دہشت گردی کی معاونت والی فہرست اور ہماری بدقسمتی

عاطف توقیر

آج پیرس میں بین الاقوامی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا اجلاس ہو رہا ہے۔ اس اجلاس میں اس بات پر بحث ہو گی کہ آیا پاکستان کو دہشت گردی کی مالی معاونت کرنے والے ممالک کی گرے فہرست میں رکھا جائے یا نہیں۔ مارچ میں بین الاقوامی برادری اس بات پر قریب متفق تھی کہ پاکستان کو اس فہرست میں رکھا جائے۔ اس حوالے سے پاکستان پر سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ اس کی سرزمین اور بینکنگ نظام دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے میں ناکام رہا ہے۔

اس اجلاس میں پاکستان پر دیگر شدید نوعیت کے الزامات بھی عائد کرتے رہے جب کہ پاکستان کے قریبی تعلقات کے حامل چین اور سعودی عرب نے بھی عالمی برداری کی جانب سے پیش کی جانے والی دستاویزات، شواہد، ثبوت اور دلیلیں سنیں تو پاکستان کو اس فہرست میں شامل کرنے سے متعلق اپنے اعتراضات واپس لے لیے تاہم اسلام آباد حکومت کی جانب سے ایک مرتبہ پھر اس وعدے کے بعد کہ وہ دہشت گردی کے انسداد کے لیے موثر اقدامات کرے گی، پاکستان کو تین ماہ کا وقت دیا گیا۔

اس دوران حکومت اور اداروں کی جانب سے ایسے کیا اقدامات کیے گئے، جو ماضی میں نہیں ہوئے تھے اور کون کون سی عسکری تنظیم کی مالی طور پر کمر توڑی گئی؟ یا کون سے غیرمعمولی اقدامات اٹھائے؟ یہ شاید ہم میں سے کوئی نہیں جانتا۔

تاہم اس صورت میں قومی امکان یہی ہے کہ اس بار پاکستان کو اس فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو ہماری پہلے سے تباہ حال معیشت کے لیے یہ ایک اور دھچکا ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے لیے اور پاکستان سے ہونے والی تمام بینکنگ ٹرانزیکشنز میں زیادہ وقت درکار ہو گا اور سرمایہ کار ایسی صورت حال میں اپنا پیسہ پاکستان میں انویسٹ کرنے سے کرتا ہیں گے، یعنی مزید غربت اور مزید ابتری۔

امریکی صدر ٹرمپ نے رواں برس کا اپنا پہلا ٹوئٹ پاکستان کے حوالے سے کیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے انسداد کے لیے پاکستان کو “اربوں ڈالر” دیے گئے جس کے بدلے میں امریکا کو پاکستان سے جواب میں صرف دھوکا ملا۔ ایسی صورت حال میں ہمیں تیاری کرنا چاہیے تھی کہ کس طرح کسی مشکل صورت حال کی صورت میں ہم مقابلہ کر پائیں گے اور ایسے ضروری اقدامات کرنا چاہیے تھے کہ طرف عالمی سطح پر پاکستان سے متعلق امیج بہتر ہو اور دوسری طرف اس فہرست میں آنے سے بچنے کی کوئی تدبیر ہو، مگر اس ملک کے حاکموں کو اس ملک یا قوم کے مفادات کا احساس ہوتا تو صورت حال یہاں تک پہنچتی ہی کیوں۔

عالمی سطح پر ہمیں دیکھا کس طرح جا رہا ہے؟ اس کے لیے پاکستانی میڈیا یا فوجی ترجمان کے بیانات اور دعووں کو ایک طرف رکھ کر ایک لمحے کے لیے خود کو کسی نیوٹرل ملک کا شہری سمجھیے، جس کا پاکستان سے کوئی لینا دینا نہیں، اور پھر اس صورت حال پر اپنی رائے بنائیے۔

فرض کیجیے آپ کا تعلق برازیل سے ہے یا کانگو یا زمبابوے سے اور آپ کا پاکستان سے کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے۔ ایسے میں اگر آپ کے سامنے یہ حقائق آئیں تو پاکستان سے متعلق آپ کی رائے کیا بنے گی؟ ایسے میں جذبات کو کچھ دیر کے لیے الگ رکھ کر حقیقت پسندی سے ذرا حالات کا جائزہ لیتے ہیں۔

