دنیا کی آخری کالونی میں جبر اور صبر کی انتہا

عنایت بیگ

امریکی ریاست کے ویت نام سے شرمندہ واپس لوٹنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ خود ریاست متحدہ ہائے امریکہ کے عوام اپنی ریاست کے جنگی جنون کے خلاف امریکہ کے اندر سے کھڑے ہوئے تھے اور اپنی ریاست کے حکمران طبقے سے ویت نام میں جاری جنگی جرائم پر سوال پوچھنے لگے تھے۔ گلگت بلتستان کی خوبصورت وادیوں اور حسین موسم کی خبروں کے پردے کے پیچھے جبر اور جابر کا انتہائی بدصورت اور مکروہ چہرہ بھی موجود ہے جسے ریاست پاکستان کا پالتو میڈیا اپنے عوام سے چھپا کر رکھنے میں اپنی عافیت جانتا ہے۔ پاکستان کی عام عوام کو اپنے آیئنی حدود کے اندر بلوچستان، سندھ، فاٹا اور او کارہ میں جاری ریاستی جبر و بربریت تک کا اندازہ نہیں لگنے دیا جا رہا ہے ، ایسے میں یہ توقع کہ انھیں غیر آئینی و متنازعہ خطے گلگت بلتستان کے حوالے سے ما سواے موسم کی خبروں کے کچھ معلوم بھی ہوگا، اپنے ساتھ اور ان کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔

قدیم بروشال ، دردستان اور بلور کی تہذیب کے باسی بین الاقوامی سامراج کی گریٹ گیم میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہوئے سن سینتالیس میں برطانوی سامراج کے مقامی آلہ کاروں کے ہتھے چڑھ گئے۔ پولیٹیکل ایجنٹ سردار عالم سے لے کر آج کی تاریخ تک غیر متعلقه و غیر مقامی حکمرانی کو بزور طاقت عوامی میں قبولیت بخشی گئی ہے ۔ ایف سی آر کے خلاف جب خطے کی عوام متحرک ہو گئی تو اپنے گھر (لاڑکانہ ) میں جاگیر داری نظام کو پسند کرنے والے ذوا لفقار علی بھٹو کے دل میں اچانک یہاں کے عوام کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ جاگ گیا اور ایف سی آر کے خاتمے کا اعلان کر کے ایف سی آر کے خلاف جاری عوامی تحریک کا کریڈٹ اپنے سر لیا اور ہمارے سادہ لوح عوام نے جئے بھٹو کا نعرہ لگا کر تین رنگوں والے تیر کو اپنی نسلوں کے سینوں میں اتار دیا۔ پھر خطے کی محرومیوں کے خلاف قوم پرست جماعتوں نے تگ و دو شروع کیا ، جس سے خوف کھا کر مختلف ادوار میں مختلف پیکجز کا اعلان بھی کیا جاتا رہا۔ آج بھی 25 لاکھ کی آبادی رکھنے والے 28 ہزار مربع میل کے اس خطے کو محص ایک صدارتی حکم نامے پر چلایا جاتا ہے، جس کو کسی قسم کی آئینی و قانونی حفاظت میسر نہیں ہے ۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری کے نامعلوم منصوبے کے تناظر میں پہلی مرتبہ اس خطے سے متعلق سیاسی بحث منظر عام پر آ چکی ہے جس میں سواے جھوٹے پراپگنڈے کے اور کچھ بھی نہیں۔ اسلام آباد نواز جماعتیں اور ان کے مقامی کارندے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کے چکر میں اس خطے کا سستے داموں سودا کرتے آئے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کی آئینی خستہ حالی کے جابرانہ تسلسل میں اسلام آباد نواز مقامی حکمران طبقہ بھی ہمارا مجرم ہے۔ راہداری سے متعلق بننے والے بین الاقوامی دباؤ کے تناظر میں اس خطے کے آئینی مستقبل کا تعین لازمی تھا ، جس کے لئے مقامی ہرکارے پانچویں صوبے کا راگ الاپتے تھے، جسے خطے کی مزاحمتی قوتیں پہلے ہی نا قابل عمل کہہ کر مسترد کر چکی تھیں اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کر چکی تھی، مگر آج یہی بات پاکستانی اشرفیہ اور اس کے مقامی ایجنٹ کہنے لگے ہیں اور مسیحا بنے بیٹھے ہیں ۔ کشمیر پر ریاست پاکستان کے موقف کو کمزور کئے بغیر خطے کی مزاحمتی تحریکوں اور جماعتوں نے اسٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی سمیت آزاد کشمیر طرز کے سیٹ اپ کا بھی مطالبہ کیا ہے، دفاع، کرنسی اور خارجہ پالیسی کو مرکز میں رکھ کر باقی تمام تر اختیارات گلگت بلتستان کی ایک خود مختار آئین ساز اسمبلی کو دیے جانے پر بھی بحث رکھی گئی ہے، مگر نوآبادیاتی آقاوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔

