ریاست ہائے بھوٹانیہ غیر اسلامیہ غیر جمہوریہ

وقاص احمد

دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ افریقہ کی دور دراز قبائلی ریاستوں میں ایک ریاستہائے بھوٹانیہ غیر اسلامیہ غیر جمہوریہ نام کی ایک ریاست ہوتی تھی۔ بھوٹانیہ کے لوگ بہت ہی اچھے لوگ تھے۔ ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے تھے خاص کر ایک دوسرے کی غلطیوں کا۔ ادھر کسی نے غلطی کی اور ادھر چہار سو غوغا مچ جاتا۔ لوگ اتنے خلوص سے ایک دوسرے کی درستگی کے لیے سوچتے کہ ان کے پاس اپنی غلطیوں پر نظر دوڑانے کا وقت ہی نا ملتا۔ نیکی کے پرچار پر اتنا وقت صرف ہوتا کہ گناہوں سے چھٹکارے کی طرف توجہ ہی نا جاتی۔ اس پرامن ریاست میں انصاف کی فروانی کا یہ عالم تھا کہ انصاف تھوک کے حساب سے ملتا تھا۔ مطلب یہ کہ لوگ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق جتنا بھی چاہیں انصاف خرید سکتے تھے اور کسی کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔

سماجی حالات
چونکہ بھوٹانیہ ایک غیر اسلامی اور غیر جمہوری ملک تھا اس لیے یہاں عورت کے ایک سے زیادہ خاوند ہونے یا ریاست کے ایک سے زیادہ سربراہ ہونے پر کوئی پابندی نہیں تھی، نا ہی اس کو برا سمجھا جاتا تھا۔ ان میں ایک خاوند یا سربراہ دائمی اور دوسرا بوقت ضرورت و خواہش تبدیل کیے جا سکتے تھے۔ حیرت انگیز طور پر دو خاوند یا دو سربراہ ہونے کے باوجود زیادہ تر معاملات خوش اسلوبی سے نپٹ جاتے تھے۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے چند دفعہ ایسا بھی ہوا جب ریاست کے معاملات پر دونوں سربراہان میں جھگڑا ہوا لیکن زبردست کا ٹھینگا سر پر کے مصادق دائمی طاقتور سربراہ ہمیشہ جیت گیا۔

جغرافیہ
تاریخ میں بھوٹانیہ کے جغرافیہ کے بارے میں زیادہ تفصیل نہیں،صرف اتنا لکھا ہے کہ شروع میں اس کا رقبہ دگنا تھا پھر کسی وجہ سے یہ آدھا رہ گیا۔۔۔ایسا کیوں ہوا اس بارے چونکہ کوئی تحقیقات نہیں ہوئیں اور اگر ہوئیں بھی تو دبا دی گئیں اس لیے مورخ اس پر خاموش ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر بھوٹانیہ کے عوام کو ہی اس بات سے غرض نہیں تو ہمیں کیا تکلیف ہے۔

خارجہ پالیسی
جہاں ایک طرف تمام ملکی معاملات خوش اسلوبی سے دونوں سربراہان مملکت چلا لیتے تھے، دوسری طرف خارجہ پالیسی کے موضوع پر کبھی کبھی جھگڑا ہو جاتا تھا۔ ایک سربراہ کے دوست دشمن کی تعریف کچھ اور ہو اور دوسرے کی کچھ اور تو معاملات بگڑتے تو ہیں ناں۔ ایک دفعہ ریاست کے دائمی سربراہ کا بیٹا ساتھ والے ملک کی ایک لڑکی بھگا لایا اور اسے شاہی محل کے پاس ہی کہیں چھپا دیا۔ دوسرے سربراہ کو معلوم ہوا تو اس نے پڑوسی ملک کے بادشاہ کو خبر دے دی۔ پھر کیا تھا، وہ لاؤلشکر لیکر آیا اور لڑکی اور لڑکے دونوں کو اٹھا کر لے گیا۔ اس معاملے پر دونوں سربراہان میں بہت کھٹ پٹ بھی ہوئی۔
ریاست کی انہی حرکات کی وجہ سے آس پاس کے ممالک اسے ناقابلِ اعتبار، جھوٹا اور فراڈیا ریاست سمجھتے تھے۔