سن 2004 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسامہ بن لادن کو دہشت گرد قرار دینے اور دہشت گردی کی عالمی تعریف سے متعلق قرارداد پیش کی جاتی ہے اور پاکستان سلامتی کونسل کے رکن (غیر مستقل) کی حیثیت سے اس قرارداد کے حق میں ووٹ ڈال کر اسامہ بن لادن کو عالمی دہشت گرد قرار دلواتا ہے، یعنی بہ طور ریاست پاکستان تسلیم کرتا ہے کہ اسامہ بن لادن دہشت گرد ہے، مگر وہی اسامہ بن لادن ملتا پاکستان کی سب سے بڑی فوجی اکیڈمی سے چھ سو میٹر دور ہے، جہاں وہ کئی برس تک رہتا ہے اور جب مارا گیا تو ہم نے یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ ہمارے خفیہ ادارے “نااہل” ، “لاپروا” اور “بے خبر” تھے۔

https://youtu.be/pbiPGHDgH9Q

ملا عمر کئی برس تک کراچی میں رہتا رہا اور یہاں کے ایک مقامی ہسپتال میں مرا، مگر دنیا نے یہی دیکھا کہ ہم اور ہمارے ادارے مکمل طور پر بے خبر رہے۔

پاکستان آگ اور خون میں نہا رہا تھا اور یہاں ہر نئے فوجی سربراہ کے ساتھ ایک نیا عسکری آپریشن شروع کیا جا رہا تھا مگر دنیا نے دیکھا کہ آیا وہ بیت اللہ محسود یا حکیم اللہ محسود یا پھر ملا منصور اہم طالبان لیڈر امریکی ڈرون حملوں میں مارے گئے۔

دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں دہشت گرد قرار دیے گئے حافظ سعید کی سرگرمیاں ملک بھر میں جاری رہیں۔ دنیا کہتی رہی کہ حافظ سعید اور ان کی جماعت کی سرگرمیوں کو محدود کیا جائے، مگر ہماری طرف سے عالمی برادری کا اشارہ یہ گیا کہ اب حافظ سعید ایک سیاسی جماعت “ملی مسلم لیگ” قائم کر چکا ہے اور انتخابات میں حصہ لے رہا ہے۔

ڈان لیکس کے معاملے پر عالمی برادری کو پیغام یہ گیا کہ ملک کی جمہوری حکومت مکمل طور پر بے بس ہے اور ملک میں موجود عسکریت پسندوں کے خاتمے کی راہ میں خود عسکری ادارے حائل ہیں۔

وزیرستان کے علاقوں میں امن لشکروں کے نام پر لوگوں کو مسلح کرنا اور انہیں جمہوری حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کے خلاف استعمال کرنا بھی دنیا نے دیکھا۔ یہ بھی دیکھا کہ فرقہ ورانہ بنیادوں پر انسانوں کے قتل عام میں ملوث تنظمیوں پوری آزادی سے پاکستان کے گلی محلوں میں دندناتی رہیں۔

دنیا نے دیکھا کہ شدت پسندانہ سوچ کے ساتھ اسلام آباد شہر کے اہم داخلی راستے کو بند کرنے والے خادم رضوی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی بلکہ اس کے حامیوں، جو پولیس پر حملوں میں ملوث تھے، میں پیسے تقسیم کیے گئے۔

دنیا نے دوسری طرف یہ بھی دیکھا کہ اس بیانیے اور ریاستی اداروں کی ان پالیسیوں پر فقط آواز اٹھانے والوں کو بڑی مستعدی سے غائب کیا گیا، لاپتا کیا گیا، ماورائے عدالت قتل کیا گیا اور جیلوں میں ڈالا گیا۔