پہلےپیپلز پارٹی کا سیلف گوورننس آرڈیننس اورپھر نون لیگ کا گلگت بلتستان ریفارمز آرڈر 2018 جس کو عوام نے یکسر مسترد کیا ہے ، جبری طور پر لاگو ہیں ۔ خبریہ تھی کہ عوامی رد عمل کی وجہ سے ریفارمز آرڈر2018 کو روک دیا گیا ہے مگر اب قومی سلامتی کمیٹی کے مشترکہ اعلامیے (جس میں گلگت بلتستان کی کوئی نمائیندگی نہیں ) میں گلگت بلتستان کو ٹیکس فری لالی پاپ دے کر خطے کی کی منتخب اسمبلی کو صرف مشاورتی کردار سونپا گیا ہے۔

ان کاغذی کاروائیوں کے علاوہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ اس خطے کی قومی جدوجہد کو سبوتاژ کرنے کے لئے ضیائی دور میں ریاستی سرپرستی میں بین المسالک نفرتوں کو بڑے پیمانے پر ہوا دیا گیا اور جب بھی یہاں حقوق کے حصول کی بات چلی، شیعہ سنی کے نام پر محنت کش عوام کو آپس میں لڑایا گیا۔ہمیں حیرانگی ہوتی تھی کہ گلی محلوں میں شیعہ اور سنی امن و بھائی چارے کے ساتھ رہتے تھے مگر اچانک ایک حادثہ ہوتا تھا اور یہی پر امن لوگ ایک دوسرے کے جان کے پیاسے ہو جاتے تھے۔ اور اب وقت نے یہ معجزہ بھی دکھلایا کہ سی پیک کی کاروائیاں شروع ہوتے ہی اورنگزیب فاروقی جیسے لوگ بھی گلگت بلتستان میں امن کی تلقین کرنے پہنچ گئے ہیں۔ ہمارے اکثر دوست اس وقفے کو حالات کے بہتر ہونےسے تشبیہ دیتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ریاست اپنی “وسیع قومی مفاد” کے “نظریہ ضرورت “کے تحت امن اور جنگ کا کاروبار چلاتی آ رہی ہے۔

