ذہنِ فارغ کارخانہِ شیطان

 مہنازاختر

مہوش حیات نے یہ کردیا،  حنا خواجہ بیات نے وہ کردیا،  ٹک ٹاک پر جنت مرزا کے فالورز کی تعداد ایک کروڑ تک پہنچ گئی، پاکستان میں ٹک ٹاک پر ایک قسم کی مشروط پابندی بھی لگا دی گئی۔ قیامت کیوں نہ آئی،  کوئی عذاب کیوں نہ نازل کیا گیا۔ بہنو اور بھائیو!  پاکستان میں بڑھتی ہوئی فحاشی کی وجہ یہی میڈیا اور سوشل میڈیا ایپ ہیں۔ بند کرو ! پابندی لگاؤ!  اور خبروں کی اس شور و غل کے دوران ایک خبر آئی اور ان بڑی بڑی خبروں کے درمیان جگہ نہ بنا سکی،  وہ یہ تھی  چارسدہ میں ڈھائی سالہ بچی زینب کسی درندے کی ہوس کا شکار بن گئی اس بار پچھلی بار کی طرح زیادہ شور نہ مچا اور بات آئی گئی ہوگئی اور ہم نے بہ حیثیت قوم تین دن کا ہی سہی،  اس واقعہ پر سوگ تک نہ منایا۔ حالانکہ اس خبر میں بھی ماضی کے زینب کیس کی طرح تمام ضروری لوازمات موجود تھے کہ ڈھائی سالہ بچی کو نہ صرف جنسی درندگی کا نشانہ بنایا گیا بلکہ اسے انتہائی بے دردی سے قتل بھی کردیا گیا اور لاش کچرابرد کردی گئی، اور جب تک یہ مضمون پبلش ہوگا تب تک ایسی درندگی کے مزید کئی واقعات سامنے آجائیں گے۔

شرفاء پھر سے اپنی شرافت اور معاشرے کی بڑھتی ہوئی بے حیائی کا ڈھول بجانے نکل پڑے ہیں کہ جب معاشرے میں میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے یوں بے حیائی پھیلائی جائے گی تو نر بچہ تو پاگل ہوگا اور ہر روز ہی کوئی بچہ یا بچی اس کا شکار بنے گا۔ مت بھولیے!  عذر گناہ بدتر از گناہ۔ اگر آپ نے غلام عباس کی ”آنندی“  کو پڑھا ہے تو میرے مضمون اور اطراف میں پھیلے ”پابندی پابندی“ کے ڈرامے کو زیادہ بہتر سمجھ پائیں گے۔

ہاں تو آپ کو برا لگا! کہ حنا خواجہ نے ویب سیریز چڑیل میں وہ جملہ کیوں کہا جو شرعی مسائل معلوم کرنے کے لیئے کسی مفتی یا مولوی سے پوچھا یا بتایا تو جاسکتا ہے اور یوٹیوب پر اپلوڈ بھی کیا جاسکتا ہے،  مگر ڈرامے کا ایک کردار اپنی زندگی کے سیاہ ورق پلٹتے ہوئے وہی مکالمہ ادا نہیں کرسکتا یا کرسکتی کیونکہ ہم مسلمان ہیں، ہاں لیکن دماغ کی ہر گندگی کو شرعی مسئلے کا برقعہ پہنا کر یوٹیوب پر ایک اسلامی ویڈیو ضرور ڈال سکتے ہیں۔ پھر آپ کو برا لگا کہ مہوش حیات نے بسکٹ کے اشتہار میں چھاتیوں کی نمائش کیوں کی،  کیا مجرا دکھا کر بسکٹ بیچے جائیں گے؟   آپ بھول گئے کیا کہ خاکی بینر کے تلے بننے والی فلم ”کاف کنگنا“  میں نیلم منیر کے ”مجرے“ کا دفاع کرنے خود ڈی جی آئی ایس پی آر میدان میں آگئے تھے۔ اگر آپ میری ذاتی رائے پوچھیں تو میں کہوں گی کہ سنیما اور آرٹ اظہار کے میڈیم ہیں۔ اظہار کے میڈیم میں کہیں اختلاف ہوبھی جائے یا آپ کو فن کا کوئی نمونہ پسند نہ آئے،  یا وہ آپ کی اخلاقی حدود سے متصادم ہو تو آپ صرف اور صرف نفیس طریقے سے اختلاف کا بھرپور حق رکھتے ہیں،  مگر اختلاف کے نام پر کسی کو سولی پر نہیں چڑھا سکتے۔ مجھے حنا خواجہ بیات کا ڈائیلاگ اس کہانی میں ”سُپرفِٹ“ لگا،  اور مہوش حیات کا ڈانس بسکٹ کے اشتہار میں انتہائی فضول اور احمقانہ لگا۔ بس میری اختلاف رائے اور پسند نا پسند کی حد یہیں تک ہے۔

