خاندانی منصوبہ بندی کی مہم اور پاکستانی مردوں کی ترجیحات

مہناز اختر

آج کل پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کی دھواں دار مہم زور شور سے جاری ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی کی مہم کا ایک پہلو محفوظ جنسی تعلق اور غیرضروری حمل کو روکنا ہے۔ ہر جوڑے کو اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ انکی اولاد انکی جنسی خواہشات کی تکمیل کا نتیجہ نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر درست وقت میں لگایا گیا وہ پودا ہونا چاہیے جو آگے چل کر معاشرے کے لیے ثمردارشجر ثابت ہو۔ ہمارے معاشرے میں میاں بیوی جنسی عمل تو اپنی مرضی سے انجام دیتے ہیں مگرحمل کو اللہ کی مرضی قرار دے کر اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ جب تک معاشرے کی جنسی تربیت نہیں کی جائے گی اور میاں بیوی کے درمیان جنسی تعلق کے حوالے سے ابہام اور احساس گناہ کو ختم نہیں کیا جائے گا تب تک خاندانی منصوبہ بندی کی مہم کے اہداف حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ خاندانی منصوبہ بندی کی مہم کا دوسرا پہلو خواتین کی صحت، تعلیم اور معاشی خودمختاری کے تصور سے متعلق آگاہی بھی ہے۔ جن ممالک میں خواتین کی تعلیم کی شرح بلند ہے نیز جبری شادیوں اور کم عمری کی شادی پر پابندی عاٸد ہے وہاں خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے شعوروآگہی بھی زیادہ ہے۔

معاشرتی مساٸل کے حل کے لیے یہ جاننا بے حد ضروری ہوتا ہے کہ اس معاشرے کی اکثریت کس نظریے کے تحت اپنی زندگی بسر کرتی ہے۔ پاکستان مذہبی کنفیوژن کا شکار معاشرہ ہے۔ یہاں لوگ قحط الرجال کے خوف اور ثواب کی نیّت سے زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں۔ اکثر جوڑے ایک بیٹے کی خاطر چار پانچ بیٹیوں کو دنیا میں لاکر انہیں بے وقعتی کی زندگی گزارنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ مرد حضرات سے معذرت مگر پاکستانی مردوں کی بہت بڑی تعداد بیوی کو بار بار حاملہ کرنے کو ”مرادنگی“ سے تعبیر کرتی ہے۔ سونے پر سہاگہ ہمارے ”مذہبی علماء“ جو دینیات کے ساتھ ساتھ ماہر جنسیات ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں، اپنے بیانات میں مردوں کثرتِ اولاد و ازدواج کی تلقین کرتے دکھاٸی دیتے ہیں۔ تو ایسے میں ”وقفے“ کے تصور کو پروان چڑھانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

پاکستان کے مشہور و معروف ماہر دینیات و ”جنسیات“ مفتی طارق مسعود صاحب فرماتے ہیں ”نکاح کی اصل عمر لڑکے کی پندرہ اور لڑکی کی تیرہ برس ہے۔ تیرہ سال کی لڑکی اگربالغ ہے تو وہ بچی نہیں عورت ہے اور اسمیں جنسی خواہشات پیدا ہوچکی ہیں۔ آج کہتے ہیں کہ کم عمری کی شادی میں لڑکی کا جسم بچہ پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوتا وہ ناسمجھ ہوتی ہے اور پندرہ سال کا لڑکا کہاں سے کما کر بیوی کو کھلائے گا۔ لڑکا نا صحیح لڑکے کا باپ تو کماتا ہے دونوں آدھی روٹی کھا کر گزارہ کر لیں گے اور آنے والی اولاد کا رزق اللہ نے ماں کی چھاتی میں پہلے ہی تیار کررکھا ہوتا ہے۔ پہلے کیا ہوتا تھا کہ بچی بالغ ہوٸی ابا اماں نے کان سے پکڑ کر اسکی شادی کروادی۔ بڑی عمر کی لڑکی وقت کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سیکھ جاتی ہے۔ اسمیں خوداعتمادی پیدا ہوجاتی ہے۔ اسکی ہارڈ ڈسک میں ساس سسر کی جگہ نہیں ہوتی۔ شوہر کہیں D ڈرائیومیں پڑا ہوتا ہے اور C ڈرائیومیں اسکی اصل فائلیں اور پرانے بوائے فرینڈز پڑے ہوتے ہیں“ (بیان:اسلام میں کم عمری میں نکاح کی اہمیت)۔

خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے محترم فرماتے ہیں ” معاشی مجبوری کے جواز پر وقفہ کرنا حرام ہے اور اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے، اللہ کھلاتا ہے تم نہیں کھلاتے۔ فیملی پلاننگ والے کہتے ہیں کہ بچہ پیدا کرنے سے پہلے اسکی پرورش کا معاشی انتظام کرو پھر بچہ پیدا کرو اسلام اسکے برعکس بات کہتا ہے یعنی بچہ اپنا رزق دنیا میں خود لے کرآتا ہے“ ۔

مفتی صاحب کے مطابق پڑھی لکھی اور خود مختار لڑکیاں کردار کی پختگی سے عاری ایسی ہوس زدہ مخلوق ہوتی ہیں کہ اگر اسے صحیح عمر میں لگام ڈال کر کھونٹے سے نہ باندھا گیا تو یہ جگہ جگہ ”منہ کالا کرتی پھریں گی“ ۔ نجانے کیوں ایسے مفتیان سے ہمارے معاشرے کے مرد یہ سوال نہیں کرتے کہ آدھی روٹی کھانے والے ماں باپ کیسی نسل پروان چڑھاٸیں گے؟ یا آدھی روٹی کھانے والی ماٶں کی چھاتیاں جلد ہی کیوں بنجر ہوجاتی ہیں؟ اور اگر اللہ کھلاتا ہے تو پھر بچے بھوک وافلاس سے کیوں مرتے ہیں؟

میں بنیادی طور پر اسلام میں دی گٸی کثرتِ ازدواج کی شرعی رخصت کے حق میں ہوں کیونکہ اسکے ذریعے ایک متمول مرد شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی کسی بیوہ، طلاق شدہ، عمر دراز یا بے سہارا خاتون کو سماجی اور ازدواجی تحفظ دے سکتا ہے لیکن سنتِ نبوی کی آڑ میں اپنی خواہشات کو پورا کرنا آج کل مردوں کا شیوہ بن چکا ہے۔ دور کیوں جاٸیں ہمارے ”ہردلعزیز“ عامر لیاقت حسین کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ موصوف اپنے بغل میں حسین جمیل نٸی دلہن بٹھا کر دنیا کو ”دین“ کا سبق پڑھاتے ہوئے محمدﷺ اور عاٸشہؓ کی شادی کی مثالیں دیتے دکھاٸی دے رہے ہیں۔ عاٸشہؓ کے علاوہ آپﷺ کی تمام ازواج مطہرات بال بچے دار بیوہ یا طلاق شدہ خواتین تھیں۔ غور فرماٸیں کہ آپﷺ اور خدیجة ؓ یا آپﷺ اور ام سلمیؓ کے نکاح کی سنت کتنے مرد ادا کرتے نظر آرہے ہیں۔ مجھے پاکستانی مسلمان مردوں کی دوسری شادی پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ قانون اور شریعت انہیں ایک سے زائد شادی کی مشروط اجازت دیتے ہیں لیکن خدارا شادی کرنے کے بعد گھٹیا تاویلیں نہ گھڑیں اور اپنے عمل کو اسلام کی تبلیغ و ترویج کا نام بھی نہ دیں۔