پاکستان کے نامور پارلیمانی رہنما، سینئر قانون دان ، اہم وفاقی وزراء اور دانشور بارہا یہ واضح کر چکے ہیں کہ گلگت بلتستان پاکستان کا آئینی حصہ نہیں اس لئے پاکستانی آئین کا اطلاق کسی ایسے خطے میں ہو ہی نہیں سکتا جو اس کے آئینی دائرہ کار میں نہ ہو۔عوام کے حق حکمرانی کی ضمانت دینے والا آئین ، روزگار ، صحت اور تعلیم کی ضمانت دینے والا آئین اور اپنے وسائل کی مقامی سطح پر استعمال کو یقینی بنانے والا آئین بالکل یہاں لاگو نہیں ہو رہا ہے، مگر جبر کے تمام قوانین نہایت آسانی سے یہاں لاگو کئے جاتے ہیں۔ عوامی حق کی خاطر لڑنے والے تمام سیاسی رہنما بغاوت اور دہشت گردی کے مقدمات میں پابند سلاسل ہیں، عوامی رائے کو جگہ دینے والے تمام مقامی اخبار بند کر دئے گئے ہیں، اخباروں کے مدیر ان تک قید کئے جا چکے ہیں۔موسمیاتی تبدیلی کے شکار عوام کو معاوضہ دئے جانے کی جدوجہد کرنے والے بابا جان، افتخار، علیم و دیگر عمر قید کی سزائیں بھگت رہے ہیں۔ ڈی جے مٹھل اخبار میں عوامی رائے کو جگہ دینے کی پاداش میں قید ہیں ، حسنین رمل سوشل میڈیا پر حقوق کی آواز بلند کرنے پر اپنے معصوم بچوں سے دور کال کوٹھری میں زندگی کے باقی دن کاٹ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ لگ بھگ چار سو کے قریب سیاسی کارکنان شیڈول فور میں ڈالے گئے ہیں (جو مقامی تھانے کے ایس ایچ او کی اجازت کے بغیر اپنے گاؤں سے دوسرے گاؤں تک بھی نہیں جا سکتے اور کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتے)۔ بولنے والوں کو مفلوج کر دیا گیا ہے اور اب کھلے عام لوگوں کی زمینوں پر قبضے، اور معدنیات اور دیگر اہم وسائل کی لوٹ مار بڑے پیمانے پر جاری ہے۔

کہیں پر سینکڑوں کنال عوامی اراضی واپڈا کے نام پر اٹھائی جا رہی ہے، کہیں پر ڈرائی پورٹ عسکری ادارے یہ سمجھ کر اٹھا لیتے ہیں کہ شاید وہ لوگ جنہوں نے یہ پورٹ تعمیر کیا تھا، اب چلانے کے قابل نہیں رہے (شاید وہ سچ بھی کہ رہے ہوں)۔ زمینوں پر قبضے کا سلسلہ پرانا ہے،۔ پہلے چترال کو کاٹ کر پختونخواہ میں ضم کیا گیا، پھر کوہستان، پھر اسکائی چن کمیونسٹ دوست ملک کو سونپا گیا، لداخ کھو چکے اور اب جو بچی زمینیں ہیں ، ان میں فوجی چھاونیاں بنانے ، ملک ریاض کا بحریہ ٹاؤن بنانے ، طلحہ محمود کی چاکنگ کرنے ، غیر مقامی سیاسی و عسکری اشرفیہ کے لئے فارم ہاوسز بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس خطے میں غیر مقامی اثر رسوخ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ گلگت بلتستان کے کل بجٹ کا قریب 50 فیصد غیر مقامی بیوروکریسی کی تنخواہوں اور عیاشیوں کی مد میں واپس پنجاب چلا جاتا ہے۔

اس تمام جبر سے نجات گلگت بلتستان کی داخلی طور پر خود مختار عوامی اسمبلی کے قیام میں ہے۔ اب گلگت بلتستان کی عوام پانچویں، اسپیشل اور عبوری صوبے وغیرہ کی گمراہ کن بحث سے مکمل نجات چاہتی ہے۔کشمیر پر ریاست پاکستان کے موقف کا احترم کرتے ہوئے ہم اب مسلہ کشمیر کے حتمی فیصلے تک متفقہ طور پر آزاد کشمیر طرز کے سیٹ اپ (بشمول سٹیٹ سبجیکٹ رول ) یا پھر دفاع ، کرنسی اور خارجہ پالیسی کے علاوہ قانون سازی کے تمام قلمدان گلگت بلتستان کی ایک خود مختار آئین ساز اسمبلی کو دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس سے کم کسی بھی انتظامی سیٹ اپ پر اب سمجھوتہ نہیں ہوگا کیونکہ اب تمھارا جبر اور ہمارا صبر دونوں اپنی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