خاندان کی عزت کا بوجھ فقط عورت کے کندھوں پر کیوں؟

مریم صدیقہ

کسی بھی معاشرے میں سب سے اہم چیز زندگی گزارنے کےمختلف اصولوں کے بارے میں پروان چڑھنے والی سوچ ہوتی ہے جو کہ  اس معاشرے کی مجموعی طور پر ترقی یا تنزلی کا تعین کرتی ہے اور معاشرے میں عزت کی نظر سے دیکھا جانا اس سوچ کا بہت اہم حصہ ہوتا ہے۔ جہاں بہت سارے معاشروں میں سچائی، دیانتداری اور اس جیسی دیگر خصوصیات کے حامل افراد کو عزت مند سمجھا جاتا ہے۔ وہیں کچھ معاشروں میں ‘عزت’کو بالکل الگ نظریے سے دیکھا جاتا ہے۔

اس سوچ کے مطابق مردوں کی عزت ان کی رشتہ دار خواتین کے اپنی زندگیوں پراختیار اور آزادی پرمنحصر ہوتی ہے۔ خواتین اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے میں جتنی زیادہ بااختیار ہوں گی، ان کے باپ اور بھائی کی عزت اتنی ہی کم ہو گی اور اسی سوچ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر سال ہزاروں خواتین اپنے ہی خاندان اور رشتہ داروں کے ہاتھوں عزت کے نام پرقتل کر دی جاتی ہیں۔

ان میں سے  اکثریت ان خواتین کی ہوتی ہے،جن کو اپنی مرضی سے شادی کرنے پر قتل کر دیا جاتا ہے مگر اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ‘عزت’ کو برقرار رکھنے کے لیے عورت کو صرف اپنی مرضی سے شادی کرنے کا حق نہیں ملتا بلکہ ایسے معاشرے میں ایک عورت کی پوری زندگی کا دارومدار اپنے خاندان کی عزت برقرار رکھنے پر ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ بہت سی لڑکیوں کو پڑھائی یا کام کی  غرض سے دوسرے شہروں میں رہنے کی اجازت نہیں ملتی کیونکہ اس سے خاندان کی عزت پر اثر پڑتا ہےاور کچھ کو سرے سے ہی کام کرنے کی اجازت نہیں ملتی۔ جب کہ بالخصوص افریقہ کے کچھ ممالک میں خاندان کی عزت کی خاطر لڑکیوں کو ‘فیمیل جینیٹل میوٹیلیشن’ جیسے تکلیف دہ عمل سے  گزارا جاتا ہے۔

لڑکیوں کے کھیلوں میں حصہ لینے کو یہ کہہ کر جھٹلا دیا جاتا ہے کہ’گھر کی عزت کا میدانوں میں کیا کام’۔ غرض کہ عزت کے نام پر ناصرف خواتین کو قتل اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ ان کو ان کے بنیادی حقوق سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔ شادی سے لے کر کام کرنے اور لباس سے لے کر کھیلوں تک، زندگی کے ہر موڑ پر ان کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔  جبکہ کچھ لوگ ‘عزت’کو بالکل ہی ایک الگ مقام پر لے جاتے ہیں اور سوشل میڈیا پر شرمین عبید چنائے کو غیرت کے نام پر قتل پر ڈاکومینٹری بنانے پر بین الاقوامی برادری میں پاکستان کی ‘عزت’ خراب کرنے کا ذمہ دار ٹھراتے ہیں۔

گویا کہ اگر کوئی عورت اپنی مرضی سے اپنی زندگی گزارنا چاہے تو اس سے اس کے خاندان کی عزت خراب  اور اگر کوئی عورت ان عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا چاہے تو اس سے ملک کی عزت خراب۔

ایک معاشرے کی حیثیت سے ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ آخر کب تک ہم خاندانوں کی عزت کا بوجھ عورت کے کندھوں پر ڈال کر اپنے معاشرے میں صنفی امتیاز کو ایک روایت کے طور پر برقرار رکھیں گے اور بحیثیت قوم ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا ہو گا کہ آخر کب تک ہم اپنے ملک میں عورتوں کو برابر کے حقوق فراہم کرنے بجائے الٹا عورتوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کو ملک دشمن قرار دیتے رہیں گے۔ جب تک ہم اپنی اس سوچ پر نظر ثانی نہیں کریں گے اور اپنی عزت کو کسی  عورت پر تھوپنے کی بجائے اپنی عزت کو اپنے اعمال کی بنیاد پر پرکھنا نہیں سیکھیں گے تب تک ہم جہاں آج کھڑے ہیں، وہیں کھڑے رہیں گے۔