یعنی دنیا نے دیکھا کہ ایک طرف تو ریاست کے خفیہ اداروں کی کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ وہ آن لائن چار سطر کی تنقید لکھنے پر غائب کیے جا سکتے ہیں، قتل کیے جا سکتے ہیں اور گرفتار کیے جا سکتے ہیں اور دوسری جانب دہشت گرد بلا خوف دیس میں دندناتے پھر سکتے ہیں، سرگرمیاں کر سکتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی بھی ایکشن لینے کی بجائے پکارا جاتا ہے کہ ثبوت نہیں ہیں۔ یعنی آن لائن تنقیدی جملے لکھنے والوں کے لیپ ٹاپ اور موبائل فون تک ضبط کیے جا سکتے ہیں، مگر دوسری طرف اصل دہشت گردوں کی سرکوبی کے لئے ثبوت موجود نہیں ہیں۔

پھر فوج کے ریٹائرڈ جنرل خود میڈیا پر آ کر یا اپنی کتابوں میں آئی ایس آئی اور فوج کی اندرونی کہانیاں افشا کر کے بتاتے ہیں کہ کس انداز سے جی ایچ کیو پاکستان کے تمام تر ذرائع، وسائل اور اختیارات پر قابض ہے۔

اب ایسی صورت حال میں آپ کسی نیوٹرل ملک کے شہری ہونے کے ناطے یہ بتائیے کہ پاکستان کی بابت آپ کی رائے کیا بنے گی؟ ایک جنرل جب اپنی کتاب میں مرنے والے عام شہریوں کو “کولیٹرل ڈیمیج” قرار دیتے ہوئے کہے گا کہ پالیسی فیصلوں میں لوگ تو مرتے ہی ہیں، تو دنیا ہماری جانب سے ستر ہزار افراد بہ شمول بیس ہزار فوجیوں کی ہلاکت کے ہمارے بیانیے کو کیسے قبول کرے گی؟

اس سے زیادہ بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ اس ملک میں ان پالیسیوں پر تنقید کرنے والے افراد کو “آپ ملک کا امیج خراب کر رہے ہیں” بھی سننا پڑتا ہے۔

عالمی فورم میں گفت گو یہ ہو رہی ہے کہ پاکستان کے بیکنگ نظام کی کڑی نگرانی کی جائے تاکہ دہشت گردی کی مالی معاونت کا سدباب ہو۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس سے پاکستان کا امیج خراب نہیں ہو رہا۔ یہ امیج صرف اس وقت خراب ہوتا ہے، جب کوئی ان پالیسیوں اور ملک میں انسانی حقوق کی بربادی پر آواز اٹھاتا ہے۔

ہماری ستر سالہ بدقسمتی یہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص ریاستی بیانیے پر سوال اٹھائے اور لوگوں کو خواب خفلت سے بیدار کرے، فوراﹰ کسی کونے سے آواز آتی ہے آپ ملک کا امیج خراب کر رہے ہیں۔ یعنی ہم نے مسائل کو ختم نہیں کرنا بلکہ ان پر خاموشی کی مٹی ڈال کر کسی شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ دبا کر رکھنا ہے کیوں کہ اس تباہی پر چیخنے سے ملک کا امیج خراب ہونے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ مسائل جوں کے توں رہیں اور ہماری ہڈیوں کا گودا تک نکال کر کھا لیا جائے، ہمارے بچوں کا مستقبل برباد کر دیا جائے، مگر آواز تک نہ نکلے۔

سوال یہ ہے کہ اس تباہی بلکہ ہر روز ایک نئی تباہی کا باعث بننے والی پالیسیوں پر بات کرنے سے پاکستان کا امیج خراب ہو جائے گا؟ یعنی پاکستان کا امیج اس فہرست میں آنے سے خراب نہیں ہو گا بلکہ اس پر بات کرنے سے خراب ہو گا؟ اگر ایسا ہے، تو آئیے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں۔

https://youtu.be/L6D-PhXAOio

دوسرا سوال پاکستان کا امیج بہتر کیسے ہو گا، ہم شتر مرغ کی طرح منہ ریت میں چھپا لیں اور ان ریاستی پالیسیاں بننانے والوں پر بات نہ ہو؟ یا اب پوری قوت سے دستوری دائرے مین رہتے ہوئے اس دیس کی باگ ڈور ان بلاؤں سے واپس لی جائے؟

