خدارا ہوش میں آجائیں!

عابد حسین

کیا کبھی آپ نے دیکھا ہے کہ کسی گھر میں جواں سال مریض بے سدھ پڑا ہو، جان کنی کی حالت ہو، نبض ڈوب رہی ہو، ڈاکٹر کے چہرے پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف مایوسی بڑھ رہی ہو بلکہ  وہ رہ رہ کر نفی میں سر ہلانے لگ گیا ہو لیکن پھر بھی اپنی کوشش جاری رکھتے ہوۓ نسخے تجویز کرتا جارہا ہو اور گھر والوں کو دعا کی تلقین بھی کر رہا ہو اور ساتھ بازار سے دوائیں لانے کے مشورے بھی دیتا جارہا ہو؟ پر گھر والے علاج کےلیے دوڑ دھوپ کرنے بجائے منہ سے مختلف سُروں کے راگ اور جھاگ نکال رہے ہوں۔ گھر میں ہر طرف شورواویلا مچا رکھا ہو، ایک دوسرے کو مار پیٹ رہے ہوں۔ مریض کی بیماری کو ڈرامہ بازی، مکاری، چالاکی اور جھوٹ بتا کر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہوں اور پھر اس دھوکہ دہی پر شادیانے بجا بجا کر جشن کا ماحول بنا رکھا ہو۔ تو دیکھنے والا ضرور یہی سمجھے گا کہ گھر والے یا تو نادان ہیں یا ان کی ذہنی حالت درست نہیں ہے۔ گھر کا جوان موت کی دہلیز پر ہے اور انہیں احساس تک نہیں ہے بلکہ  آپس میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے ہوئے ہیں، ایک دوسرے کو دھوکہ دے کر خود کو کمزور کر رہے ہوں۔
اگر کسی گھر کی حالت ایسی ہو تو یقیناً ہماری رائے بھی یہی ہوگی کہ یہ گھر تباہی کے دہانے پر ہے۔ غور کریں تو مملکتِ پاکستان کی حالت بھی اس سے ذرا بھی مختلف نہیں ہے۔ہمیں آزادی حاصل کیئے ستر برس گزر چکے یہ کوئی معمولی عمر(عرصہ) نہیں ہے یہ وقت تو قوم کے انتہائی مضبوط ہونے اور کامیاب نظر آنے کا وقت تھا جیسا کہ ہمارے ہمسائے چین، بھارت جاپان اور بنگلہ دیش اسی عمر کے لگ بھگ  قریب ہیں۔ ان ممالک کی بلوغت اور ان کی توانائی عالمی سطح پر تسلیم کی جا رہی ہے۔ جبکہ ہمارا جواں سال پاکستان انتہائی لاغر اور کمزوری کی حالت میں بستر پر پڑا نظر آتا ہےـ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسکے خون کا ایک ایک قطرہ  نچوڑ لیا گیا ہو اور اس کی ہڈیوں کا گودا تک نکالا جا چکا ہوـ اس جواں سال کے علاج کےلیے دوا دو نمبر دی گئی ہو یا اس کے کئیرٹیکر ہی اس کی خوراک میں زہر ملاتے رہے ہوں۔ جسکی وجہ سے مرض اب جان لیوا دکھائی دیتا ہے۔ مریض بستر سے نہ صرف کھڑے ہونے کے قابل نظر نہیں آتا بلکہ اب تو یہ سرگوشیاں بھی سنائی دینے لگی ہیں کہ اب یہ زیادہ دیر تک زندہ رہتا نظر نہیں آتا۔ جبکہ گردن گھما کر حکمرانوں اور اربابِ اختیار کو دیکھیں تو کوئی اضطراب و بے چینی، تشویش یا سنجیدگی تک نظر نہیں آتی۔ کسی ٹھوس اور جامع حکمت عملی کا کوئی وجود تک دکھائی نہیں دیتاـایسا کچھ بھی نظر نہیں آتا کہ جس سے یقین کیا جا سکے کہ ہم نے ماضی کے حاصل کردہ شرمناک اور افسوسناک نتائج سے کچھ سبق سیکھا ہو اور ہمیں آئندہ نسلوں کے مستقبل کی فکر ہو۔
ناقص پالیسی کہوں یا ماضی کے نتائج سے جان بوجھ کر چشم پوشی لیکن اکہتر میں جن وجوہات کی بناء پہ ملک دولخت ہوا آج ویسی ہی سنگین اور بھیانک صورتحال کا سامنا وزیرستان میں کرنا پڑرہا ہے پر نہ ہی ہم نے کوئی سیاسی حکمت عملی تیار کی ہے اور نہ ہی کبھی سوچا کہ آوازوں کو دبا دینے سے لوگوں کی چیخ وپکار کا شور زیادہ دیر تک نہیں دبایا جاسکتا  نہ ہی طاقت آزمانے سے حقوق حاصل کرنے کی تحریکیں دبائی جا سکتی ہیں۔ وزیرستان واقعے میں جہاں دو بھائی اور آرمی کے ایک مسلح وردی پوش فوجی جوان کے مارے جانے کی خبر وائرل ہوئی۔ اس بارے کوئی حتمی اور تسلی بخش رائے کیوں سامنے نہیں آ سکی؟ آخر وہاں میڈیا کے کوریج کرنے اور وہاں کے لوگوں کے مسائل اور مطالبات سننے اور پھر عوام کے سامنے لائے جانے میں کیا حرج اور مشکلات ہیں۔ ایک ہی واقعے پر دو متضاد مؤقف کہ ایک طرف مقامی افراد کا الزام بہت خطرناک ہے کہ وہاں باقاعدہ ٹارگٹ کلنگ میں ہمارے ریاستی ادارے ملوث ہیں جبکہ ادارے انہیں دہشتگردوں کے خلاف کاروائی کہہ رہے ہیں۔ کیا یہ صورتحال ہماری آنکھیں کھولنے کو کافی نہیں ہے کہ اس بار نقصان اٹھانے سے پہلے ذرا سنجیدہ ہو لیا جائے۔
واقعات کی سنگینی کو اگر سمجھا جائے تو اب وزیرستان کے حالات پہلے سے بھی زیادہ بُری حد تک بگڑ چکے ہیں۔ حکومت کی جانب سے اس بار وہاں کی سیاسی قیادت کو فوری اعتماد میں لینا اور ان کے تحفظات کا دور کیا جانا ضروری ہے۔ نہیں تو حالات وہاں ایک اور شکست اور شرمساری کے باب میں اضافہ ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ اربابِ اختیار نقصان اٹھانے سے پہلے خدارا ہوش میں آجائیں نہیں تو اس دفعہ بوسیدہ عمارت سے صرف چند ایٹنیں گرنے کا خطرہ نہیں بلکہ پوری عمارت کے زمیں بوس ہونے خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