دامان کے جانور کی رسی کا ٹوٹنا اور پہاڑ کی عورت کی چادر کا گرنا انتہائی ہنگامی صورتحال کا اشارہ ہے۔
سیف الدین بزدار
عزیزم شاعر اور وی لاگر عاطف توقیر صاحب سلام!
جناب مدعے کی طرف بڑھنے سے پہلے میں اپنے علاقے کا تعارف کروانا ضروری سمجھتا ہوں۔
میرا تعلق کوہ سلیمان کے پہاڑی علاقوں سے ہے۔ دامان ڈیرہ جات و تونسہ سے دوستانہ و قریبی تعلقات ہیں جس کی وجہ سے دونوں اطراف کے حالات سے بخوبی واقف ہوں۔ کیونکہ کم و بیش 80 فیصد آبادی دامان کی بھی بلوچ قوم سے تعلق رکھتی ہے۔ اس لیے تعلقات و رابطے اس حد تک ہیں کہ دامان کے علاقوں کو بھی اپنے علاقوں کے جتنا جانتا ہوں۔ ملحقہ علاقوں کی نمائندگی اکثر و بیشتر بلوچ سردار اور خواجگان کرتے ہیں۔
جس میں اس بار کے الیکٹڈ یا سیلیکٹڈ نمائندے درج ذیل ہیں، قومی اسمبلی کے امیدوار خواجہ شیراز، زرتاج گل، سردار امجد فاروق اور محمد خان لغاری ہیں۔ جببکہ صوبائی اسمبلی میں سردار عثمان بزدار، خواجہ دؤاد سلیمانی، جاوید اختر لنڈ، سردار سیف الدین کھوسہ، حنیف پتافی، سردار احمد علی دریشک، سردار محمد محی الدین کھوسہ اور سردار اویس لغاری شامل ہیں۔
ہمارے قریب بلوچستان کے اضلاع بارکھان، کوہلو اور موسی خیل کے علاقے ہیں وہ بھی اس وقت شدید سیلاب کی زد میں ہیں۔ ہمارا اپنا علاقہ بنیادی طور پر چاروں صوبوں کا سنگم ہے۔یہاں پر بیشتر معدنی وسائل کے پلانٹس جیسے کہ ڈوڈھک آئل پلانٹ، سفید کوہ اٹامک پلانٹ، بغلچر کی یورینیم، تونسہ کریشر پلانٹ بشمول اشیا کی بڑی سیمنٹ فیکٹریوں میں سے ایک ڈی جی سیمنٹ فیکٹری کے علاؤہ بہت سے اور پراجیکٹ جن کا نام نہیں لکھ پا رہا یہاں موجود ہیں۔ یہاں آباد بدقسمت بلوچ قوم اور سرائیکی اسپیکر قبائل مسائل و وسائل کے عذاب کے بیچ پھنسے ہیں اور مصائب کا تسلسل ان علاقوں کا مقدر بن چکا ہے۔
محترم عاطف توقیر صاحب!