اب جو چپ ہیں انہیں قاتل ہی پکارا جائے

ہماری ستر سالہ بدقسمتی یہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص ریاستی بیانیے پر سوال اٹھائے اور لوگوں کو خواب خفلت سے بیدار کرے، فوراﹰ کسی کونے سے آواز آتی ہے آپ ملک کا امیج خراب کر رہے ہیں۔ یعنی ہم نے مسائل کو ختم نہیں کرنا بلکہ ان پر خاموشی کی مٹی ڈال کر کسی شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ دبا کر رکھنا ہے کیوں کہ اس تباہی پر چیخنے سے ملک کا امیج خراب ہونے کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ مسائل جوں کے توں رہیں اور ہماری ہڈیوں کا گودا تک نکال کر کھا لیا جائے، ہمارے بچوں کا مستقبل برباد کر دیا جائے، مگر آواز تک نہ نکلے۔

شرمین عبید چنوئے نے خواتین پر تیزاب پھینکے کے واقعات پر فلم بنائی تو اس ملک میں بحث یہ نہیں تھی کہ اس ظلم کو کیسے روکا جائے، شور یہ تھا کہ اس سے تو ملک کا امیج خراب ہو گئے۔ خواتین کا چہرہ اور زندگی برباد ہوتی ہے، تو ہوتی رہے، ہم غیرت مند جو ہیں۔

کسی نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آواز اٹھائی، تو اس بات پر گفت گو کرنے کی بجائے کہ بچیوں کی تعلیم ملک کی ترقی اور مستقبل کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کوئی ضیاالحق کی تیار کردہ مطالعہ پاکستان کا ڈسا محب وطن پکارا یہ ملک کا امیج خراب کرنے کی بین الاقوامی سازش کا حصہ ہے۔

کسی نے صحت کے شعبے کی بربادی پر بات کی، کسی نے ملک میں شدت پسندی پر ریاستی عناصر کی آشیرباد کا ذکر کیا، کسی نے بلوچوں، سندھیوں، مہاجروں، سرائیکیوں، کشمیریوں، گلگت بلتستان کے باسیوں، یا پشتونوں حتی ٰ کے پنجاب کے متعدد علاقوں میں بسنے والوں کے حقوق پر بات کی، تو صحت کے شعبے میں اصلاحات، شدت پسندی کے انسداد یا حقوق کی عدم دستیابی پر بات چیت ہمارے پیش نظر نہیں تھی، بلکہ مدعا یہ تھا کہ یہ بات کر کے اصل میں اس سے ملک کا تشخص خراب کیا جا رہا ہے اور مسائل پر آواز اٹھانے والے نے ضرور کسی دوسرے ملک کے خفیہ ادارے سے پیسے پکڑ لیے ہیں۔

پھر ایک اور بیانیہ آج کل ایوان حکم و اقتدار سے ہمارے کانوں کی زینت ہے اور وہ یہ کہ کسی بھی مسئلے کی جانب کوئی شخص توجہ دلائے، تو فوراﹰ کہیے کہ پاکستان ایک گھر ہے اور ہم سب اس گھر کے باسی اور گھر کے لوگ اپنے مسائل پڑوسیوں کو نہیں بتاتے، کیوں کہ اس سے گھر کا امیج خراب ہو جاتا ہے۔ مقصد پھر وہی ہے کہ بات مت کیجیے۔ یعنی گھر کے لوگوں سے بات کرنے کا کوئی معجزاتی طریقہ ڈھونڈ لیا جائے اور کسی بھی عوامی فورم پر بات نہ کی جائے۔

ملک کے وردی پوش حاکموں کی جانب سے آج کل تیسری طریقہ واردات یہ ہے کہ زرخرید دفاعی تجزیہ کاروں کی شکل میں مسخروں کو پیسے دے کر ’ففتھ جنریشن وار‘ کا نعرہ لگا دیا جائے، یعنی اگر کوئی شخص بہ طور شہری کسی ریاستی پالیسی یا حکمت عملی پر تنقید کرے تو فوراﹰ اسے غیرملکی ایجنٹ قرار دیا جائے اور ملک کی بربادی کی ذمہ دار پالیسیوں پر نظرثانی کرنے کی بجائے ایسی آوازوں کو خاموش کرایا جائے، تو عوامی شعور میں اپنا حصہ ملا سکتی ہیں۔