تعمیر و ترقی
بھوٹانیہ کے اخبارات اور ٹی وی ٹاک شوز سے پتہ چلتا ہے کہ ملک اکثر ہی تاریخ کے نازک موڑ پر کھڑا رہتا تھا۔ ریاست کی آبادی لگ بھگ 20 کروڑ سے زیادہ تھی اور اتفاق کی بات ہے کہ تقریباً اتنے ہی فارمولے ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے ملک میں موجود تھے۔ کسی کو انفراسٹرکچر سے پیار تھا تو کوئی تعلیم و صحت کا دم بھرتا تھا، کسی کا خیال تھا کہ بھوٹانیہ کے شہریوں کو بیچ کر کمائی کی جاسکتی ہے تو کوئی یہ سمجھتا تھا صرف دفاع پر پیسہ لگنا چاہیے باقی سب خرافات ہیں۔ تو کل ملا کر نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ کسی ایک کا فارمولا بھی اس مسکین ملک پر کبھی کھل کر لاگو نا ہوسکا۔

سیاست
بھوٹانیہ کی سیاست کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک کے تمام سیاستدان اقتدار میں صرف اور صرف اس لئے آنا چاہتے تھے تاکہ وہ اپنے پیش رو کی غلطیوں کو دہرا سکیں، ملک میں اکثر سیاست اور ریاست میں سے کسی ایک کو بچانے کی بحث چلتی رہتی تھی۔ راقم اپنی کم علمی کے باعث یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ “ریاست اور سیاست” دونوں ایک ساتھ ہی کیوں نہیں بچ سکتے تھے۔

فوج
بھوٹانیہ میں فوج کے بارے میں بات کرنے پر پابندی تھی اسلئے اس سلسلے میں زیادہ معلومات نہیں۔ ہاں اتنا معلوم ہے کہ بھوٹانیہ کی ایک فوج تھی۔ پر جب ملک ہی نا رہا تو فوج کہاں رہتی۔۔ دوستو اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ ملک ہو تو فوج ہوتی ہے، ملک نا رہے تو فوج بھی نہیں رہتی۔

عوام
بھوٹانیہ کے لوگ بہت متلون مزاج لوگ تھے۔ پل میں تولہ پل میں ماشہ۔ نا ان کو ہوش میں یاد خدا رہتی تھی نا ہی جوش میں خوف خدا۔ زرا زرا سے بات پر ایک دوسرے کی جان لینے پر تل جاتے تھے۔ محبت کرتے تو محبوب کو فرشتہ بنا دیتے، نفرت کرتے تو دشمن کو ابلیس بنا دیتے۔۔سو ان فرشتوں اور ابلیسوں کے ملک میں “انسانوں” کی کوئی جگہ نہیں تھی۔

زوال
بھوٹانیہ کیوں نیست و نابود ہوا اس بارے میں ہر بندے کا اپنا فلسفہ ہے۔ انتہا پسندی، عدم برداشت، مکالمے کا فقدان، خود پسندی، نرگسیت، عالمی برادری سے تعلقات، منافقت، جھوٹ، لا قانونیت، نا انصافی، تعصب، نفرت، علم اور جدت سے دشمنی اور نظریاتی بے سمتی سمیت بہت سی علتوں کا ذکر کیا جاتا ہے، راقم کے خیال میں یہ ساری علتیں کسی نا کسی حد تک موجود تھیں۔
بہرحال بھوٹانیہ ایک “غیر اسلامی غیر جمہوری ملک” تھا اس لیے ہمیں اس کے واقعات سے عبرت/سبق پکڑنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ ہم بالکل ٹھیک جا رہے ہیں۔