اس معاملے میں مردوں کی اکثریت عامر لیاقت حسین اور ان جیسے دیگر مردوں کے اس عمل کو عین اسلامی گردانتی ہے لیکن یہی معاشرہ بشری بی بی اور عمران خان کی شادی پر بشری بی بی کو ”شہوت زدہ بوڑھی چڑیل“ قرار دے دیتا ہے کیونکہ کہ انہوں نے جوان اولاد کی موجودگی میں اپنے پہلے شوہر سے طلاق لے کر عمران خان سے شادی کی۔ ایسا کرتے وقت ہمارے اسلامی معاشرے میں کسی کو یہ خیال نہیں آتا کہ زینبؓ نے بھی اپنے شوہر زیدؓ سے صرف اپنی ناپسندیگی کی بنیاد پر طلاق لی تھی اور بعد ازاں آپﷺ کے نکاح میں آٸیں تھیں۔ ہمارے معاشرے کو ایک مظبوط 40 پلس عورت ہضم نہیں ہوتی اس لیے کہ وہ اپنے فیصلے خود کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور مرد کے سہارے کے بغیر خوش خرم آزاد زندگی گزارنے کے قابل ہوتی ہے۔ عامر لیاقت حسین نے دوسری شادی کے بعد قوم کو دین کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ آپ جتنا مطالعہ نہ سہی پر دین میں معمولی غور و فکر کی بنیاد پر میں یہ سوال کرتی ہوں کہ پاکستانی معاشرہ کے کتنے مرد آج خدیجة الکبریؓ جیسی ٤٠ سالہ خواتین کو آٸیڈیلاٸز کرتے ہیں جنہوں نے دو بار کی بیوگی کے بعد ،چار بچوں کی والدہ ہوتے ہوئے بھی ٢٥ سالہ غیر شادی شدہ نوجوان سے کاروباری معاملات رکھے اور نکاح کا پیغام بھیجا اور آدھی عمر کے نوجوان کی زوجیت اختیار کی؟

آپ تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن ہمارے معاشرے میں عورت کی حیثیت ایک ایسی مشین کی طرح ہے جسکی ڈیپریسی ایشن ویلیوں شادی کے وقت سے ہی اسکی عمر کے حساب سے کیلکولیٹ کرلی جاتی ہے۔ ازدواجی زندگی کی سالانہ بیلنس شیٹ میں ہر سال اسکی کارآمدگی گھٹتی ہے۔ میرے نزدیک عامر لیاقت حسین کی دوسری شادی کی مذہبی تاویلوں اور اس جوڑے میں کوٸی فرق نہیں جو جنسی عمل تو اپنی مرضی سے کرتے ہیں مگر اسکے نتیجے میں ٹہر جانے والے حمل کو اللہ کی مرضی قرار دے دیتے ہیں۔

اس مضمون میں مفتی طارق مسعود اور عامر لیاقت حسین پر بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ دو شخصیات نہیں بلکہ ایک ماٸنڈ سیٹ ہیں جو خواتین کو اپنی خواہش کے مطابق کسی شے کیطرح استعمال کرنے کو شریعت قرار دیتے ہیں۔ مجھے خاندانی منصوبہ بندی کی مہم چلانے والوں سے کہنا ہے کہ آپ پاکستانی خواتین کو تعلیم ، روزگار اور انتخاب رائے کی آزادی دیجیے نیز کم عمری کی شادی پر کڑی پابندی لگاٸیے، والدین کو اس بات کا احساس دلاٸیے کہ اولاد کے حقوق سے متعلق اللہ محشر میں سوال بعد میں کرے گا پہلے آپ ریاست کے آگے جواب دہ ہیں تو آبادی خود ہی کم ہونے لگے گی۔ اسکے علاوہ پدرانہ پاکستانی معاشرے میں مردوں کی ترجیحات کو درست سمت پر راغب کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ یہاں مرد آبادی میں خطرناک اضافے اور وساٸل میں کمی جیسے موضوعات پر ماہرین کے لیکچرز کے بجائے ”آدابِ ہمبستری، کم عمری کی شادی کے فواٸد، کثرتِ ازدواج اور شہوت کو کیسے قابو کیا جائے“ جیسے موضوعات پر مولویوں کے بیانات سماعت فرمانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