یعنی پاکستان کا پاسپورٹ دنیا کے بدترین ممالک میں شامل ہو جائے، تو ملکی امیج خراب نہیں ہو گا، مگر آپ نے جس دن اس بربادی کا تذکرہ کیا، تو ملک کا تشخص برباد ہو جائے گا۔ پاکستان صحافیوں پر حملوں اور تشدد کے اعتبار سے دنیا کا خطرناک ترین ملک بن جائے، لیکن اگر آپ نے اس موضوع پر بات کی، تو ملکی تشخص کی دھجیاں اڑ جائیں گی۔ پاکستان میں عالمی دہشت گرد امریکی حملوں میں مارے جائیں، تو ملک کا تشخص بحال رہے گا لیکن آپ نے جس روز ان دہشت گردوں کی ملک میں موجودگی پر سوال اٹھایا، آپ ریاستی اداروں کی نگاہ میں ملک کے تشخص کو تباہ کرنے کے مشن پر سمجھے جائیں گے۔ داخلی سلامتی کے اعتبار سے پاکستان کا شمار نائجیریا، یوگینڈا اور صومالیہ کے ساتھ ہونے لگے، تو چلے گا، مگر آپ نے اگر اس بین الاقوامی رپورٹ کا ذکر کیا، تو اسے ملک کے امیج پر حملہ تصور کیا جائے گا۔

خفیہ اداروں کے ہاتھوں غیرقانونی طور پر لاپتا کئے جانے والے افراد واپس لوٹیں، چیخ چیخ کر کہیں کہ انہیں ان اداروں نے اٹھایا، اپنے جسموں پر تشدد کے نشانات دکھائیں اور جواب میں ریاستی اداروں کے ہاتھوں اغوا کے ان واقعات کی مذمت کرنے کی بجائے، فوراﹰ کوئی زور سے کہے گا کہ یہ پاکستان کے امیج کو خراب کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

ملکی میڈیا پر اس عسکری اسٹیبلشمنٹ کا مکمل قبضہ ہے اور درست اطلاعات اور معلومات تک رسائی ایک منظم انداز سے کنٹرول کی جاتی ہے۔ عوام تک بیانیہ وہی پہنچتا ہے، جو جی ایچ کیو طے کر لیتا ہے۔ ٹھیک یہی بے خبری ہم نے سن 1971 میں دیکھی تھی، جب جنرل نیازی نے دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے والے پہلے مسلمان جنرل کا اعزاز اپنے نام کرنے سے چند گھنٹے قبل سینہ پھلا کر کہا تھا کہ وہ آخری سانس تک لڑیں گے اور ہمارا مشرقی بازو کٹ جانے اور نوے ہزار سے زائد فوج قید ہو جانے کے وقت بھی ریڈیو پاکستان سے ’جنگ کھیڈ نئیں اے زنانیاں دے‘ جیسا گانا چلایا جا رہا تھا۔ اس تباہی کی وجوہات، ذمہ داروں کا تعین اور اس سے سبق کی بات کوئی مفصل معلومات آج تک اس قوم کو نہیں بتائی گئی۔

پیرس میں دہشت گردوں کی مالی معاونت کے انسداد کی ٹاسک فورس میں اس بار پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنے والے زیرنگرانی ممالک کی فہرست میں شامل کرنے پر بحث ہوئی دیا۔وزیرخارجہ خواجہ آصف صاحب اور حکومت اس بابت ’تین مہنیے کے لیے بچ گئے‘ کا اعلان کر کے لڈیاں ڈالتے دکھائی دیے۔ جرنیلوں کے گیے گانے والوں نے بھنگڑے ڈال کر بتایا کہ فوجی سربراہ کی کوششوں پر پاکستان کو فی الحال اس فہرست میں نہیں ڈالا گیا۔