یہاں پر نکلنے والا یورینیم جس اٹامک پلانٹ کی میں ذکر کر رہا تھا لوگوں کا درد سر تو کیا خطرہ جان بن چکا ہے۔ یہاں کا ہر تیسرا گھر یورینیم کے خطرناک شعاعوں کی وجہ سے کینسر میں مبتلا ہے۔ قبرستانوں میں مدفن ہرچھٹا یا ساتویں قبر کے موت کی وجہ کینسر لکھی ہوئی آپ کو نظر آئے گی۔ اس کے بعد یہاں پر اس آفت سے پہلے خشک زدگی، قحط اور پانی کی قلت کی وجہ سے ایک وبا ہیضہ پھوٹ پڑی جو سینکڑوں جانوں کو لے چکی ہے۔ ان مصائب سے عوام نبردآزما تھی کہ ایک اور قہرِ خداوندی انکا منتظر تھا جو سیلاب کی صورت میں رونما ہوا۔
سیلاب سے متاثرہ علاقوں کو اب میں نقشہ سے سمجھانے کی کوشش کروں گا۔
ہم کوہ سلیمان کے پہاڑی حصے کو چار قوموں کی حدود میں تقسیم کرتے ہیں جو کہ بلوچی کوڈ آف کنڈکٹ کے توسط سے صدیوں پہلی کی ہوئی تقسیم ہے۔ اس میں تمن قیصرانی، تمن بزدار تمن لیغاری اور تمن کھوسہ شامل ہیں۔ اس کے بعد شہری علاقے جس میں تونسہ شہر اور ڈیرہ غازی خان شہر شامل ہیں۔ اب یہ شہر یا علاقے صرف نام نہیں بلکہ کئی حلقوں پر مشتمل سینکڑوں بستیوں میں یہاں لاکھوں کی تعداد میں آبادی بستی ہے۔ اب آتے ہیں سیلاب اور اسکے تباہیوں کی طرف؛ کوہ سلیمان جو کہ 1 لاکھ سے زائد گھرانوں پر مشتمل ہے وہاں تمام تر مکانات غربت کی وجہ سے کچے تھے۔ جس میں 80 فیصد مکانات منہدم ہو گئے ہیں۔ اس علاقے میں حادثوں کی شرح کچھ جگہوں پر جہاں کم و بیش 6 دن پہلے نیٹ ورک بحال تھس کچھ یوں تھی:
کوہ سلیمان ڈومباڑ نامی ایک جگہ جہاں ایک گھر کی چھت گرنے سے تین بچے جاں بحق ہوئے۔ کوہ سلیمان جھنڈی نامی جگہ میں تین بچے جاں بحق ہوئے۔ کوہ سلیمان گاڑ نامی ایک جگہ میں ایک خاتون چھت کے گرنے سے جاں بحق ہوئی، کوہ سلیمان کے میر خان بنگانی نامی ایک رہائشی اپنے بچوں کو بچاتے ہوئے پانی میں بہ گئے اور اسکی لاش چھ دن بعد مقاموں لوگوں نے خود تلاش کرتے ہوئے دیکھ لی جو مٹی میں مکمل طور پر دھنسا ہوا تھا۔ کوہ سلیمان شمتالہ نامی جگہ میں چودہ سالہ محمد عرفان ولد اللہ بخش چھت کے گرنے سے جاں بحق ہو گیا۔ اس کے علاوہ خاندان کے تمام افراد زخمی ہو گئے مگر مزید جانی نقصان سے محفوظ رہے۔
کوہ سلیمان بارتھی (ڈاھر) غفار ولد عبد الرحمن جعفرانی کی بیٹی چھت کے گرنے سے جاں بحق ہو گئی۔ بارتھی میں ہی ایک چھت کے گرنے سے میرو دوستلانی کا 35 سالہ بیٹا شدید زخمی ہوا۔
راڑہ شم کوہ سلیمان میں عبد الرحمٰن ولد میر محمد چھت کے گرنے سے جاں بحق ہو گئے۔ کوہ سلیمان گوزو راڑہ شم میں چھت گرنے سے دو بچیاں جاں بحق ہو گئیں۔ کوہ سلیمان تھلہ تھوخ میں ایک شخص سنگھڑ رود سیلابی ریلے میں بہہ کر جاں بحق ہو گیا۔ اس کی لاش مقامی لوگوں نے نکالی۔ تونسہ موسی خیل ہوٹل کی چھت گرنے سے دنیا خان کے بھائی حاجی موسیٰ خان جاں بحق ہو گئے اور چھ افراد زخمی ہیں۔ کوہ سلیمان میں 496 سے زائد جانور بہہ گئے اور یار خان نورانی کے 50 اور ۔ مویشیوں کی یہ تعداد اس تعداد سے کم ہے جو پہاڑی تودے گرنے سے مر گئے۔
تونسہ ڈوب گیا ہے جانی نقصان کوہ سلیمان کی نسبت 90 فیصد کم مگر تمام تر مکانات و سامان بہہ گئے۔ بستیاں زیر آب ہیں اور 5 لاکھ لوگ براہ راست متاثر ہوئے۔ تونسہ کے شمال میں رمک تک اور جنوب کی طرف راجن پور و جامپور تک اور مغرب میں کوہ سلیمان کے آخری پہاڑوں تک حالیہ بارشوں کی وجہ بے تحاشا تباہیاں ہوئی ہیں۔
انتظامیہ کی 20 اگست تک کی ایک رپورٹ ملاحظہ فرمائیے اور بارشیں ابھی تک تسلسل کے ساتھ جاری ہیں :
ڈیرہ غازیخان انتظامیہ نے بارشوں، رودکوہیوں سے ہونے والی تباہی و نقصانات کی ابتدائی رپورٹ جاری کردی ہے۔
25جولائی تا20اگست کے دوران 342بستیاں، 80یونین کونسلیں سیلابی پانی سے متاثر ہوئیں۔.
