سانحہ اے پی ایس کے مظلومو! ہم تمہیں بھولنا چاہتے ہیں
عابدحسین
سانحہ اے پی ایس کے متعلق بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، بہت کچھ بولا جا چکا ہے، بہت باتیں ہوئی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ یہ ایک ناقابل فراموش سانحہ ہے اور اگر بھولنا چاہیں تب بھی نہیں بھول سکتے کیونکہ بہ حثیت قوم و ریاست کے یہ ہمیشہ ہمارے چہرے پر بدنما داغ کی طرح تب تک نمایاں رہے گا جب تک ان معصوم شہیدوں کو انصاف نہیں ملے گا۔
اُس دن گاؤں میں ایک دوست کی شادی تھی تو میں یونیورسٹی کلاسز لینے نہیں گیا اور شادی میں موجود تھا۔ گیارہ بجے کے قریب جب میں نے اپنے اسمارٹ فون پر ٹوئیٹر کھولا تو پہلی خبر یہی تھی جس پر میری نظر پڑی کہ پشاور آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا ہے اور سکیورٹی فورسز اسکول کے اندر داخل ہورہے ہیں۔ میں نے ایک دوست سے کہا کہ بھائی مجھے گھر جاکر تھوڑی دیر کے لیئے ٹی وی دیکھنا ہے کہ کیا ہورہا ہے۔ خیر گھر پر ٹی وی پہ یہی بریکنگ نیوز چل رہی تھی کہ دہشت گرد اندر داخل ہوچکے ہیں، سینکڑوں بچے اور اساتذہ اندر ہیں، فائرنگ ہورہی ہے۔ کچھ پتا نہیں چل رہا تھا کہ اب کیا ہوگا؟
سکیورٹی فورسز کے اہلکار اندر داخل ہورہے تھے لیکن جو چیز اس وقت سب سے زیادہ دکھ کا سبب تھی وہ یہ کہ اندر معصوم بچے تھے۔ گولیوں کی آوازیں آرہی تھیں اور باہر بچوں کے والدین دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ کسی ماں کے سر پر دوپٹہ نہیں تھا تو کسی باپ کے پیر میں جوتے نہیں تھے۔ ان سب کو اگر فکر تھی تو صرف اپنے بچوں کی زندگیوں کی۔ جو بعد میں ہوا وہ ساری دنیا جانتی ہے کہ کچھ بچوں کو ریسکیو کیا گیا، کوئی بچ گیا تھا تو کسی کو زخمی حالت میں نکالا گیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس دن اسکول میں کم و بیش گیارہ سو طلباء موجود تھے۔ 149 بچے اور اساتذہ شہید ہوئے تھے اور اسکول انتظامیہ سمیت 144 افراد زخمی ہوئے تھے۔ بچوں سمیت 960 افراد کو ریسکیو کیا گیا تھا- اسکول پرنسپل کو کرسی پر باندھ کر زندہ جلایا گیا تھا۔ بعض بچوں کے مطابق ان کو ایک کونے میں اکٹھا کرکے ان پر فائر کھول دیا گیا تھا۔ بے حس قاتل ایک ایک کر کے اور دیکھ کر کہ اگر کوئی زخمی بچا ہو تو ان پر دوبارہ گولیاں چلا رہے تھے۔ خیر جو قیامت اس دن گزری تھی اسے بھلایا نہیں جاسکتا۔ بعد میں کچھ بچے ذہنی مریض بن گئے، کوئی اپاہج ہوگیا اور جن کے بچے نہ رہے ان کی آنکھوں میں ہمیشہ کے لیئے درد اور کرب نے ڈیرے ڈال دیئے۔
پانچ سال ہوگۓ لیکن بہ حیثیت ریاست ہم ہرسال ایک نئے ترانے پر اکتفا کررہے ہیں۔ ہر سال ان والدین کے زخموں پر نمک پاشی ہوتی ہے۔ ہر سال نیا نغمہ تیار کیا جاتا ہے۔ شہداء کی تصاویر چھاپی جاتی ہیں۔ جلسے جلوس منعقد کیئے جاتے ہیں۔ والدین کو بلا کر ان کے زخموں کو ہرا کیا جاتا ہے اور انہیں رلایا جاتا ہے۔ دشمن کے بچوں کو پڑھانے کا عزم کیا جاتا ہے۔ آگے جانے کی بات کی جاتی ہے۔ ان معصوم بچوں کی موت پر ایسے ڈھول پیٹے جاتے ہیں کہ جیسے انہوں نے کسی محاذ پر یا میدان جنگ میں جان دی ہو۔ حکومت نے اسکولز کو شہید بچوں کے ناموں سے منسوب کردیا۔ دہشت گردوں کی کمر توڑنے کی بات ہوئی اور والدین سے کہلوایا گیا کہ انہیں اپنے بچوں کے موت پر فخر ہے۔ یہ سلسلہ آج پانچ سال بعد بھی ویسے ہی جاری ہے۔ ہر سال وہی پرانی باتیں دہرائی جائیں گی۔ والدین کو تکلیف دی جاۓ گی اور اگلے سال کے لیئے نئے ترانے کا بندوبست کیا جائے گا۔ سب جانتے ہیں کہ ان بچوں کے والدین کی کیا حالت ہے۔ ان کے دل پہ کیا گزری ہے اور کیا گزررہی ہے۔