امریکا، جس کے لیے ہم نے ڈالر لے کر جہاد کیا اور اپنے ملک کی سالمیت خطرے میں ڈال دی، اب وہی ہم سے توہین آمیز رویے میں بات کرتا ہے۔

آج کم اس بات پر جشن منا رہے ہیں کہ ہمیں دہشت گردی کی معاونت والی واچ لسٹ میں نہیں ڈالا گیا۔

یہاں دو سوالات ہیں، جو آپ سب سے پوچھے جانا چاہیئں۔ آج عالمی برادری کے سامنے اس موںوع پر گفت گو ہوتی رہی کہ پاکستان کو دہشت گردوں کا معاون کہا جائے یا نہیں۔

اکیا اس تباہی بلکہ ہر روز ایک نئی تباہی کا باعث بننے والی پالیسیوں پر بات کرنے سے پاکستان کا امیج خراب ہو جائے گا؟ یعنی پاکستان کا امیج اس فہرست میں آنے سے خراب نہیں ہو گا بلکہ اس پر بات کرنے سے خراب ہو گا؟ اگر ایسا ہے، تو آئیے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں۔

دوسرا سوال پاکستان کا امیج بہتر کیسے ہو گا، ہم شتر مرغ کی طرح منہ ریت میں چھپا لیں اور ان ریاستی پالیسیاں بننانے والوں پر بات نہ ہو؟ یا اب پوری قوت سے دستوری دائرے مین رہتے ہوئے اس دیس کی باگ ڈور ان بلاؤں سے واپس لی جائے؟

کچھ دن پہلے کوئی دوست ایک لطیفہ سنا رہا ہے کہ ایک شخص ایک جنرل صاحب کو کہنے لگا، جنرل صاحب ٹرمپ کا موڈ ٹھیک نہیں لگ رہا، پیسے بند کر دیے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کل پاکستان بھر میں ڈرون حملے کرنے کا حکم دے دے، کیا آپ تیار ہیں؟ جنرل صاحب بولے، بالکل، ہماری تیاری سو فیص مکمل ہے، پاسپورٹ ریڈی ہے، ویزا لگا ہوا ہے، بس ٹکٹ خریدنا ہے۔

ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اس ملک پر شروع دن سے اختیار اور اقتدار ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، جنہوں نے کبھی اپنے ملک اور اپنی قوم کے مفادات کا نہیں سوچا بلکہ ہمیشہ دوسرے ملکوں کے لیے کرائے کے قاتلوں کا کردار ادا کرتے رہے۔ دوسری طرف اپنے ملک میں خوف کا ایک ماحول بنائے رکھا کہ اگر کسی نے اس بربادی پر آواز اٹھائی تو ملک خطرے میں پر ھ جائے گا اور قوم ایسی سادہ لوح تھی کہ ان ضمیر فروشوں پر اعتبار کرتی رہی۔

دوسری بدقسمتی یہ ہے کہ اس تمام عالمی کارروائی کا نشانہ بھی عوام بنیں گے، جنہیں ڈالر لے کر ملک بیچنے والوں نے مروا دیا، ان کا مستقبل تباہ کر دیا، مگر انہیں ان اربوں ڈالر کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ امریکا اور عالمی برادری کو چاہیے کہ ان ڈالروں کا حساب ان سے لیں جنہیں انہوں نے یہ ڈالر دیے، اس غریب قوم سے نہیں، مگر یہ بھی بدقسمتی ہے کہ ان کی کارروائیوں کا اثر پڑے گا ایک عام فرد پر ہی۔ اس گرے لسٹ میں آنے کا ایک نقصان یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یورپی یونین پاکستان کو بلیک لسٹ کر سکتی ہے اور ایسی صورت میں پاکستانی معیشت پر اور زیادہ بوجھ پڑے گا جسے اصل میں ڈھونا پاکستانی قوم کو ہو گا۔

اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ آپ میں سے کسی کو اس موضوع پر کھل کر بات بھی نہیں کرنے دی جائے گی، مگر اب بس!

اب جو چپ ہیں انہیں قاتل ہی پکارا جائے