حویلی کی سیاست، صحافت اورنوجوان نسل کا کردار
سردار اشفاق عباسی
سیاست ایک بے رحم کھیل ہے، کسی بھی سیاستدان کاسپنا ہوتا ہے کہ عوام اس کے گیت گاتے رہیں، اس کے ساتھ چلتے رہیں، چاہے اس کے بدلے اسے پیسوں کے انبار لگانا پڑیں یا پھر کیوں نا خون کی ندیاں ہی بہانی پڑیں۔
پاکستانی زیرانتظام کشمیر تو ویسے مسائل کاگھر ہے، جہاں سہولیات کی عدم دستیابی اور لائن آف کنٹرول پر آئے روز دونوں اطراف سے بڑھتی شدید گولا باری سے ہزاروں بے گناہ کشمیری شہید اور زخمی ہوتے ہیں، گھر اجڑتے ہیں، مال مویشی کی صورت میں نقصان اٹھانا پڑتا ہے، وہاں کشمیر کے نہایت پسماندہ ضلعے حویلی کہوٹہ ایک ایسی جگہ ہے، جہاں کی دھرتی وزیراعظم، سینیئر وزراء اور بڑے بڑے قانون دان تو پیدا کرچکی ھے لیکن آج کے تیزی سے ترقی کرتے دور میں وہاں معاشی پسماندگی کے ساتھ ساتھ لوگوں کے ذہن تک پسماندہ بنائے جا چکے ہیں اور آنے والے وقت میں اس انحطاط میں کمی آنے کے بجائے بڑھوتی ہی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں؟
آج کل چونکہ سوشل میڈیا کا استعمال ہر خاص وعام کی پہنچ میں ہے اور سوشل میڈیا ایک موثر ہتھیاربن چکا ہے، پچھلے عرصہ میں باغ سے علیحدگی کے بعد حویلی میں طویل جدوجہد کے بعد ایس کام (SCO) کی موبائل سروس لانچ کی گئی تو ایک بڑی تبدیلی نے جنم لیا کچھ عرصے تو خراب نیٹ ورک کی وجہ سے عوام پریشان حال رہے لیکن حالیہ ایس سی او نے تھری جی اور فورجی لانچ کرکے ایک بڑا سنگ میل توعبور کر لیا ہے۔ لیکن حویلی میں جیسے ایک طوفان سا برپا ہوگیا ہے۔
حویلی کی تمام سیاسی، صحافتی اور نوجوان نسل نے سوشل میڈیا (فیس بک) کا رخ کر لیا ہے، جس کو اگر میں ایسا کہو کہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا تو بالکل بے جا نہ ہوگا۔
حویلی میں شروع سے ہی سیاست میں برادری ازم کا پرچار کیاجاتا ہے لیکن اب اس رویے میں ماضی کے مقابلے میں جیسے کوئی 50 گنا اضافہ ہوچکا ہے جہاں تو بہت قومیں آباد ہیں لیکن اقلیت میں ہونے کی وجہ سے ان گروپس میں شامل ہوکر اپنا اپنا کردار نبھا رہی ہیں، خصوصاﹰ دو گروپ گجرفورس(PMLN) راٹھورگروپPPP) ) دن بہ دن نئے نئے مسائل جنم دے رہے ہیں چونکہ آج کل پڑھی لکھی، نوجوان نسل سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے تھرو اپنی اپنی پارٹی میں بڑھ چڑھ کا اپنا کردار نبھانے کی کوشش کر رہے ہیں، جس میں ہرکوئی اول آنے کی کوشش کر رہا ہے اور جس میں ایسے غیراخلاقی الفاظ یا طریقے اپنائے جا رہے ہیں جس میں کسی کی چھوٹے بڑے ماں بہن بیٹی اور استاد شاگرد کی تمیز کا دائرہ مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے جوکہ صرف قابل مزمت ہی نہیں بلکہ نہایت ہی شرمندگی کا باعث بھی ہے۔
اس سوشل سیاسی جنگ میں وہاں کے صحافی حضرات بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں حالانکہ صحافت بالکل ایک علحیدہ ادارہ ہے جو معاشرے میں جنم لینے والی براہیوں کو بڑھانے یا چھپانے کے بجائے دنیاکے سامنے لاکر تدارک کرنے کی کوشش کرتاھے چند اہل دانش ان باتوں کو آڑے ہاتھوں بھی لیتے ہین لیکن شاید کہ جاگیردارانہ نظام اور چند کھوٹے سکون کے عوص بکنے والے قلم فروش اپنے الفاظ بیچ کر مستقبل کے روشن ستاروں کو مانند کرنے کی کوشش میں راستوں میں رکاوٹ بنتے جارھے ہیں اس سے قبل بھی حویلی میں سیاستی درندوں نے خون کی ھولیاں کھیلی ہیں جن سے کتنے گھر اجڑے تو کتنی گودیں لیکن ان کی تو مقبولیت اور بھی بڑھ گہی اور مرنے والوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کوہی بھی نہ آیا دونوں گروپوں کی آئے روز شوسل میڈیا وٹس ایپ یا فون کالز کی صورت میں اپنے اکثریت والے علاقوں ( گجرگروپ ٹاون ایریا) اور (راٹھور گروپ پلنگی دھڑہ راجگان) میں بلا کر مارنے کی دھمکیوں کے خطرناک نتایج سامنے آہیں گے جو کہ معصوم لوگوں کی لاشوں کی صورت میں ہوں گے۔
حویلی کے بڑھتے اس برادری ازم کی جنگ نے یونین کونسل حاجی پیر بھیڈی کو بھی مساہل کی دلدل میں پھنسا رکھاھے اور اب اس سیاسی انتشار کا رحجان وہاں بھی بڑھتا جارہاھے جس کا سہرا حویلی کی سیاسی قیادت اور گروپس کے سر ہی جاتاھے بنیادی مساہل کوحل کرنے کے بجاے نئے مساہل کوجنم دے کر توجہ دوسری طرف مبزول کرنے کی ناکام کوششیں کی جارہی ھے جو کہ ایک گھناونا کھیل ھے ۔۔
اب تمام سیاسی قاہدین دوربین لگاے بڑے سکون سے اس انتطار میں بیھٹے ہیں کہ کب کسی کاسہاگ اجڑے، کسی کی گود اجڑے کب اور کہاں خون کی ھولی کھیلی جاے اور ہماری مقبولیت میں اضافہ ہو؟
شاید کہ اتر جائےکسی کے دل میں میری بات