جب پاکستان میں حب الوطنی اور اخلاقیات کی پامالی کا جھوٹا رونا رو کر پہلی بار انڈین چینلز اور ڈراموں پر پابندی لگائی گئی تھی۔ میں نے اس وقت بھی کہا تھا کہ معاشی حالات کی چکی میں پسی ہوئی عوام اور خصوصاََ خواتین سے ان کی سستی تفریح چھیننا ان کے ساتھ سراسر زیادتی ہے، پہلے یہ بتائیں کہ آپ متبادل کے طور پر انہیں کون سی تفریح دے رہے ہیں۔ بعدازاں ہم نے ترکی سے لائے گئے ڈراموں میں خواتین کی آدھی ننگی ٹانگوں اور شولڈر لیس گاؤنز میں ترک اسلام کا احیاء بھی دیکھا، جو انہیں چینلز پر نشر ہوتے تھے جو بھارتی ڈراموں کو پاکستانی معاشرے کے بگاڑ کی وجہ بتاتے تھے۔ اس کا دوسرا نقصان یہ بھی ہوا کہ پہلے جو پاکستانی اداکارائیں اپنے ملک کی ثقافت اور روایات کا احترام کرتے ہوئے پبلک کے سامنے قدرے ڈھکی چھپی رہتی تھی،  وہ اپنی ترک بہنوں سے متاثر ہوکر ان کی طرح ہی بے باک لباس زیب تن کرنے اور بے باک اداکاری کرنے کو عین اسلامی سمجھنے لگیں،  اور انسٹا پر اپنی تمام تر ہوشربائیوں کے ساتھ جلوہ فرمانے لگیں۔

انسٹاگرام پاکستان میں قدرے ایلیٹ سوشل پلیٹ فارم سمجھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس ٹک ٹاک ایک سستا اور عوامی قسم کا سوشل ایپ بن کر سامنے آیا ہے۔ انسٹا یا ٹک ٹاک بذات خود نہ اچھے ہیں نہ برے،  البتہ اس کا استعمال درست یا نادرست طریقے سے کیا جاسکتا ہے۔ میں نے خود کبھی ٹک ٹاک کا رخ نہیں کیا،  ہاں فیس بک پر شیئر کی جانے والی ٹِکٹِاکی ویڈیوز سے اس کے ماحول اور مزاج  کا پتا ضرور چل جاتا ہے،  اس لیئے اسے استعمال کرنے کی نوبت نہیں آئی۔  ہر سماج میں حاشیے میں سمٹے چند عناصر یا افراد ضرور موجود ہوتے ہیں۔ جیسے مذہب یا روایات مخالف اور باغی، ہم جنس پسند، ٹرانس جینڈر، جسم فروشی سے جڑے افراد یا مین اسٹریم میڈیا اور شوبز تک رسائی حاصل نہ کرپانے افراد وغیرہ وغیرہ۔ میں یہ نہیں کہہ رہی ہوں کہ ٹک ٹاک پر کوئی مثبت کام نہیں ہورہا اور صرف برائی اور بیہودگی ہے،  بس یہ کہہ رہی ہوں کہ یہ ایپ سماج کے حاشیے پر رہنے والے عام افراد کا ایک جذباتی اور معاشی سہارا تھا۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں پہلے ہی آزادی اظہار رائے حلق تک آچکا ہے،  ایسے ایپ کم ازکم ان حاشیہ برداروں کو ایک محدود آزادی اظہار رائے کا موقع تو دیتے ہیں۔ اگر ٹک ٹاک پر جنت مرزا کے فالورز ایک کروڑ ہوگئے ہیں تو یہ بے حیائی پھیلنے کا اشارہ نہیں بلکہ مقام عبرت ہے کہ ہماری عوام کو سستی،  مفت اور مثبت تفریح کی کتنی شدید ضرورت ہے۔ اچھی تفریح کی عدم موجودگی میں فارغ عوام یہی کرےگی جو کررہی ہے۔

