حسین حقانی اور دو سو کا ہجوم

عبدالرؤف، لاہور

نئے سال کے پہلے دن پاکستانی حکومت کو امریکی صدر کی جانب سے، جس ٹویٹ کا تحفہ ملا ہے، اس کے تناظر میں چند حقائق یا عوامل ایسے ہیں جو بہ ظاہر میڈیا یا عمومی بحث کا حصہ نہیں بن پا رہے۔ ان عوامل پر بات کرنے سے پہلے میں یہ حجت بھی پوری کیے دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ٹرمپ کے بیان پر سخت ردِعمل کی ضرورت ہے اور اس کو بتا دینا چاہیے کہ افغانستان میں خرابی کی بڑی وجہ خود امریکی پالیسیاں ہیں اور افغانستان کی زمین پاکستان میں بدامنی، دہشت گردی اور دیگر تخریبی کارروائیوں کے لیے استعمال ہو رہی ہے اور شواہد بتاتے ہیں کس طرح افغانستان میں موجود پاکستان دشمن ایجنسیاں پاکستان کی سالمیت کے درپے ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی دہرا دی جائے کی کس  طرح نوے کی دہائی میں افغانستان سے خود تو امریکا نکل گیا اور ہمیں آدھی رات کو نہر والے پل پر اکیلا چھوڑ گیا اور اس کے بعد واپس آیا بھی تو قریب چودہ برس بعد اور آتے ہی ہماری ان تمام ‘رفاقتوں’ سے ‘جیلیسی فیل’ کرنا شروع کر دی، جو ہم نے بارہ برس کی طویل سرد رات کے کہرے سے بچنے کے لیےگانٹھی تھیں۔ سرد رات کے اکلاپے کا دکھ ٹھنڈے ملکوں میں بسنے والے جلد سمجھ سکتے ہیں، بس آپ کو بپتا سنانا آتی ہو۔

امریکی صدر کی طرف سے کیے گئے ایک ٹویٹ کے بعد پاکستان میں نیشنل سیکورٹی کونسل کا اجلاس ہوا، ظاہر ہے ہونا چاہیے تھا، ایک بھرپور جواب جانا چاہیے، آخر کار ایک خودمختار ملک، جس نے پچھلے سترہ برسوں میں فرنٹ لائن اتحادی ہوتے ہوئے اربوں ڈالر کا معاشی نقصان برداشت کیا، ہزاروں فوجی جوان قربان کردیے، خودکش حملوں میں سینکڑوں معصوم عوام اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اندرونی طور پر سیاسی و عسکری اداروں کے مابین ایک ناخوش گوار، ان چاہی اور پریشان کن حد تک غیرضروری بحث کے بیج بودیے گئے، اس ملک کے مقتدر حلقوں کی طرف سے واضح پیغام دیا جانا ضروری ہے اور ہمیشہ دیا جانا چاہیے۔

لیکن ان جذبات کے اظہار کے بعد ایک بہت بڑا ‘لیکن’ بھی موجود ہے، جس کے بعد دکھنے والی تصویر پر ہمارا دانش ور یا ملکی میڈیا ‘چند ذمہ دار دِل جلوں کے سوا، کچھ خاطرخواہ روشنی نہیں ڈال رہا اور نہ ہی اس جانب اشارہ کیا جارہا ہے۔ اپنے اس استدلال کو میں یوں آگے بڑھاتا ہوں، کل یعنی دو جنوری کو ہونے والا نیشنل سیکیورٹی کونسل کا اجلاس جو کہ صدر ٹرمپ کی ٹویٹ کے بعد کی پیدا کردہ صورتحال کے نتیجے میں منعقد ہوا تھا کے بارے میں بریکنگ سٹوری رپورٹ کرتے ہوئے امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے اپنے آن لائن ویب پیچ پر یوں لکھا ’’وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے نیشنل سیکیورٹی کونسل کی میٹنگ کی صدارت کی، جس میں خارجہ، داخلہ اور دفاع کے وزاراء نے شرکت کی اس کے علاوہ اس میں مسلح افواج کے سربراہان، ایئر فورس، بحریہ اور آرمی چیف نے شرکت کی۔‘‘

اس کے ساتھ ہی دوسرے پیرے میں سی این این یوں لکھتا ہے، ’’اسی دوران دفاع پاکستان کونسل (اسلامی جماعتوں کا اتحاد) کے دو سو کے قریب افراد نے کراچی میں امریکی صدر ٹرمپ کے خلاف مظاہرہ کیا اور امریکی پرچم نذر آتش کیا۔‘‘ اس خبر کے ساتھ ہی نیچے  امریکی پرچم جلاتے ہوئے ہجوم کی تصویر ہے۔ اس تصویر میں جو شخص سب سے نمایاں ہے وہ ایک ٹخنوں سے اوپر پاجامے والے باریش صاحب ہیں۔

