حرم سرا کی قندیل اور بالانشینوں کے راز

مہنازاختر

‎“A prostitute is a decent worker like the rest of us, only she can’t fake what she is doing.” M.F. Moonzajer

جب سے عمران خان اور بشری مانیک کی شادی کی خبریں میڈیا میں گردش کر رہی ہیں, مجھے بیچاری اور بدبخت فوزیہ عرف قندیل بلوچ بار بار یاد آرہی ہے۔ بے باک، بے شرم اور نڈر عورت، ویسے اگر بے باک عورت بے شرم ہوجائے تو بڑے بڑے زاہدوں کا تقوی داؤ پر لگ جاتا ہے اور یہی بے باک وبے شرم عورت اگر نڈر ہوجائے تو پایہ تخت تک ہلا دیتی ہے اور نام نہاد اشرافیہ و حکمرانوں کی پگڑیاں سر بازار نیلام کردیتی ہے۔

فوزیہ نے جانے کیا سوچ کر اپنا نام قندیل رکھا، اقلیم رکھ لیتی تو شاید تحریک انصاف میں ’جنرل رانی‘ کے عہدے تک پہنچ ہی جاتی۔ قندیل بلوچ وینا ملک کو اپنا آئیڈیل مانتی تھی اور کیوں نا مانے؟  وینا ملک کو لوگ بگ باس (انڈین رئیلٹی شو) سے پہلے ایک عام سی اداکارہ کے طور پر ہی جانتے تھے ۔ بگ باس میں اپنی بے باک اداؤں کی بدولت اسے بالی وڈ میں دو یا تین ہی فلمیں مل سکیں وہ بھی دوسرے درجے کی۔ اس کے بعد ایک انڈین میگزین کے لیے کیے جانے والے نیوڈ فوٹو شوٹ نے اسے شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا اور اس کے بعد ایک اٹالین فوٹوگرافر کے ساتھ مکمل نیوڈ فوٹو شوٹ نے تو اسے وہ روحانی بلندی عطا فرمائی کہ مولانا طارق جمیل بذات خود چل کراسے ہدایت کی دعوت دینے تشریف لےگئے اوردعوت ولیمہ میں بھی خصوصی شرکت فرمائی۔  پاکستان واپسی پر دھوم دھام کے ساتھ مارننگ ٹرانسمیشنز میں نو بیاہتا جوڑے کا استقبال کیا گیا اور ساتھ میں رمضان ٹرانسمیشن کا تحفہ بھی عطا ہوا۔ ویسے جس ملک میں غیرت یا توہین مذہب کے نام پر قتل عام بات ہو وہاں وینا ملک کا ہماری برداشت کی علامت بن کر ابھرنا معمولی بات تو نہیں ہے تو پھر کیوں نا قندیل بلوچ اسے اپنا آئیڈیل مانتی؟ مگراونچی اڑان بھرنے کی دھن میں قندیل بلوچ حرم سرا‌‌‎‌‍‍ء کے دو بنیادی اصول بھول گئی تھی  پہلا اصول، رازوں کی حفاظت اور دوسرا اصول، زباں بندی۔

یہ قندیل بلوچ کی روحانی صلاحیت تھی یا اسکی ’پہنچ‘ کے اس نے بنی گالہ کے روحانی معاملات کی خبر کافی پہلے ہی ایک نجی چینل کے انٹرویو میں  دی تھی اس کے مطابق ’’بنی گالہ میں ایک روحانی شخصیت پنکی آنٹی رہتی ہیں اور عمران خان کی انگلی میں موجود سبز نگینے والی انگوٹھی انہیں کا  تحفہ ہے۔‘‘ کیا خوب اتفاق ہے کہ اس روحانی شخصیت(پیرنی) بشریٰ بی بی کے حوالے سے 12 جولائی 2016 کو ایک خبر  زیم ٹی وی ڈاٹ کام نے بھی لگائی تھی، ’’عمران خان کی ان کی پیرنی بشریٰ بی بی کی چھوٹی بہن سے شادی کی خبر پر بشریٰ بی بی کا ردعمل‘‘ مگر اب  اس ویڈیو کو وہاں سے ہٹا دیا گیا ہے۔

