزری کہ سعودی حکام نے عمران خان کے ایک قریبی ساتھی جہانگیر عرف چیکو کو گرفتار کیا گیا۔ پھر کچھ دیر بعد ایک اور ویڈیو نگاہوں سے گزری جس میں شیخ رشید پی ٹی آئی کے احباب کے ساتھ مل کر اس واقعے کی پلاننگ کرتے نظر آئے۔

پھر شیخ رشید ہی کے ایک قریبی رشتہ دار کی ویڈیو نظر آئی جس میں وہ اس کارنامے پر خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ پھر کچھ اور افراد کی ویڈیوز نظر سے گزریں جو مسجد نبوی میں اس بدتہذینی اور بدتمیزی کو پورے فخر سے اپنا کارنامہ بتا رہے تھے۔

پھر پتا چلا کہ برطانیہ سے انیل مسرت کے ہم راہ پی ٹی آئی کے متعدد رہنما اس وقت مدینہ پہنچے ہیں۔ تو پھر بات سمجھ میں آ گئی۔

اس واقعے کے بعد ظاہر ہے سعودی عرب میں گرفتاریاں ہوں گی تاہم معاملہ گرفتاری یا سزا سے زیادہ تمیز کا ہے۔

پھر مزید یہ کہ آپ کو ایسے افراد بھی نظر آئیں گے جو اس واقعے کا دفاع کرتے ہوئے کہہ رہے ہوں گے کہ واقعہ مسجدِ نبوی کے اندر نہیں باہر ہوا ہے۔ کچھ ایسے بھی دکھائی دیں گے جو کہیں گے کہ پہلے بھی تو ایسا واقعہ ہوا تھا، تب کیوں نہیں بولے۔ ہمارے ہاں جس طرح دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے اگر مگر لیکن چوں کہ چنانچہ لگا دیا جاتے ہے، ویسے ہی اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے لیکن اور مگر کا استعمال آپ بھی دیکھ رہے ہوں گے۔

میں لیکن حیران ہوں۔ آپ کی پارٹی کوئی بھی ہو۔ آپ کا لیڈر کوئی بھی ہو۔ آپ کا نظریہ کوئی بھی ہو۔ آپ کسی سے کتنی بھی نفرت کیوں نہ کرتے ہوں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جہاں نگاہیں نہیں اٹھ سکتیں وہاں آپ آواز اٹھانے لگ گئے؟ وہ رحمت اللعالین کا روضہ ہے۔

پھر مجھے سوشل میڈیا پر ایک روایتی جملہ دیکھنے کو ملا کہ روضہ رسول پر ’چور کو چور نہ کہیں تو کیا کہیں‘۔

یہاں کچھ اہم سوال ہیں۔ اگر آپ کسی کو چور پکارتے ہیں تو اسے ساڑھے تین سال میں عدالت سے سزا کیوں نہیں دلوائی؟ اگر عدالت کم زور ہے تو عدالت کی مضبوطی کے لیے آپ نے کیا اقدامات کیے؟ ماضی کی نوآبادیات رہ چکے ممالک میں کہیں بھی چلے جائیں، زیادہ تر علاقوں میں یہی حالات ہیں۔ جو پسند نہیں اس پر مقدمہ بنا دو۔ جو تنقید کرے گا وہ غدار ہے۔ جو سوال اٹھائے گا وہ ایجنٹ ہے۔ جو بولے گا وہ باغی ہے۔ جو سیاسی مخالف ہے، وہ کرپٹ ہے۔

ارے صاحب کسی نے کوئی جرم کیا ہے، تو اس پر گلیوں میں آوازیں لگانا ہے کہ اسے انصاف کے کٹہرے میں لا کے قانون کے مطابق سزا دلوانا ہے؟

اگر الزامات کی بنیاد پر گلیوں میں لوگوں نے انصاف کرنا شروع کر دیا یا ایسے اقدامات کو درست مانا جانے لگ گیا، تو ایسی صورت میں تو صرف ایک خانہ جنگی ہی اس دیس کا مقدر ہو گی۔

آپ سب سمجھ سکتے ہیں کہ کسی بھی جماعت کے لیے سو دو سو کسی سیاست دان کے خلاف گالیوں کے لیے استعمال کرنا کوئی مشکل بات نہیں۔ عمران خان اور ان کی جماعت کو یہ سمجھنا ہو گا کہ مذہبی بیانات کا استعمال، مذہبی کارڈ کا استعمال اور ساتھ ہی اپنے کارکنوں کے ذریعے حرم تک کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا ایک ایسا خوف ناک عمل ہے، جو اگر چل نکلا، تو پھر محفوظ کوئی نہیں رہے گا۔ سیاسی اختلاف کو خدارا سیاسی رہنے دیں، کیچڑ میں تبدیل نہ کریں، کیوں کہ ہم چلے جائیں گے مگر ہمارا پیدا کردہ ماحول اگلی نسل کو بھگتنا ہو گا۔