رودکوہیوں کے پانی سے6لاکھ 99 ہزار 502 افراد براہ راست آفت کا شکار ہوئے۔ 14لاکھ81ہزار361ایکڑ رقبہ متاثر، سیلابی پانی سے58 ہزار593مکانات تباہ ہوئے۔
25جولائی تا13اگست کے دوران تحصیل ڈیرہ غازیخان، تونسہ،کوٹ چھٹہ،کوہ سلیمان میں 242بستیاں/مواضعات زیر آب آئے.
14تا 20ا گست کے دوران تحصیل ڈیرہ غازیخان کی7، تونسہ کی 51، کوٹ چھٹہ کی 9، کوہ سلیمان کی 33بستیاں اور ستائیس یونین کونسلز براہ راست متاثر ہوئیں۔1157923 ایکڑ رقبہ اور 45273 مکانات کو نقصان پہنچا۔
ڈیرہ غازی خان کی ضلعی انتظامیہ نے25جولائی تا20اگست کے دوران بارشوں اور رودکوہیوں سے ہونیوالی تباہی اور نقصانات کی ابتدائی رپورٹ جاری کردی ہے، اس دوران ضلع بھر میں 342مواضعات اور بستیاں،80یونین کونسلیں سیلابی پانی سے متاثر ہوئیں، رودکوہیوں کے پانی سے6لاکھ99ہزار502 افراد براہ راست آفت کا شکارہوئے، 14لاکھ81 ہزار361ایکڑ رقبہ بھی متاثر ہوا، سیلابی پانی سے58ہزار593مکانات تباہ ہوئے 25جولائی تا 13اگست کے دوران تحصیل ڈیرہ غازیخان، تونسہ،کوٹ چھٹہ،کوہ سلیمان میں 242بستیاں اور مواضعات زیر آب آئے. 53یونین کونسلز جبکہ ایک لاکھ 48ہزار 906 لوگ متاثر ہوئے،تین لاکھ 23ہزار 438ایکڑ رقبہ سیلاب کی زد میں آیا اور 13320مکانات تباہ ہوئے۔ 14تا 20ا گست کے دوران تحصیل ڈیرہ غازیخان کی سات بستیاں،تونسہ کی 51،کوٹ چھٹہ کی نو جبکہ کوہ سلیمان کی33بستیاں اور ستائیس یونین کونسلز براہ راست متاثر ہوئیں جن سے 1157923 ایکڑ رقبہ اور 45273مکانات کو بھی نقصان پہنچا۔
عاطف توقیر صاحب!