اب میں بات کو جوڑنے کی کوشش کرتا ہوں، اس نکتے کے ساتھ جو میں نے شروع میں بیان کہ وہ کونسا ایسا پہلو ہے، جو جانے انجانے میں خوفناک حد تک (ایک تعمیری بحث کے تناظر میں) ہماری نظروں سے اوجھل ہے وہ یہ کہ پچھلے پورے دس سالوں ملکی سلامتی کے حوالے سے جب بھی ایسے کسی غوغے کا سامنا ہوا، تو سڑکوں پر مزہبی جماعتوں کے افراد نے ہی ملک دشمنوں کو پیغام دیا۔ کچھ ہمارے بھائی یوں کہتے ہیں کہ ایسا محض تاثر ہے، جو مغربی میڈیا رپورٹ کرتا ہے، لیکن بغور دیکھیں گے تو اس میں حقیقت نظر آئے گی۔ جب جب اس طرح کا ردعمل عوامی ردعمل بنا کر پیش کیا گیا، یقین مانیے بیرونی دنیا اسے خریدنے کو تیار نہیں ہوئی۔ تو اب سوال پیدا یہ ہوتا ہے، کیا ہمارا ردعمل دینا غیر ضروری ہے، اس کا جواب یقینا یہ ہے کہ نہیں ہم ردعمل دیں گے، تو دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ ویسے بکتا کیوں نہیں ہے، جیسا ہم چاہ رہے ہیں۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا وقت کی اشد ترین ضرورت ہے۔ اس کا جواب ملک کی سول سوسائٹی کو دینا ہوتا ہے، ایسی سول سوسائٹی جو کسی بھی باقاعدہ جنگ سے پہلے کے دنوں میں اپنی سرزمین، اپنی حکومت، اپنے دفاع، اپنے دفاعی اداروں کے لیے ہراوال دستے کا کردار ادار کرتی ہے اور اسی کردار کے وجہ سے امن کا دورانیہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور یہ نوبت نہیں آتی کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس حکومت محض ایک دھمکی پر سراسیمگی کی مظاہرہ شروع کردے۔

اب المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں سول سوسائٹی کی اصطلاح جو کہ حقیقت میں تو اپنے تمدنی تعارف اور اپنے اندر سمائے ایک وسیع تر رہنما سماجی کردار کی حامل اصطلاح ہے، جس نے صدیوں کے شعوری جمہوری ارتقا اور بقا کی ضمانت دینا تھی، کو محض موم بتی مافیا کے نام سے لیبل کرکے ایک کمپارٹمنٹ میں بند کردیا گیا ہے ۔ تو ایسے حالات میں دیکھا گیا ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے بڑے کردار یا تو خاموش ہوتے ہیں یا بوجوہ ناراض۔ وقت تقاضا کرتا ہے کہ ان پہلو سے جڑی تمام جزئیات پر بات ہو تاکہ وطن عزیز کو ایک شائستہ، بالغ العقل اور شعوری سطح پر مضبوظ عوامی طاقت میسر آئے۔ 

بحث کو فلسفیانہ بنانا ہرگز مقصد نہیں ہے، میں واپس اپنی سرزمین پہ قدم رکھتا ہوں، اور گزارش کرتا ہوں کہ ملک کے اندر علم و شعور، مکالمت اور فتویٰ گردی سے پاک بحث کی راہ ہموار کی جائے، بیچ چوراہے غداری اور حب الوطنی کے پروانے جاری نہ کیے جایئں۔ اس کے بعد ایک ایسی سول سوسائٹی ضرور وجود میں آجائے گی، جس کی قوت اور حمییت کسی بھی غیر ملکی صدر کی نظروں سے اوجھل نہیں رہے گی اور اسے باور کرانے کے لیے ہمیں ہنگامے یا جلوس درکار نہیں ہوں گے۔

اپنے ذہنی خلل کو میں ایک آخری مثال سے واضح کرنا چاہتا ہوں، وہ دور یاد کیجیے، جب میمو گیٹ کا غلغلہ تھا اور حسین حقانی جو بیک وقت پاکستان سول سوسائٹی کے نمائندہ اور واشنگٹن میں پیپلز پارٹی حکومت کے سفیر تھے، تب ہمارے اجتماعی ضمیر نے ان کے حق میں کیا فیصلہ دیا تھا۔ اگر آج میں حسین حقانی سے گلہ یا سوال کرنے کا اخلاقی جواز رکھتا تو ضرور ان سے پوچھتا کہ کیوں سی این این حقانی کو چھوڑ کر کراچی میں  دو سو افراد کے ہجوم کے عمل کو ایک طرح سے ہمارا قومی بیانیہ بنا کر پیش کیا۔

 

نوٹ: کم از کم اس تحریر کی حد تک سول سائٹی کی تعریف کے لیے فیض آباد اوریا یا ملتے جلتے  پبلشنگ ہاؤس کی ڈکشنری سے اجتناب کیا جائے۔