میں ذاتی طور پر ایسے والدین کو جانتا ہوں جن کے بچے اے پی ایس سانحے میں شہید ہوئے تھے۔ وہ آج بھی کہہ رہے ہیں “ہمارے بچوں کے خون کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ ہمیں ابھی تک انصاف نہیں ملا بس 16 دسمبر کو بلایا جاتا ہے، پروگرام منعقد کیئے جاتے ہیں بلکہ ہمارے بچوں کے موت کے دن کا جشن منایا جاتا ہے جو ہمارے لیئے باعث تکلیف ہے” سانحہ اے پی ایس کے تقریباً ایک مہینے بعد ایک دن جب میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ گاڑی میں بیٹھا ایک جگہ سے گزر رہا تھا تو ہماری ایک خاتون صحافی دوست نے ایک مکان کی طرف اشارہ کیا کہ اس گھر کا ایک بچہ زخمی ہوا تھا۔ دوست کے مطابق جب وہ اس بچے کے پاس انٹرویو لینے گئی تو اسے بچے سے ملنے نہیں دیا گیا یہ کہہ کر کہ اس کی اجازت نہیں ہے۔ جب اس نے اس بچے کے والدین سے ملنے کی درخواست کی تب بھی اس طالب علم کے گھر کے باہر سادہ کپڑوں میں ملبوس نامعلوم پہرےداروں نے والدین سے ملنے سے بھی روک دیا۔ خیر سانحہ آرمی پبلک اسکول سانحہ پر بہت سوالات اٹھے تھے جو اب بھی موجود ہیں۔ بعض بچوں سے بہت بعد میں کچھ ایسی باتیں معلوم ہوئیں کہ ہیرو ولن نظر آنے لگے۔ ایسے کئی والدین ہیں جنہوں نے احتجاج کیا کہ ہمارے بچوں کو مارنے والے قاتلوں کے بارے میں ہمیں بتایا جائے۔ کئی ایک والدین نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں درخواست جمع کرائی کہ اس واقعے کی شفاف تحقیقات کروائی جائے۔
یہ بدنما داغ ریاستی اداروں اور انصاف کے منہ پر ہمیشہ رہنے والی کالک کی طرح موجود رہے گا۔ پچھلے سال مئی میں سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جائے جو سانحہ آرمی پبلک اسکول کی شفاف تحقیقات کرائے تاکہ کوتاہی برتنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکے لیکن کسی کو جرات نہیں ہوئی کہ کمیٹی بنانے یا انوسٹیگیشن کرانے کا سوچے۔ سانحے کے اگلے دن کچھ تصاویر میڈیا پر چلائی گئیں کہ کچھ دہشت گردوں کا تعلق مصر، ازبکستان اور افغانستان سے تھا۔ بتایا گیا کہ یہ منصوبہ افغانستان میں بنایا گیا۔ چلیں جی یہ بات تو ماننی پڑے گی کہ منصوبہ بندی افغانستان میں ہوئی اور دہشت گرد بارڈر پار افغانستان سے آئے تھے اور عجیب وغریب ناموں والے وہ ازبک، تاجک اور عربی دہشت گرد مارے بھی گئے ہیں اور یہ بھی درست مان لیتے ہیں کہ منصوبے کا ماسٹر مائنڈ بھی افغانستان میں تھا لیکن تب بھی حیرت ہوتی تھی کہ جب کبھی امریکی ڈرونز نے پاکستانی خودمختاری کو نیست و نابود کرکے اس سرزمین پر حملہ کیا اور بقول ہماری حکومت کے طالبان کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتا تھا تو حکومت اور فوج کی طرف سے یہ دعوی کیا جاتا تھا کہ اے پی ایس حملے کا ماسٹر مائنڈ مارا گیا۔ خدا گواہ ہے سانحہ آرمی پبلک اسکول کا ماسٹر مائنڈ ہزاروں دفعہ مارا گیا ہے۔ کبھی وزیرستان آپریشن میں کبھی امریکی ڈرون حملے میں تو کبھی سرچ آپریشن کے دوران۔
خیر چھوڑیں ہم کون ہوتے ہیں پوچھنے والے کہ اسکول کے اندر مارے جانے والے کون تھے یا ماسٹر مائنڈ مارا بھی گیا ہے یا نہیں؟
سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ ماسٹر مائنڈ حقیقی کردار تھا یا فکشن؟ جنہیں ماسٹرمائنڈ کہا گیا کیا وہ واقعی ماسٹر مائنڈ تھے؟ سانحے کے ایک آدھ مہینے بعد چند بچوں کو والدین نے باہر بھیجا کہ ادھر ان کی جان کو اب بھی خطرہ ہے۔ جس سے ذہن میں طرح طرح کے سوالات ابھرے تھے جو اب بھی موجود ہیں۔ پرنسپل صاحبہ کے شوہر کی کڑی نگرانی کی جاتی تھی۔ ایک سوال یہ بھی تھا کہ اگر دہشت گرد سب کو مار رہے تھے تو پرنسپل صاحبہ کو بھی گولی سے ماردیتے۔ اگر وہ مزاحمت کررہی تھیں تب بھی انہیں گولی مارنے کے بجائے آگ کیوں لگائی گئی؟ شہداء کے والدین کے اصرار کے باوجود ابھی تک تحقیقات کیوں نہیں کی گئی؟ سپریم کورٹ کے احکامات کو نظرانداز کیوں کیا گیا؟
ایک جاننے والا فرانزک ایکسپرٹ ہے۔ اس کے مطابق جب اگلے دن وہ شواہد اکھٹا کرنے گئے تو بہت سے ضروری شواہد جن کو اپنی جگہ پر موجود ہونا چاہیئے تھے وہ نہیں تھے۔ بعض جگہوں سے شواہد اکھٹا کرنے نہیں دیاگیا اور بعض جگہوں پر پانی چھوڑ دیا گیا تھا۔ اہم ذرائع سے حاصل ہونے والی بعض باتیں اور واقعات ایسے ہیں جن کو بیان کرنا بے حد مشکل ہے۔ سانحے کے چند ماہ بعد جب چند والدین سے بات کی کہ ان کے بچوں سے ملنا ہے تو انہوں نے صاف منع کردیا کہ “ہمیں معاف کیجئے! ہمیں اپنی جان پیاری ہے”
سوالات بہت ہیں پر جواب دینے والا کوئی نہیں ہے۔ بارڈر پار سے بندے آتے ہیں لیکن کسی کو کانوں کان کوئی خبر نہیں ہوتی۔ منصوبہ بندی کا عین واقعے کے دن پتا چل جاتا ہے، کیسے؟
کہا جاتا ہے کہ پہلے سے سکیورٹی معلومات تھیں تو پھر اقدامات کیوں نہیں کیئے جاتے، کیوں واقعہ رونما ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے؟
سکیورٹی لیپس کی ذمہ داری کس پر تھی، کیوں ان ذمہ داران سے پوچھا نہیں گیا؟
مملکت خدادا میں ڈالر اوپر جانے پر استعفٰی مانگا جاتا ہے لیکن فوجی سربراہ اور انٹیلیجنس ادارے کے سربراہ سے کیوں نہیں پوچھا گیا یا ان سے استعفے کیوں نہیں لیئے گئے؟
ابھی تک انکوائری کیوں نہیں کی گئی؟
ایک شہید بچے کی ماں کے وہ الفاظ نہیں بھلاۓ جاسکتے جب وہ فرط غم واضطراب میں چیخنے لگی “چپ کر جاؤ! کیا شہید شہید کی رٹ لگا رکھی ہے، ہم نے اپنے بچوں کو بارڈر پر لڑنے نہیں بھیجا تھا” اے پی ایس کے معصوم پھولوں آپ کو کوئی نہیں بھول سکتا۔ آپ ناقابل فراموش ہیں مگر یہ سچ ہے کہ آپ کے خون کا حساب اب بھی باقی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ آپ کو فقط یاد کیا جاتا ہے۔ آپ کے والدین کو ہر سال رلایا جاتا ہے۔ آپ کے والدین سے آپ کی شہادت پر فخریہ الفاظ کہلواۓ جاتے ہیں لیکن میرے عظیم، مظلوم، معصوم اور انصاف کے طلبگار روحوں ہم آپ کو بھولنا چاہتے ہیں۔ اس لیئے نہیں کہ ہمیں آپ سے پیار نہیں بلکہ اس لیئے کہ آپ کے بے بس والدین کے زخموں کو مزید ہرا نہیں کرنا چاہتے اور آپ کی شہادت پر ڈھول پیٹنا نہیں چاہتے۔ ہم آپ کو اس لیئے بھولنا چاہتے ہیں کہ ہم آپ کو یاد کرنے کے لائق ہی نہیں ہیں۔
“کیوں کہ ہم آپ کے خون کا حساب نہ لے سکے
کیوں کہ ہم ہر سال نئے ترانے گانے والے لوگ ہیں
ہم ہر سال یہ دن منانے کو انصاف کہتے ہیں
ہم نغموں کو بہادری سمجھتے ہیں
ہم عوام کو گمراہ کرنے کو حب الوطنی کہتے ہیں
میرے معصوم فرشتو! ہم تمہیں بھولنا چاہتے ہیں”