یہ رپورٹ بہت کم تعداد کی وضاحت کر رہا ہے کوہ سلیمان کا راستہ بارشوں کی وجہ سے چاروں صوبوں سے کٹ گیا ہے اور نیٹ ورک تیل نہ ہونے کی وجہ مسلسل چھٹے دن سے بند ہے کوئی انتظامیہ فی الوقت وہاں سروے کرنے نہیں پہنچی ہے۔ وہاں کی یہ تعداد شاید پہلے مختلف علاقوں سے عوامی توسط سے معلوم کر لی گئی اور وہاں اب ایک انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ وہاں بھوک سے مر رہے ہیں۔ وہاں لوگ گھر گرنے کی وجہ سے کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں یا پھر چٹایوں کے ٹینٹ بنا کر لوگوں خدا کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ کب اس آفت کو تھام لے۔
عاطف توقیر صاحب!
جیسے میں نے اوپر بیان کیا کہ یہاں ریسورسز کی مقدار کافی زیادہ ہے اسلیے یہاں ریاستی مشینری کی پہنچ کافی زیادہ ہے مگر وہ صرف ان مخصوص علاقوں میں اپنے پناہ گاہوں تک محدود ہیں جہاں سے وہ ریسورسز لے جا رہے ہیں۔ جیسے کہ ان حالات میں ریاستی ذمہ داریاں انتہائی زیادہ ہوتی ہیں مگر یہاں ریاستی امداد 2فیصد بھی نہیں ہے اُس مقدار کے جو ہونا چاہیے تھا۔ یہاں پر ایک ہیلی کاپٹر 25 ٹینیٹ لے کر اس علاقے کو پہنچا۔ جہاں 25000 سے زائد لوگوں کے مکان گر گئے عوام وہاں ٹینٹس چھیننے کے لیے آپس میں گتھم گتھا ہوگئے اور یہاں ایک دلچسپ بات بتاؤں کہ کہ عین اسی جگہ ایک عوامی تنظیم ( بلوچ راج ) 500ٹینیٹ پیدل وہاں تک لے پہنچے۔
محترم عاطف صاحب !
المختصر تونسہ ڈیرہ غازیخان راجن پور جام پور اور کوہ سلیمان کے پہاڑے علاقے حالیہ بارشوں کی وجہ سے 80 فیصد تباہ ہو گئے ہیں، عوامی زندگیاں اجیرن بن گئیں، مال مویشی بہہ گئے، بچے والدین کے سامنے اور بچوں کے سامنے والدین بہہ گئے، مکانات مکینوں کے سامنے زمین بوس ہو گئے، خواتین کے شادی کے زیورات و گھر کا سارا سامان پانی میں بہہ گیا۔ بلوچ عورت کی چادر جس کو غیر مرد کبھی اترتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ جو کہ ہماری روایت کا ایک حصہ تھی اب کی بار پانی میں بہتے نظر آئے۔
کہتے ہیں دامان کے جانور کے رسی کا ٹوٹ جانا اور پہاڑ کی عورت کی چادر کا گرنا انتہائی ہنگامی صورتحال حال کی نشان دہی کرتی ہیں۔ وہ اس بار ہمیں دیکھنے ملا۔
ایک درد بھرے اور غصے کی کیفیت میں ایک آخری جملہ اگر بد تہذیبی کہیے تو بھی بجا لکھ رہا ہوں۔ یہ چوڑیاں یہ زیور اور عورتوں کی یہ چادر وہاں کے ان نمائندوں کو اور ریاستی دعویداروں کو اگر پہنائے جائیں تو یہ اس چیز کے اب بالکل حقدار ہیں۔
میں ریاست اور اس کے ناجائز ٹھکیداروں کو کہنا چاہتا ہوں۔ اگر جاپان کے ہیرو شیما اور ناگاساکی بمباری کے بعد نئی زندگی کے آغاز کا سوچ سکتے ہیں، اگر کوہلو کے بلوچ گن شپ ہیلی کاپٹرز، جیٹ طیارے، راکٹ لانچرز، مشین گنز اور G3 جیسے توپوں کی رخوں سے خود کو بچ بچا کر جی رہے ہیں۔ تو ہم ان کے ہمسائے کچھ سخت جان ہم بھی ہیں۔