دل رویا الہیٰ

شیزا نذیر

عمران ہاشمی بالی ووڈ میں ان چند ادا کاروں میں سے ایک ہے جو صرف اور صرف اپنی بہترین اداکاری کی بنا پر دنیا کی ایک بڑی فلم انڈسٹری (بالی ووڈ) میں نام بنائے ہوئے ہے۔ عمران ہاشمی نے کئی آرٹ فلمیں کی ہیں جن میں اپنی اداکاری کے جوہر دیکھائے ہیں۔ بالی ووڈ کے کئی بہترین گیت عمران ہاشمی پر پکچرائز ہوئے ہیں۔ دل رویا الہٰی، ہماری ادوھوری کہانی، عشق صوفیانہ، یا علی، وغیرہ۔ ڈانس، بالی ووڈ فملوں میں کام کرنے کے لئے اشد ضروری ہے لیکن عمران ہاشمی کو اپنی با کمال اداکاری کی بدولت اس اشد ضرورت کی ضرورت نہیں ہے۔ کنگنا رناوٹ کے ساتھ عمران کی ایک فلم “راز” 2008 میں ریلیز ہوئی تھی۔ یوں تو اس فلم میں عمران کی اداکاری ایوریج ہے کیونکہ اداکاری کا مارجن ہی اتنا نہیں تھا لیکن اس فلم کے چند ڈائیلاگ مجھے بہت اچھے لگے۔

عمران اس فلم میں آرٹسٹ ہے اور کہتا ہے کہ “میرے والد کہا کرتے تھے کہ دنیا بذات خود ایک شہکار ہے، اسے پینٹ کرنے کی بجائے اس کا خیال رکھو”. جب میں شمالی علاقوں میں سفر کرتی ہوں تو فطرت کے مناظر کو دیکھنے میں اس قدر مگن ہو جاتی ہوں کہ تصویر تو دُور کی بات سیلفی لینا بھی بھول جاتی ہوں۔ میں نے نوٹ کیا ہے کہ لوگ جیسے ہی مناظر دیکھتے ہیں فوراً سیلفیاں لینا شروع کر دیتے ہیں۔ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن میں اکثر کہتی ہوں کہ جی بھر کر یہ مناظر دیکھو اور یادگاری کے لئے تصاویر بھی لے لو۔ لیکن مجھے اعتراض اس وقت ہوتا ہے جب سیلفی لے کر چیپس کھا کر ریپر جھیل میں پھنک دیا جاتا ہے۔

ہم میدانی علاقوں کے رہنے والوں نے اپنے شہروں کا تو ناس کیا ہی ہے اور اب قدرت کے حسین مناظر کو بھی اپنی جہالت کی نظر کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ وہاں پر کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کیا انتظام ہے کیونکہ صفائی کا عملہ کبھی دیکھا نہیں۔ صفائی نصف ایمان ہے اور اس کے لئے ہم اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ ریپر اپنے بیگ میں رکھ لیں اور کہیں ڈسٹبین نظر آنے پر اس میں ڈال دیں بلکہ ہم اپنا آدھا ایمان کہیں سے واپس آنے پر وہیں پھینک آتے ہیں۔

ایک اور سین میں کنگنا اور عمران ایک پجاری کی بیوی کہ پاس جاتے ہیں جو جسم فروشی کا دھندہ کرتی ہے۔ اس کا شوہر بہت اذیت ناک موت مرتا ہے۔ پجاری کی بیوی کا کہنا ہے کہ اس کے شوہر کے پیسوں سے زیادہ پاک اس کی جسم فروشی کی کمائی ہے کیونکہ اس کا شوہر ہزاروں لوگوں کے جذبات خریدتا اور اُن کا خون کرتا تھا۔ ان کو مختلف قسم کے لالچ دیتا تھا۔ اُس کا شوہر مندر کا پجاری لوگوں کے خون کا ذمے دار ہے۔
بات کچھ یوں تھی کہ عمران کا والد مندر سے ملحق ایک تالاب کے پانی کا معائنہ کرواتا ہے جس میں اس علاقے کی ایک یو ایس فیکٹری کا آلودہ پانی شامل ہوتا ہے جس کے سبب مقدس تالاب کا پانی زہریلا ہو جاتا ہے کہ اس میں نہانے سے جان لیوہ بیماریاں لگتی ہیں لیکن فیکٹری کا مالک اور مندر کا پجاری عمران کے باپ کا قتل کروا دیتے ہیں کیونکہ اگر یہ ثابت کر دیتا تو ایک تو فیکٹری بند ہوتی اور دوسرا مقدس تالاب میں نہانے سے منع کر دیا جاتا تو مندر کی آمدن ٹھپ ہو جاتی۔

فیکٹریوں کے آلودہ پانی پر ہالی ووڈ اداکارہ جولیا رابرٹ کی ایک فلم ہیں۔ انڈین “راز” اور ہالی ووڈ Erin Brockovich ایک ہی موضوع پر ہیں لیکن کہانی یکسر مختلف ہے حالانکہ بالی ووڈ میں بے شمار ایسی فلمیں ہیں جو ہالی ووڈ کی کہانیوں کا چربہ ہیں۔ اگر آپ کو وقت ملے تو یہ فلم ضرور دیکھیں۔ اِس فلم میں بھی تین بچوں کی بے روزگار ماں اپنے آپ کو پروفیشنل ثابت کرنے کے لئے ایک فیکڑی پر مقدمہ کر دیتی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اُسے اپنی اور بچوں کی پروا نہیں رہتی بلکہ وہ انسانیت کی خاطر طاقت ور لوگوں سے ٹکر لیتی ہے۔

ایک دِن کسی کی وال سے ایک پوسٹ پڑھی کہ “مغربی معاشرہ انسان دوست معاشرہ ہے، پاکستان مذہب نواز، انسان دشمن معاشرہ ہے”۔ ہم میں بے حسی اِس قدر پھیل چکی ہے کہ یہ دولت مند طبقے سے ہوتی ہوئی اب مزدور طبقے میں بھی سرایت کر چکی ہے۔ فیکڑیوں کا آلودہ پانی تو ایک طرف، مزدور طبقہ دودھ، سبزیاں، پھل، گوشت، دیگر ایشائے خوردونوش میں ملاوٹ کرتا ہے اور اللہ کا نام لے کر بیچتا ہے۔ اکثر یہ سُننے میں آتا ہے کہ بچے زہریلی قلفیاں کھانے سے مر گئے۔ ٹھیلوں پر بکنے والی چیزیں کوئی بڑا تاجر نہیں بلکہ ایک عام مزدر ملاوٹ کر کے بیچتا ہے اور حیرت کی بات یہ کہ اُسی ٹھیلے پر قرانی آیات بھی لکھی ہوتی ہیں۔ مذہب نواز، انسان دشمن معاشرہ۔