اگر حریم شاہ ٹک ٹاک بندش پر پریس کانفرنس کرکے حکومت سے احتجاج کرتی ہے اور اسے اسلامی قوانین نافذ کرنے کا آئینہ دکھاتی ہے  تو کیا آپ اسے معمولی بات سمجھتے ہیں۔  جنت مرزا ہو یا صندل خٹک یا حریم شاہ، یہ ہمارے سماج کے معززین کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی ہیں۔ یہ ان معززین کی اصلیت مجھ سے اور آپ سے بہتر جانتی ہیں کیونکہ یہ اسی نظام اور سوچ کی مراعت یافتہ خواتین ہیں، جن کی گود میں عابدوزاہد اپنا عمامہ رکھتے ہیں۔ایک دلچسپ بات ہے جس کا مشاہدہ میں تو اکثر کرتی ہوں اور بارہا لکھا بھی ہے کہ جنت مرزا ہو یا حریم شاہ یا صندل خٹک ،سماج کے نام نہاد ٹھیکے دار انہیں ان کی تمام تر حشر سامانیوں کے باوجود بے حیائی کی جڑ قرار نہیں دیتے لیکن جیسے ہی خواتین کے حقوق کی سنجیدہ بحث شروع ہوتی ہے تو یہی پیشوا ہر پڑھی لکھی خاتون کو ”میرا جسم میری مرضی“ اور ”لبرل آنٹی“ کہہ کر فحش گالیاں دیتے ہیں۔ حالانکہ میرا جسم میری مرضی کی علم بردار تو فی الحال حریم شاہ ہے۔

حضرات!  اپنا حق مانگنے والی خواتین ”لبرل آنٹیاں“ نہیں ہوتیں بلکہ آپ کے پیشواؤں کی گود میں بیٹھی خواتین ”لبرل آنٹیاں“ ہوتیں ہیں۔ ان ”لبرل آنٹیوں“ کی وجہ سے آپ پاکستان کی خواتین کو جینے کا حق نہیں دینا چاہتے۔ آپ حنا خواجہ بیات یا مہوش حیات کی کسی پروفیشنل بے باکی یا حریم شاہ اور صندل خٹک جیسی دلرباؤں کی وجہ سے پاکستان کی عام خواتین سے ان کی انفرادی آزادی کا حق نہیں چھین سکتے۔ میں تو کہتی ہوں کہ حریم شاہ اور صندل خٹک جیسی لڑکیوں کو بھی own کریں ، خلوت سے جلوت میں آنے میں ان کی بھی مدد کریں۔ بھلائی چھیننے سے نہیں دینے سے آتی ہے۔ آپ پاکستانی خواتین کو ان کی مرضی سے جینے کا حق دیجیے۔ خودمختار خاتون کا مطلب ”بے حیا“ نہیں ہوتا، اپنے حقوق کی بات کرنے والی ہر لڑکی ”لبرل آنٹی“ نہیں ہوتی۔ یہ اسلام نہیں بلکہ آپ کی پدرشاہی اور مردانہ انا ہے،  جو خواتین کو اپنی مرضی کی زندگی جیتے یا کرئیر آپشنز کا انتخاب کرتے نہیں دیکھ پاتی اور اسلام کا نام لے کر انہیں پابند سلاسل رکھنا چاہتا ہے۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ اپنے ملک کی نصف سے زیادہ آبادی کو بھیڑبکریوں کی طرح سمجھیں اور ان پر چند چرواہے مقرر کردیں۔ ہر لڑکی حریم شاہ بننا نہیں چاہتی،  نہ ہی پاکستان کی سو فیصد عوام ٹک ٹاک کا استعمال کرتی ہے۔

خالی دماغ شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا جب معاشی عدم تحفظ کا شکار ہر پاکستانی نوجوان جہاد پر جانے کا سوچتا تھا اور زیادہ تر نوجوان لڑکیاں دوشیزہ یا خواتین ڈائجسٹ پڑھ پڑھ کر کزنز سے شادی کے خواب دیکھا کرتی تھیں۔ اب اگر وہی فارغ عوام ٹک ٹاک جیسے بے ضرر سے شوق میں مبتلا ہے تو انہیں یہ سستی تفریح حاصل کرنے کا پورا حق ہے۔ ٹک ٹاک پر پابندی سے آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا، ٹک ٹاک یوزرز کوئی اور ایپ ڈھونڈ لیں گے۔ آپ ٹیکنالوجی اور آزادی اظہار رائے کے حق کو کب تک عوام کی پہنچ سے دور رکھ سکتے ہیں،  یہ باتیں حکومت بھی اچھی طرح جانتی ہے اس لیئے اس مضمون کی آخری سطریں لکھنے کے دوران یہ خبر بھی اڑائی جاچکی ہے کہ حکومت ٹک ٹاک کی بحالی کا سوچ رہی ہے۔