ویسے پاکستان تحریک انصاف کے رکن اور مذہبی امور کے نگران مولوی عبدالقوی کے ندیدے پن کی وجہ سے ہٹ تو قندیل بلوچ کی گئی تھی۔ لگتا ہے کہ مولوی عبدالقوی نے اسے اس حد تک زچ کر دیا ہوگا کہ وہ ان سے جان چھڑانے کے لیے اتنی آگے گئی کے ان کے ساتھ خلوت کے راز کو افشا کردیا، قرین از قیاس ہے کہ مولوی عبدالقوی کا نشانہ تاک کر اس نے کسی اور کو دھمکی دی ہو گی۔ مولوی عبدالقوی تو شاید صرف پاکستان تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت تک پہنچنے کی سیڑھی تھے مگر لگتا ہے کے مولوی صاحب کی دلچسپی اسے شاہی حرم  میں شامل کروانے سے زیادہ اپنے ذاتی حرم میں شامل کرنے میں تھی۔

اپنے حالیہ بیان میں عمران خان نے نیم اعترافی انداز میں وضاحت کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’’کیا شادی کرنا جرم ہے؟ ‘‘

دوسری جانب بشریٰ بی بی نے بھی عمران خان کی جانب سے رشتہ کی پیشکش اور اس پر سوچ بچار کی تصدیق کر دی ہے۔ واضح رہے کے بشریٰ بی بی اب بشریٰ بیگم کہلائی جا رہی ہیں۔ بشریٰ بیگم کے سابقہ خاوند خاور مانیک کی جانب سے بشریٰ بیگم کی روحانیت و پاکیزگی کی گواہی دینا اعلیٰ ظرفی کی مثال ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہیں طلاق کی روحانی وجہ واقعی عمران خان تو نہیں ؟ کیونکہ  خاور مانیک عمران خان کے کردار و روحانیت کی گواہی بھی غیر ضروری طور پر دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔ بعض حلقوں اور پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بار بار کہا جا رہا ہے کے شادی عمران خان کا ذاتی معاملہ ہے اور اس لیے اس موضوع پر بحث نہیں کی جانا چاہیے۔ تو میرا سوال ہے کیا سیاسی قائدین کی زندگی میں لفظ ’ذاتی‘ کی کوئی گنجائش ہوتی ہے ؟ کیونکہ  عوام کی جان و مال اور مستقبل ان کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں یہ جب چاہیں اپنے ذاتی و سیاسی مفاد کے لیے انہیں دا‏‏ؤ پر لگا سکتے ہیں اور توقع یہ کا جاتی ہے کہ لوگ ان کے متعلق بات بھی نا کریں۔

خیر عمران خان کی تیسری شادی اور  بشریٰ بیگم کی روحانیت سے عوام کو کوئی تکلیف نہیں بشرطیکہ کوئی خفیہ طاقت مستقبل میں اس روحانی جوڑے کو عوام پر زبردستی مسلّط کرنے کی کوشش نہ کرے۔

تاریخ شاہد ہے کہ اقتدار، طاقت، دولت، حسن وشباب اور سازشوں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ  رہا ہے۔  چند ایک قندیلیں منظرعام پر آتی ہیں اور ہلچل مچا کر غائب ہوجاتی ہیں ورنہ تو نصف کی زندگیوں کی قندیلیں فقط غلام گردشوں میں ہی گل کر دی جاتی ہیں اور نصف انہیں غلام گردشوں میں ہزاروں راز سینے میں دفن کیے سسکتی رہتی ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ قندیل بلوچ جیسی عورت ہمیشہ سے روایت پسند معاشروں میں سوالیہ نشان بن کر ابھرتی ہے۔